سفر سے پہلے خواہ مخواہ سفری کالم

June 30, 2024

’مائی بیسٹ فرینڈ‘ والا چٹکلہ تو آپ نے سُن رکھا ہو گا۔ ایک بچے نے مائی بیسٹ فرینڈ پر مضمون لکھ کر رَٹ لیا، اب جہاں بھی اسے انگریزی بولنے کی ضرورت پیش آتی، وہ تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ اِس مضمون کی انگریزی فر فر بولنی شروع کر دیتا۔ امتحان میں سوال آیا کہ ہوائی جہاز کے سفر پر مضمون لکھو، اُس نے لکھا کہ ’’میں کراچی جانے کیلئے ہوائی جہاز میں سوار ہوا تو یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ برابر والی نشست خالد کی ہے۔ خالد میرا بہترین دوست ہے، ہم ایک ہی جماعت میں پڑھتے ہیں، اُس کے والد ڈاکٹر ہیں اور والدہ استانی، خالد ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اسکول آتا ہے ...‘‘ کچھ ایسا ہی مضمون ہم کالم نگاروں نے بھی رٹا ہوا ہے۔ جب بھی ہمیں بیرون ملک کا سفر درپیش ہوتا ہے تو ہم اُس ملک کی صفائی ستھرائی، ٹریفک کے نظام اور لوگوں کی خوش مزاجی کا موازنہ اپنی بد مزاجی، بد انتظامی اور گندگی سے کرنا شروع کر دیتے ہیں، چاہے وہ ملک روانڈا ہی کیوں نہ ہو، اور اگر بات کسی مغربی ملک کی ہو تو کیا کہنے، اُس صورت میں ’مائی بیسٹ فرینڈ‘ لکھنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آج مجھے بھی درپیش ہے۔ تقریباً دو ماہ پہلے برادرم احسان شاہد نے مجھے لندن سے فون کیا اور پوچھا کہ آپ جولائی میں کیا کر رہے ہیں، میں نے جواب دیا کہ ایک ہفتے کیلئے کینیڈا جانے کا ارادہ ہے کیونکہ میں دو مرتبہ کینیڈا کا ویزا لگوا چکا ہوں مگر اب تک نہیں جا سکا، اور اگر اِس مرتبہ بھی نہ گیا تو جسٹن ٹروڈو نے میرے داخلے پر پابندی لگا دینی ہے۔ احسان شاہد بولے یہ تو بہت اچھی بات ہے، آپ لندن سے ہوتے ہوئے جائیں، یہاں ہم نے ایک تقریب رکھی ہے جس میں شرکت کر کے ہم دونوں کا اقبال بلند ہو گا۔ نیکی اور پوچھ پوچھ، ہم نے ہامی بھر لی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لندن پہنچے کے بعد جو کالم لکھنا ہے، سوچا آج ہی لکھ کر رکھ لیتے ہیں، انگریزوں کی تعریفیں ہی تو کرنی ہیں!

مشتاق یوسفی نے ’آبِ گُم‘ میں لکھا ہے کہ ’’مرزا کہتے ہیں کہ بدصورت انگریز عورت Rarity (نایاب) ہے۔ بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے۔‘‘بلاشبہ جملہ تو کمال کا ہے مگر حقیقت میں انگریزوں کی پسند بھی کچھ اسی قسم کی ہے، تھائی لینڈ میں ہر دوسرے انگریز کے ساتھ ایسی ہی عورت ہوتی ہے اور و ہ اُس کے ساتھ یوں جھوم رہا ہوتا ہے جیسے جنت کی حور ہمراہ ہو۔ معافی چاہتا ہوںکہ ’مائی بیسٹ فرینڈ‘ کے موضوع سے ہٹ گیا، مجھے تو لندن کے بارے میں لکھنا تھا۔ لیکن یہ سفری کالم لکھنے کی دوسری تکنیک ہے۔ اِس تکنیک میں لکھاری بظاہر تو سفر کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتا ہے مگراصل میں اُن کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یعنی وہ لکھنا شروع کرے گا کہ ’’لندن کی گلیوں میں پھرتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے عجیب سی آزادی اور بے خودی کا احساس ہوا، شاید اِس شہرکی فضا ہی کچھ ایسی ہے، بے ساختہ شاہ حسین کے شعر میری زبان پر آگئے۔ ’ربا میرے حال دا محرم توں۔ اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، رُوم رُوم وِچ توں۔ توں ہیں تانا، توں ہیں بانا، سب کُج میرا توں۔ کہے حسین فقیر نماناں، میں ناہیں سب توں۔‘ شاہ حسین کی شاعری آفاقی ہے، لاہور کایہ سپوت سولہویں صدی میں پیدا ہوا تھا، اِس کا عرس، میلہ چراغاں، آج تک منایا جاتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ خود لاہور میں اپنے محل سے شاہ حسین کے مزار تک میلہ چراغاں کے دوران ننگے پاؤں جلوس کی قیادت کرتا تھا اور اِس میں ہزاروں سکھوں کے ساتھ، مسلمان اور ہندو بھی شامل ہوتے تھے۔ رنجیت سنگھ بھی کمال کا آدمی تھا، اُس کی سمادھی بھی یہیں لاہور میں ہے....‘‘ آپ میں سے جن لوگوں کو لگ رہا ہے کہ شاید میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں، اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یار لوگوں نے مختلف شہروں پر ایسی کتابیں لکھ رکھی ہیں جن کا انہوں نے سفر تو کیا مگر اُس شہریا سفر کا تذکرہ اتنا ہی کیا جتنا میں اس کالم میں لندن کا کر رہا ہوں۔

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے یہ سب لکھ کر اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماری ہے۔ ایک تو میں نے ’ٹریڈ سیکریٹ‘ (بولے تو رازِ تجارت) افشا کر دیا ہے کہ سفری کالم لکھے کیسے جاتے ہیں اور دوسرے میں نے یہ عندیہ بھی دے دیا کہ میں ایسے نہیں لکھوں گا۔ گویا خواہ مخواہ قاری کی توقعات میں اضافہ کردیا ہے جو اب سوچے گا کہ نہ جانے میں لندن جا کر ٹوپی میں سے کون سا کبوتر نکالوں گا۔ حالانکہ میں نے کوئی نیا لندن دریافت نہیں کرنا، لندن تو وہی ہے جو چھ سال پہلے تھا جب میں آخری مرتبہ وہاں گیا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ہر بات میں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جو تجربات انہوں نے زندگی میں کیے ہیں وہ کسی دوسرے نےنہیں کیے۔ اُن سے اگر آپ ذکر کر دیں کہ میں اگلے ہفتے لندن جا رہا ہوں تو وہ فوراً بتانا شروع کردیں گے کہ فلاں فلاں جگہ ضرور جانا، اور اگر آپ جواباً کہیں کہ قبلہ میں پہلے بھی جا چکا ہوں، مجھے اندازہ ہے کہ ٹریفلگر سکوائر یا ہیرڈز کی کیا اہمیت ہے تو وہ غصہ دلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیں گے کہ اگر آپ نےلندن کا فلاں محلہ نہیں دیکھا اور اُس کی بغل میں واقع چھ سو سال پرانے ڈھابے سے کافی نہیں پی، جہاں سے جارج پنجم بھی کافی پیتا تھا، تو سمجھیں آپ نے لندن دیکھا ہی نہیں۔ اللّٰہ کو جان دینی ہے، بندے کو سچ بولنا چاہیے، اور سچ یہ ہے کہ یو ٹیوب کے بعد سفری کالم لکھنے بے حد مشکل کام ہو گیا ہے۔ پہلے سفر نامہ نگار بڑی محنت سے منظر نگاری کرتا تھا تاکہ قاری کو اُس جگہ کے سحر میں مبتلا کر دے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہوتا تھا مگر اب چاہے آپ دنیا کے آخری قصبے کی سیر ہی کیوں نہ کر کے آئے ہوں، وہاں کوئی نہ کوئی شیر جوان پہلے سے گیا ہو گا جس نے اُس جگہ کا کلپ بنا کر یوٹیوب پر چڑھا بھی دیا ہو گا۔ ایسے میں بیچارہ سفر نامہ نگار اپنی تحریر میں جتنے بھی رنگ بھر دے وہ بات نہیں بنے گی جو اُس ویڈیو کلپ سے بنتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ سفر نامہ نگار ہمت ہار بیٹھیں، انہیں سفری تجربات کے بارے میں لکھتے رہنا چاہیے مگر ایسے نہیں کہ لگے جیسے یو ٹیوب کی ویڈیو دیکھ کر لکھ دیاہے، بلکہ ایسے جیسے اشفاق احمد نے ’بابا صاحبا‘ میں کوکا کولا کے بارے میں لکھا تھا، ورنہ کوکا کولا تو ہر کسی نے پی ہوئی ہے، مگر ہر کوئی ایسے نہیں لکھ سکتا۔ بس یہی آرٹ ہے اور اسی سے لکھاری کے فن کا پتا چلتا ہے!