مذاکرات کی پیشکش!

June 28, 2024

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش جمہوری روایات و اقدار کا ایک لازمہ ہونے کے ساتھ ملک کو درپیش حالات و مسائل کی ضرورت بھی ہے۔ اختلاف رائے اور موقف کا فرق رکھنے والے سیاسی رہنما جب کھلے دل کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں تو کئی مسائل حل کرنے اور مشکلات دور کرنے کی راہیں نکل آتی ہیں۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر اپوزیشن کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک و قوم کی خوشحالی کے لئے مل بیٹھ کر فیصلے کئے جانے چاہئیں، بانی تحریک انصاف عمران خان کو جیل میں کوئی مشکلات ہیں تو آئیں مل بیٹھ کر بات کریں اور معاملات کو طے کریں۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکومت سے بات تب ہوگی جب عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنان جیلوں سے باہر آئیں گے۔ میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ماضی میں عمران خان حکومت کے دوران اپوزیشن سے روا رکھے گئے طرز عمل بالخصوص جیل میں بند لیڈروں کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ موجودہ حزب اختلاف کے ساتھ نہ ہو۔ اچھا ہوتا کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کی پیشکش کا غیر مشروط مثبت جواب دیا جاتا۔ ملک کے حالات متقاضٗی ہیں کہ سیاسی تنائو کم کرکے مصالحت اور مفاہمت کی راہیں ہموار کی جائیں۔ مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ ان کے حل کی کاوشوں میں کوئی تساہل نہیں برتا جانا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطے اس کی موثر صورت ہیں۔ بات سیاسی کشیدگی اور اپوزیشن کے ساتھ ناروا رویے کی شکایت کی ہو یا خود اپوزیشن کےطرز عمل کے بارے میں حکومت کی رائے کی ہو، فریقین میں رابطے اور سیاسی مذاکرات ضروری ہیں۔ سیاست ناممکنات میں سے ممکنات نکالنے کے فن کا نام ہے جبکہ جمہوری اقدار کھلے دل اور ذہن کے ساتھ بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ سیاسی کشیدگی تو داخلی مسئلہ ہے، بڑی بڑی جنگوں میں بھی بھاری نقصان اٹھانے کے بعد جیتنے اور ہارنے والے فریقوں کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن لیڈر کی تقریر سے کوئی حوصلہ افزا صورت حال اگرچہ فوری طور پر سامنے نہیں آئی مگر جب اس نوع کی کوششیں کی جاتی ہیں تو جلد یا بدیر ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ فریقین میں سے کسی ایک کی جانب سے جب مذاکرات کی پیشکش سامنے آتی ہے تو یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ پہل کاری سے اجتناب برتا گیا، یوں بات چیت کا راستہ کھلنے، مل بیٹھنے اور آگے بڑھنے کے راستے ہموار ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما موجودہ حکمرانوں سے بات چیت کو اگر اپنی دلیل کی بنیاد پر بےفائدہ سمجھتے ہیں تب بھی اسٹیک ہولڈرز سے بالواسطہ رابطے کی صورت نکلتی ہے۔ ایسے حالات میں، کہ ملکی معیشت کے جمود اور مہنگائی کی وجہ سے عام لوگ پریشانی کے شکار ہیں اور تعلیمیافتہ نوجوانوں کی بیرون ملک منتقل ہونے کی شرح خاصی بڑھ چکی ہے سیاستدانوں کو ایسی باتوں سے اجتناب برتنا چاہئے جن سے لوگوں میں مایوسی بڑھے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بات چیت اور مذاکرات سے نئے رستے کھلتے ہیں، جو شرط عمر ایوب نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے رکھی ہے، اسی نکتے کومذاکرات کی میز پر پہلے نکتے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ رائے بھی وزن رکھتی ہے کہ موجودہ حکومت کیساتھ مذاکرات کو اگر اسٹیک ہولڈرز سے بالواسطہ مذاکرات سمجھا جائے تو اس سے تحریک انصاف کو نقصان نہیں ہوگا، البتہ فائدے کی امید کی جاسکتی ہے۔