آئی ایم ایف شرائط

June 28, 2024

12جون کو پارلیمان میں پیش کیا جانے والا مالی سال 2024-25ءسے متعلق فنانس بل اس وقت دونوں ایوانوں میں زیر بحث ہے۔اسے صدرمملکت کے دستخطوں سمیت یکم جولائی سے پہلے پاس کیا جانا ہے۔عین آخری لمحات میں یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکسوں سے متعلق بیشتر مدوں میں رعایت دینے سے انکار کردیا ہے اور تاحال محض نصابی کتب پر جی ایس ٹی کے خاتمے ،ہائر ایجوکیشن کی سطح پر تدریسی عملے کے ری بیٹ کی بحالی اور سیمنٹ پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی واپسی اور دیگر تکنیکی تبدیلیوں پر اتفاق کیا ہے تاہم اسٹیشنری کے سامان پر 18فیصد سیلز ٹیکس لگے گا۔حکومت نےتجارتی شعبے سے متعلق برآمد کنندگان پر متعین ٹیکس کی بحالی کی تجویز دیتے ہوئے اسے ایک سے دو یا تین فیصد تک بڑھانے کو کہا ہےلیکن آئی ایم ایف نے اس کی بھی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں حکومت کیلئے 250ارب روپے کا مالیاتی فرق پورا کرنا ایک چیلنج ہے۔اس وقت جہاں ملکی بر آمدات بڑھانے کیلئے تجارت اور بیمار صنعتوں کو ریلیف فراہم کیا جانا بنیادی تقاضا ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس شعبے میںٹیکس کی شرح میں تخفیف سے پی ایس ڈی پی 1400سے گھٹ کر 1150کی سطح پر آجائے گا۔دوسری طرف عام آدمی بجلی و گیس کے ہوشربا بلوں کی بمشکل ادائیگی کے بعد بچوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتا،18فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے اسٹیشنری کی قیمتیں اس کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی ۔اس وقت کتابوں کاپیوں ،اسٹیشنری ، اسکول فیسوں،یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کی مد میں ایک بچے کے اخراجات والدین کسی صورت پورا نہیں کرپارہے۔مراعات یافتہ طبقے کو آگے آنا چاہئے اور قوم کے نونہالوں کے بہتر مستقبل کی خاطررضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات میں کٹ لگانے کیلئے حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔