میرٹ کہاں گیا؟

June 28, 2024

ترقی کا راز تعلیم و تربیت میں ہے، کسی بھی قوم کا مستقبل جاننے کیلئے تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں، اگر علم کیساتھ ہُنر، منصوبہ بندی ، کردار سازی، کھیل، اعلیٰ سماجی تربیت اور وطن سے محبت نظر آئےتو سمجھ جائیں کہ مستقبل روشن ہے اور اگر رٹے کی بنیاد پر پوزیشنیں اور گریڈ نظر آئیں تو مستقبل تاریک ہوگا۔ ہمیں امریکا، یورپ، چین اور جاپان کی ترقی کے قصے سنائے جاتے ہیں، یہ راز نہیں بتایا جاتا کہ ان قوموں نے خوفناک تباہی کے بعد تعلیمی نظام پر توجہ دی اور پھر چند برسوں نے ماضی کو ایسے چھپایا کہ جیسے وہ ازل سے مہذب اور ترقی یافتہ تھے۔ دراصل ان قوموں نے علم کے ساتھ ہُنر کو رواج دیا۔ ٹیم ورک اور نظم و ضبط کو اپنایا۔ بچوں میں ایمانداری کو فروغ دے کر نقل اور کرپشن کے راستے بند کئے۔ دیانتداری تو دیکھیے کہ امریکا میں کسی بھی امتحانی سینٹر پر کوئی نگران نہیں ہوتا۔ میرے ایک پاکستانی دوست نے امتحان دینے والے امریکی بچے سے پوچھا کہ جب کوئی نگران نہیں ہوتا،آپ تو پھر کھلی بوٹی لگاتے ہوں گے؟ جواب آیا "انکل! امریکی بچے نقل نہیں کرتے "۔ ہمارے ہاں بچے تو کیا بڑے بھی ضدی ہیں،اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات اپنی ذات کے حصار سے نکلتی ہی نہیں، انفرادی سوچ قومی سوچ پر غالب آ گئی ہے۔ میں آج کل ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں دوسری ٹیموں کو کھیلتے دیکھتا ہوں تو اپنی ٹیم یاد آتی ہے پھر اس کی "ٹریننگ" یاد آتی ہے، ہمارے کرکٹرز نے قوم کو مایوس کیا، ٹیم ورک نظر آیا ہی نہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کوا سکول میں ٹیم ورک نہیں سکھاتے۔ ہٹلر پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد پریشانی کے عالم میں اپنے اسکول ٹیچر سے ملنے گیا تو استاد نے مشورہ دیا کہ" پرائمری اسکول ٹیچرز کی تنخواہیں ججز کے برابر کردو"۔ ہٹلر نے عمل کیا تو جرمن زندہ ہو گئے۔ پیارے پاکستان کو دیکھ لیں، تمام شعبوں کی طرح تعلیمی نظام بھی تنزلی کا شکار ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے برباد کردئیے گئے، یہ کہنا غلط نہیں کہ ہماری مجموعی تباہی کا ایک ذریعہ نظام تعلیم بھی ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف نے اسکولوں کو کمپیوٹر لیبارٹریاں فراہم کیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ٹیچرز میرٹ پر بھرتی کئے۔ عمران خان نے ایک قومی نصاب جیسا کارنامہ انجام دیا لیکن ان تمام حکومتوں کو بحیثیت مجموعی میرٹ کلچر کو فروغ دینے میں ناکامی ہوئی۔ میرٹ پر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے جبکہ رانا پھول خان صوبائی وزیر۔ رانا پھول خان کے علاقے کی ایک لڑکی نے ایم اے پاس کیا تو وہ اس کی سفارشی درخواست لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس پہنچے لیکن غلام حیدر وائیں نے میرٹ سنانا شروع کر دیا، رانا پھول خان خوب ہنسے اور پھر کہنے لگے کہ"وائیں صاحب! آپ دسویں پاس کر کے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں، میں آٹھ جماعت پاس صوبائی وزیر ہوں، اس لڑکی نے ایم اے کر رکھا ہے، میرٹ کے حساب سے تو اسے صدر پاکستان ہونا چاہئے"۔افسوس کہ میرٹ پر اب بھی عمل نہیں ہو رہا۔ پنجاب کے ہر ضلع میں سرکاری ٹیچرز ٹریننگ کے لئے ایک ادارہ قائد اعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (QAED) کام کررہا ہے، جس کا مقصد ٹیچرز کی پیشہ وارانہ تربیت ہے۔ان اداروں میں میرٹ پر سربراہ بنایا جاتا ہے، افسوس! میرٹ کی کشتی نارووال کے مقام پر راوی میں الٹ گئی ، راوی لاہور کے قریب سے گزرتا ہے، روزانہ پیغام دیتا ہے کہ نارووال کے ٹیچرز ٹریننگ ادارے QAED میں میرٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے، گریڈ بیس کی پوسٹ پر انیس گریڈ کا بندہ لگا دیا گیا ہے، یہ "کارنامہ" چھپانے کے لئے مبینہ طور پر اسکول انفارمیشن سسٹم ( SIS) پر ملی بھگت سے گریڈ بیس کی پوسٹ کو گریڈ انیس میں بدل دیا گیا ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں ان اداروں کے سربراہ گریڈ بیس کے ہیں جبکہ نارووال میں گریڈ انیس کا بندہ تعینات کر دیا گیا ہے، افسوس کہ گریڈ بیس کے بندے اس کے نیچے کام کر رہے ہیں۔

ہم اگر پاکستان کو درست سمت میں لے جانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تعلیم و تربیت پر توجہ دینا ہوگی، امتحانی نظام درست کرنا ہوگا۔ پنجاب میں اس وقت پچاس فیصد سے زائد سرکاری اسکولوں میں ہیڈ ٹیچرز نہیں ہیں، اسامیاں خالی پڑی ہیں، کوئی پر کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کر رہا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں کمیونٹی سروس کا انتظام نہیں، ہمارے ہاں سوشل ورک سکھایا ہی نہیں جاتا، نہ ہی سماجی تربیت کا کوئی انتظام ہے، سماجی تربیت میں آداب محفل، گفتگو اور کھانے کے آداب ، سفر کرنے، سڑک پر پیدل چلنے کا سلیقہ، زندگی میں دیانتداری، سچ کا فروغ، وطن پرستی اور قومی سوچ شامل ہیں۔ کالاقادر ،نارووال کے جاٹ شاعرفیض احمد فیض کا شعر یاد آ گیا ہے کہ

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لا دوا نہ تھے