• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معزز قارئین کرام! جیسا کہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان اپنے وجود سے اب تک چوراہے پر ہی کھڑا نظر آرہا ہے۔ ہر لمحہ موجود نازک سے نازک ترین گزر رہا ہے۔ بحران پر بحران پیدا کرکے ایک نئے اور بڑے بحران کو جنم دینے کی پرانی روایت زور شور سے جاری ہے۔ ہم مارشل لاسے جمہوریت تک ہر دور میں دوراہے بلکہ چوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس ملک کو نقصان پہنچانے والوں کی ایک لمبی فہرست، تاریخ اور داستان بڑی تفصیل سے ہماری اوطاق میں موجود ہے کبھی وقت ملے تو ضرور پڑھئے شائد کچھ سمجھ آجائے۔ ایک بڑے چور کو پکڑنے کے کھیل میں اس سے بڑے چور پیدا کرنا اس کھوکھلے نظام کا ایک ایسا باب ہے کہ اب ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ کم از کم گزشتہ دو دہائیوں سے جنم لینے والے یہ خدشات حقیقت بنتے نظر آرہے ہیں کہ ہم آج ڈوبے یا کل۔ آئی ایم ایف سمیت عالمی سامراج کے بنائے نام نہاد مالیاتی قرض نظام کے چنگل میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ جس سے نکلنا اب کسی ایک کے بس کی بات بالکل نہیں رہی۔ خوابوں سے باہر نکل آئیے، حکمرانوں کے نعروں پر یقین مت کیجئے۔ آئی ایم ایف کی ناقابل تصور شرائط پر ملنے والے قرضے اور ان قرضوں کی بنیاد پر دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ملنے والے قرضوں پر چڑھنے والے سود کے نتیجے میں ہم غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر زبردستی مجبور کئے جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں خوف یہ آتا ہے کہ خدانخواستہ ہم نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر وسیع تر قومی مفاد میں میثاق معیشت پر اتفاق نہ کیا تو بہت جلد تاریخ کی کتابوں میں ایسی کہانی لکھی جائے گی کہ ہم کسی کے سامنے آنکھ بھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ مورخ ہمیں ایک بے وقوف ، موقع پرست، مفادات کی غلام، ہوس، لالچ، حسدکی ماری ایسی قوم لکھے گا کہ جس کو قدرت نے ہر طرح کے معدنی وسائل دینے کے ساتھ بار بار ترقی کے مواقع دیئے لیکن اگلے پچھلے حکمران اور یہ قوم سدھر نہ سکے۔ سونا اگلتی زمینیں، پانی سورج کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع، گیس و تیل کے ذخائر سے مالا مال زمین کے ٹکڑے، صنعتی ترقی کے لئے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاس دولت کی فراوانی کے باوجود یہ قوم ترقی نہ کرسکی۔ ٹیکسٹائل ، چمڑے کی عالمی معیار کی مصنوعات تیار کرنے کے لئے خام مال کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے کارخانے اور انہیں چلانے والے محنت کش بھی موجود تھے، کھیلوں کا ایسا سامان تیار کیا جاتا تھا کہ دنیا میں فٹ بال سے کرکٹ تک کھیل کے ہر میدان میں جسے استعمال کرکے ہر کھلاڑی فخر محسوس کرے۔جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کہانی بھی کھل کر سامنے آئے گی کہ یہ دنیا کا ایسا بدقسمت ملک ہے کہ جس نے دنیا کو ذہین ترین افرادی قوت فراہم کی، ایشیا کاسب سے بڑا لوہے کا کارخانہ (پاکستان سٹیل ملز) لگاکر دنیا کو اعلیٰ ترین کوالٹی کا لوہا ایکسپورٹ کرکے اپنا مقام بنایا، دنیا بھر کے ہسپتالوں میں اس ملک کے تیار کردہ سرجیکل آلات استعمال ہوتے تھے۔ قومی ایئر لائن پی آئی اے وجود میں آئی تو عالمی سفری سہولتوں کی فراہمی میں بہترین مقام بنایا۔ پھر اسی ایئر لائن کے دو جہازوں کی مدد سے دنیا کی بہترین ایمریٹس ایئر لائن وجود میں آئی اور آج پی آئی اے اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔

مورخ لکھے گا کہ اس قوم کے پاس لاکھوں ایکڑ بنجر زمینیں بھی موجود تھیں جس پر سونا اُگلا جاسکتا تھا۔ ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہرے بھرے جنگلات تھے، سیرو سیاحت کے ایسے ایسے مقامات کہ لوگ سوئٹزر لینڈ جانا بھی بھول جاتے۔ کے ٹو جیسے بلند ترین برف پوش پہاڑ، سونے،تانبے، زمرد جیسے قیمتی پتھر اور پنک سالٹ کی کانیں موجود ہیں، یہ وہ ملک ہے کہ جہاں ایک ہی وقت میں چار موسموں کی بہار ہے پھر بھی یہ قوم روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کی محتاج رہی۔ اس قوم کا بچہ بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہوگیا۔ ہمارے عروج زوال کی یہ داستان جب بھی لکھی جائے گی تو پھر اس کی وجوہات کا بھی تذکرہ اور تبصرے ہوں گے کہ آخر اس قوم کے ساتھ ہوا کیا ہے، کیوں یہ قوم اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی؟ پاکستان کی تباہی و بربادی کا یہ مقدمہ مدتوں سے زیر التوا چلا آرہا ہے کہ مراعات یافتہ اشرافیہ اور بیورو کریسی جیسے طبقات نے سیاسی ،سماجی، معاشی طور پر ملک کی بہتری میں کیا کردار ادا کیا؟ قوم کو مذہبی، مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرکے انتہا پسندی ، لسانیت، فرقہ واریت میں کیوں ملوث کیا گیا؟ اس مقدمے میں پوچھا جائے گا کہ پاکستان سٹیل ملز ، پی آئی اے، ریلوے جیسے کمرشل ادارے کیوں منافع بخش نہیں بنائے جاسکے؟ آزادکشمیر،خیبرپختونخوا میں ڈیم بن سکتے ہیں تو پنجاب میں کالا باغ ڈیم سیاسی منافقت کا شکار کیوں ہوا اور اس پر قومی اتفاق رائے کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں، زراعت تباہ کرنے کی بات بھی ہوگی، بجلی کے مہنگے معاہدوں پر آواز بھی اٹھے گی ، تعلیم و صحت کے شعبوں کی بربادی پر سوالات بھی پوچھے جائیں گے۔ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کا جواز بھی پوچھا جائے گا؟ جب مراعات یافتہ اشرافیہ کٹہرے میں کھڑی ہوگی تو سب سے اہم سوال یہ پوچھا جائے گا کہ جب عوام اپنا خون نچوڑ کر ملکی معیشت کو سہارا دینے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے تھے تو اراکین پارلیمنٹ، صدر مملکت، وزیراعظم، صوبائی حکومتوں کے تمام تر سیاسی عہدےداروں نے اس موقع پرکیا قربانی دی؟

تازہ ترین