ادب پارے ’’جگن ناتھ آزاد‘‘

May 16, 2018

جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا تشریف لے گئے تو چائے دیتے ہوئے میزبان نے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟

جواب دیا: ’’اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں، لیکن باہر چائے پینے پر دو، تین چمچ سے کم چینی نہیںلیتا۔‘‘

اس پر میزبان نے ایک چمچ چینی اُن کی چائے میںڈالتے ہوئے کہا:

’’آزاد صاحب! اسے اپنا ہی گھر سمجھئے۔‘‘

***

اٹلانٹا میں جگن ناتھ آزاد، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر اسٹون فائونڈیشن دیکھنے نکلے اور وہاں تصویریں لینے لگے۔ حمایت علی شاعر نے تصویر لیتے ہوئے کہا کہ کیمرہ تصویر تو لے لے گا، لیکن ہے ذرا پرانا۔

آزاد نے برجستہ کہا:

’’ہمیں کون سا خریدنا ہے۔‘‘

***

جگن ناتھ آزاد، پہلی دفعہ پاکستان پہنچے۔ مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل نے اُن کے اعزاز میں دعوت دی، جس میں احتراماً صرف سبزیاں ہی رکھی گئیں۔ کھانا ختم ہونے کے بعد جگن ناتھ آزاد نے طفیل صاحب کو مخاطب کرکے کہا:

’’اگر آپ کو سبزیاں ہی کھانی کھلانی تھیں تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

***

جگن ناتھ آزاد کی پاکستان آمد پر اُن کے اعزاز میں ’’شامِ ہمدرد‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اسٹیج پر آغا بابر اور ڈاکٹر زمان غزنوی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی محمد سعید نے اپنی کتاب ’’آہنگِ باز گشت‘‘ جو اُن دنوں شائع ہوئی تھی، آزاد صاحب کو پیش کرنے کے لیے برگیڈئیر گلزار احمد سے گزارش کی ۔ برگیڈئیر صاحب نے ڈاکٹر زمان غزنوی کو آزاد سمجھتے ہوئے نہ صرف مولوی صاحب کی کتاب پیش کردی، بلکہ اُن کی ادبی خدمات کے ذکر کے علاوہ اُن کے والد محترم تلوک چند محروم کے شعر؎

دن کو بھی یہاںشب کی سیاہی کا سماںہے

کہتے ہیں یہ آرام گہہِ نور جہاں ہے

کی تعریف کرتے رہے اور جگن ناتھ آزاد پاس بیٹھے مسکراتے رہے۔

***

جگن ناتھ آزاد، بسمل سعیدی ٹونکی، ساحر ہوشیار پوری اور کچھ دوسرے شعرا مدراس کے ایک مشاعرے میںشمولیت کے لیے ریل میں سفر کررہے تھے۔ آزاد صاحب ، درمیان میںلیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آواز دے کر نیچے لیٹے بسمل صاحب سے کہا: ’’کچھ پڑھنے کے لیے دیجیے۔‘‘ بسمل صاحب نے اپنا مجموعۂ کلام ’’نشاطِ غم‘‘ انہیںپیش کردیا۔ آزاد صاحب نے ورق گردانی کی اور پسند نہ آنے پر کتاب بند کردی۔اپنے سامنے لیٹے ہوئے شاعر سے کوئی کتاب مانگی۔ انہوں نے جو کتاب پیش کی وہ راجستھانی شاعروں کے بارے میں تھی۔ وہ کتاب بھی آزاد صاحب کو پسند نہ آئی، لہٰذا واپس کرتے ہوئے بے خیالی میں یہ کہا:

’’اس سے تو ’’نشاطِ غم‘‘ ہی بہتر تھی۔‘‘