غزل: چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے

July 18, 2018

احمد مشتاق

چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے

مجھ سے اچھے تو، شبِ غم کے مقدر نکلے

شام ہوتے ہی برسنے لگے، کالے بادل

صبح دم لوگ، دریچوں میں کُھلے سر نکلے

کل ہی جن کو، تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا

رات اُسی طرح کے تارے، مری چھت پر نکلے

دھوپ، ساون کی بہت تیز ہے، دل ڈوبتا ہے

اس سے کہہ دو کہ ابھی گھر سے نہ باہر نکلے

پیار کی شاخ تو جلدی ہی ثمر لے آئی

درد کے پھول، بڑی دیر میں جاکر نکلے

دلِ ہنگامہ طلب! یہ بھی خبر ہے تجھ کو

مدتیں ہوگئیں، اک شخص کو باہر نکلے