نئی آواز: وفا کے دشت میں آئے ہم اس نادان سے پہلے

August 29, 2018

ذاکر رحمان

وفا کے دشت میں آئے ہم اس نادان سے پہلے

جو خود کو لُوٹ لیتا ہے کسی نقصان سے پہلے

تم اپنی سبز آنکھوں کو ذرا سا بند ہی رکھنا

سفر میں ریت پڑتی ہے ہرے میدان سے پہلے

وہ لب اک پھول کی صورت نکھرتے ہیں، مگر اُن سے

کوئی تتلی نہیں اُڑتی ،مری مسکان سے پہلے

گزشتہ شب اندھیرے میں کسی وحشی حسینہ نے

مرے دل کی تلاشی لی مرے سامان سے پہلے

پڑی رہتی تھیں میری میز پر، اکثر تری آنکھیں

کئی رنگیں کتابوں میں مرے دیوان سے پہلے