استنبول... یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ایک قدیم، تاریخی شہر

September 09, 2018

انور غازی

ری پبلک آف ترکی کا شہر، استنبول مشرق و مغرب کے سنگم پر واقع ایک وسیع و خوب صورت شہر ہے۔ روم اور ایتھنز کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا شہر اس کی ہم سَری نہیں کرسکتا۔ شہر کی موجودہ آبادی دو کروڑ 55 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کا ایک حصّہ براعظم ایشیا، جب کہ دوسرا براعظم یورپ میں ہے۔ ہم نے ترکی کی سیّاحت کا ارادہ کیا، توقدیم یورپی حصّے کو اپنا عارضی مسکن بنایا، جہاں سے دیوارِ قسطنطنیہ صاف نظر آتی تھی۔ قسطنطنیہ، گیارہ سو سال تک سلطنتِ روما کا پایۂ تخت رہا۔ یہ اپنے عروج کے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تہذیب و ثقافت پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے آج بھی استنبول کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مسیحیوں کے مشرقی کلیسا کا مرکزی شہر بھی یہی تھا، جس کے سربراہ کو ’’بطریرک‘‘ کہا جاتا تھا۔ 29 مئی 1453ء کی صبح سلطنتِ عثمانیہ کے نوجوان خلیفہ، سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا، تو یہ شہر پوری طرح مسلمانوں کے قبضے میں آگیا، جس کے بعد اس کا نام ’’اسلامبول‘‘ رکھاگیا۔ توپ قاپی میوزیم میں خلافتِ عثمانیہ کی جو دستاویزات اور کاغذات محفوظ ہیں، ان پر بھی اس کا نام ’’اسلامبول‘‘ ہی درج ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے دورِ حکومت میں یہ شہر، خلافتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بنا اور تقریباً 500 سال تک مسلمانوں کا دارالحکومت رہا، یہاں تک کہ خلافت ختم ہوگئی۔ پھر 1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دار الحکومت استنبول سے انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ عثمانی دور میں شہر کا نام قسطنطنیہ رہا، جب کہ سلطنت سے باہر اسے ’’استامبول‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، تاہم 1930ء میں جمہوریہ ترک کےتحت اس شہرکا نام’’ استنبول‘‘رکھاگیا۔

حسنِ اتفاق ہمارا گائیڈ ایک پاکستانی طالب علم تھا۔ یاد رہے، طیّب اردگان حکومت کی جانب سے ترکی کی یونی ورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے لیے خصوصی آفرز اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اس وقت ترکی کی مختلف یونیورسٹیز میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب طلباء و طالبات زیرِتعلیم ہیں۔ تاہم، طیّب اردگان حکومت کا مشن 2025ء تک ترکی کی یونی ورسٹیز میں غیرملکی طلباء و طالبات کی تعداد 2 سے 3 لاکھ تک بڑھانے کا ہے، تاکہ دیگر ممالک کے طلباء و طالبات نہ صرف یہاں کے نظامِ تعلیم سے مستفید ہوں، بلکہ ترکش زبان سیکھ کر ترکی کے سفیر بھی بن جائیں۔ اگر دیکھا جائے، تو واقعتاً طیّب اردگان بڑی دور کی سوچ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ 3 لاکھ کے قریب طلباء و طالبات ترکی میں حصولِ تعلیم کے دوران نہ صرف ترکش زبان سیکھ جائیں گے، بلکہ انہیں ترکی کے نظام سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ترکی کے سیاسی و سماجی حالات سے بھی مکمل آگاہی حاصل ہوجائےگی۔پاکستانی طلبہ کو ترکی کی یونی ورسٹیز میں داخلہ دلوانے میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر، خاور ندیم کا کردار قابلِ تحسین ہے، ڈاکٹر خاور 35 برس سے استنبول میں مقیم ہیں۔ شادی بھی ایک ترک خاتون سے کی۔ وہ اسپتال میں طبّی خدمات انجام دینے کے علاوہ پاکستانی طلباء و طالبات کے دیگر امور بھی دیکھتے ہیں۔ ترکی کی یونی ورسٹیز میں زیرِتعلیم پاکستانی طلبہ طالبات کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جن میں 300 کے قریب استنبول میں ہیں۔ بعض طلبہ فل برائٹ اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں، جب کہ بعض کی یونی ورسٹی کی طرف سے فیس معاف ہے، البتہ دیگر اخراجات وہ خود برداشت کرتے ہیں۔

استنبول کا شمار دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے سیّاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے، جہاں دنیائے مسیحیت سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کا قدیم کلیسا، روما تہذیب کے آثار اور مسلمانوں سے متعلق قدیم مقدس اشیاء اور تاریخی نوادرات بھی موجود ہیں۔ یہاں مسیحیوں، سیکولرز اور مسلمانوں سمیت ہر طبقہ فکر کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سیّاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں، خصوصاً مئی سے اگست تک تو سیّاحوں کا بے پناہ رش زیادہ ہوتا ہے۔ مختلف یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والے طلبہ، سیّاحوں کے گائیڈ کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔ یوں ان کی کچھ آمدن ہوجاتی ہے اور سیّاحوں کو بھی سستا مترجّم اور گائیڈ مل جاتا ہے۔ ہمارا گائیڈ بھی استنبول میں زیرِ تعلیم ایک پاکستانی طالب علم تھا، جو ڈاکٹر خاور ندیم نے ہمیںفراہم کیا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ ہمارے دوست مولانا عبدالجبار کے علاوہ سعد قاسمی بھی تھے، جو اسی برس جنوبی افریقاکے ایک دینی تعلیمی ادارے سے دورئہ حدیث سے فراغت کے بعد مزید عصری تعلیم کی غرض سے ترکی میںمقیم ہیں۔ گائیڈ نے استنبول کے تاریخی مقامات پر مبنی ایک فہرست ہمارے سامنے رکھتے ہوئے استفسار کیا ’’فرمائیے، آپ پہلے کہاں جانا پسند کریں گے، جامع مسجد سلیمانیہ، مسجد سلطان احمد، آیا صوفیہ، توپ قاپی محل، کتب خانہ سلیمانیہ، ایمریکاں پارک، رومیلی حصار، باسفورس پل، ایشیائی پل، قاسم پاشا، جامع مسجد و مزار ابو ایوب انصاریؓ، دیوارِ قسطنطنیہ، اسماعیل آغا یا غلاطہ ٹاور…؟؟‘‘ فہرست طویل تھی، لیکن ہم نے جواب میںتاخیر نہ کی۔ ’’سب سے پہلے استنبول کے تاریخی مقامات دیکھیں گے۔‘‘ استنبول شہر میں آنے جانے کے کئی ذرائع ہیں۔ میٹرو بس، ٹرین، ٹرام اور ٹیکسی۔ شہر خاصا گنجان ہونے کی وجہ سے ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔ استنبول اگرچہ اونچے نیچے راستوں، کھائیوں اور بلندی پر مشتمل ایک پہاڑی علاقہ ہے،تاہم یہاںکئی کئی منزلہ عمارتیں اور فلیٹس بھی ہیں۔اس کا محلِ وقوع کچھ عجیب و غریب سا ہے۔ قدیم استنبول، پہاڑی علاقے اور چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل ہے اور دنیا کے دیگر قدیم گنجان آباد شہروں کی طرح یہ بھی پارکنگ کے مسائل سے دوچار ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ ذاتی گاڑیاں بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں۔ پارکنگ کی جگہ دستیاب نہ ہونے کے باعث زیادہ تر لوگ سستی سرکاری سروسز یعنی میٹروبس، ٹرین اور ٹرام ہی میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر ایک منٹ بعد میٹرو بس، ٹرین یا ٹرام آجاتی ہے، جو پورے شہر لے کے جاتی ہیں۔ ہم نے سفر کے لیے ایک ٹیکسی بک کرواکے ابھی محض پانچ منٹ کی مسافت ہی طے کی تھی کہ گائیڈ نے ایک طویل لمبی اور قدیم دیوار کے پاس گاڑی رکواکر بتایا کہ ’’یہ دیوارِ قسطنطنیہ ہے۔‘‘ دیوارِ قسطنطنیہ سنتے ہی ذہن میں سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ گردش کرنے لگی۔ یہاں اتر کر دیوار کو ہاتھ لگایا، مختلف زاویوں سے اس کی تصاویر اتار کر کیمروں میں محفوظ کیں کہ یہ وہی ناقابلِ تسخیر دیوار، فصیل اور قلعہ ہے، جس کی فتح کی سیکڑوں افراد نے تمنّا کی تھی اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فتح کرنے والے کے لیے مغفرت کی بشارت دی تھی۔ یہ سعادت مسلمانوں کے خلیفہ، سلطان محمد فاتح کو حاصل ہوئی اور آج صدیاں بیتنے کے باوجود یہ دیوار جوں کی توں کھڑی ہے۔ قسطنطنیہ کی یہ تاریخی دیوار اور فصیل دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیّاح آتے ہیں۔ ہم محویت کے عالم میںدیوارِ قسطنطنیہ کے تاریخی پس منظر میںگم تھے کہ گائیڈ نے اشارہ کیا، تو دوبارہ ٹیکسی میں آبیٹھے۔

اب ہماری اگلی منزل ’’غلاطہ ٹاور‘‘ تھی۔ ہماری گاڑی گولڈن ہارن (Golden Horn) کے ساتھ ساتھ بنی صاف ستھری سڑک پررواں دواں تھی۔ کچھ ہی دیر بعد دور ہی سے ایک ٹاور نظر آیا، تو گائیڈ نے بھی تصدیق کردی کہ یہی غلاطہ ٹاورہے، جو507 صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ اسے رومی حکومت نے بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے لائٹ ہائوس کے طور پر تعمیر کیا تھا، جو اپنے زمانے کا سب سے بلند ٹاور کہلاتا تھا۔ گولڈن ہارن کے شمالی ساحل پر واقع اس قدیم اور طویل ٹاور سے متعلق مؤرخین کا خیال ہے کہ پَروں کے ذریعے فضاء میں اڑنے کا دوسرا کام یاب تجربہ بھی یہیں ہوا تھا۔ مورخین کے مطابق، عثمانی خلیفہ، سلطان مراد چہارم کے دَورمیںایک مسلمان مہم جو ’’خدافین احمد‘‘ نے سترہویں صدی عیسوی میں اسی بُرج سے پَروں کے ذریعے باسفورس پر پرواز کی تھی۔ وہ تقریباً 8میل کا فاصلہ طے کرتا ہوا باسفورس کے ایشیائی ساحل ’’اسکودار‘‘ سے ہوتا ہوا ’’اسکوتاری‘‘ تک گیا تھا۔ قبل ازیں، پَر لگا کر ہوا میں اڑنے کا پہلا تجربہ اسماعیل بن حماد نامی شخص نے کیا تھا، جو ناکام رہا تھا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کئی تجربات ہوتے رہے۔ تاہم، غلاطہ ٹاور سے مسلمان مہم جو خدا فین احمد کا تجربہ کام رہا۔ اس کے بنائے ہوئے وہ پردہ نما پَر آج بھی اسی غلاطہ ٹاور کی آٹھویں منزل پر موجود ہیں۔ دس منزلہ غلاطہ ٹاور پر نصب لفٹ 7 ویں منزل تک جاتی ہے۔ دسویں منزل پر پہنچنے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم غلاطہ ٹاور کے قریب پہنچ کر اس کا جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک گائیڈ ہماری توجّہ نے آدھے کلو میٹر تک جاتی سیّاحوں کی ایک طویل قطار کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ٹاور کے اوپر جانا چاہتے ہیں، تو قطار میں لگ جائیں۔‘‘ ٹاور کے اوپر چڑھنے اور اُترنے کے لیے کم از کم 3 سے 6 گھنٹے درکار تھے، چناںچہ ہم نے نیچے ہی سے ٹاوردیکھنے میںعافیت جانی اور یادگار کے طور پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنالیں۔ غلاطہ ٹاور کی ظاہری ہیئت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا کا قدیم اور بلند ٹاور ہے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اس کی ضروری مرمّت ہوتی رہتی ہے، تاہم اس کی اصل شکل بھی باقی ہے۔ غلاطہ ٹاور پر ایک تختی آویزاں ہے،جس پر اس کی مکمل تاریخ بھی درج ہے۔ فنِ تعمیر کا یہ شاہ کار نمونہ پندرہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔

استنبول کا موسم عموماً سارا سال ہی سہانا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر ہمہ وقت دنیا بھر کے سیّاحوں سے کھچا کھچ بھرا نظر آتا ہے۔ گائیڈ نے بتایا کہ آج پورے استنبول کی تاریخی جگہوں پر اسی طرح رَش ملے گا۔ ہمارے پاس چوںکہ وقت کم تھا، اور مقامات زیادہ، لہٰذا جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھے اور ترکی کے شہرئہ آفاق عجائب گھر ’’توپ قاپی‘‘ کی طرف روانہ ہوگئے۔ بڑی تگ و دو کے بعد بالآخر 140لیرا فی کس ٹکٹ لینے میںکام یاب ہوکر ’’توپ قاپی‘‘ کے مین گیٹ پہنچے، تو وہاں سخت چیکنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی اسکیننگ مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ کسی بھی قسم کا سامان اندر لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ چیکنگ کے لیے طویل قطار میں ہماری باری آنے میں ابھی دس پندرہ منٹ تھے۔ ہم نے گائیڈ سے عجائب گھرسے متعلق استفسار کیا، تو اس نے بتایا ’’توپ قاپی سرائے 1465ء سے 1853ء تک دارالخلافہ، قسطنطنیہ میں عثمانی سلاطین کی باضابطہ رہائش گاہ تھی۔ یہ محل ریاستی معاملات کا مرکز تھا اور آج کل ایک عجائب گھر کی حیثیت سے استنبول کے بڑے سیّاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ محل کی تعمیر کا آغاز 1459ء میں سلطان محمد فاتح کے حکم پر ہوا۔ یہ محل 4 مرکزی احاطوں اور کئی چھوٹی عمارات کا مجموعہ ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں یہاں 4 ہزار سے زائد افراد رہائش پزیر تھے۔‘‘ خیر، ہم جیسے جیسے محل میں آگے بڑھتے جارہے تھے، ویسے ویسے حیرت میں غوطہ زن ہوتے جاتے تھے۔ یہ ’’عجائب گھر‘‘ ہر اعتبار سے وسیع تر ہے، اس کے تمام حصّوں کو تفصیل کے ساتھ دو چار گھنٹوں میں دیکھنا ممکن نہ تھا، چناںچہ ہم نےچیدہ چیدہ مقامات کو سرسری دیکھا اور پھر مرکزی ہال پہنچ گئے، جہاں بے حد قیمتی نوادرات محفوظ کرکے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم کا تعلق اسلام کے ابتدائی دور سے ہے، بلکہ چند ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہزاروں سال پہلے کے بھی ہیں، جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا عمامہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی شامل ہے۔ اسی عمارت میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ، تلوار، دانت اور داڑھی مبارک کا بال بھی موجود ہے۔ ان کے علاوہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاجبّہ، تیرکمان ،مہر اور پاؤں کا نشان بھی یہیں موجود ہے۔ میوزیم کا ایک حصّہ تلواروں کے لیے مخصوص ہے۔ ان میں خلفائے راشدینؓ کی تلواریں ترتیب سے رکھی گئی ہیں۔ دورِ خلافت میںاس خاص کمرے کے تقدّس کا عالم یہ تھا کہ سلطان اور اس کے اہل خانہ کو بھی سال میں صرف ایک بار 15 رمضان کو اس کمرے میں جانے کی اجازت تھی۔یہاں تصویریں کھینچنے کی اجازت نہیں اور کسی تحقیقی کام کے لیے اگر تصاویرحاصل کرنا ضروری ہوں، تو ان کے لیے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ عثمانی دور کی تمام یادگاریں، بہ شمول عثمانی سلاطین کی تصاویر، ان کے ہتھیار، استعمال شدہ اشیاء، خزانے، زیورات، تاج و تخت اور اسی طرح کی دیگر نادر و نایاب اشیاء بھی یہاں موجود ہیں۔سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے دَور میں ایشیا، یورپ اور افریقا کے وسیع ترعلاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ترکی سلطانوں نے دنیا کے کونے کونے سے نوادرات اکٹھی کرکے انہیں اپنے محلّات کی زینت بنایا اور آج وہی نوادرات اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔ یہاں موجود سلاطینِ عثمانیہ سے منسوب بیش قیمت نوادرات، ان کے زرق برق لباس، نفیس برتن، فولاد، زرہیں، سونے چاندی کے سکّے، جواہرات، مرصّع ظروف، سونے کے بنے بڑے بڑے شمع دان وغیرہ دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔ توپ قاپی میوزیم سے متعلق حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنے سفرنامے ’’دو ہفتے ترکی میں‘‘ لکھا ہے ’’اگر خدانہ خوانستہ ترکی کسی زمانے میں دیوالیہ ہوجائے، تو اس کے عجائب گھر ’’توپ قاپی‘‘ کے سونے اور دیگر نوادرات سے بھی کچھ مدت کے لیے ملک کا خرچ چلایا جاسکتا ہے۔‘‘ اور واقعتا ایسا ہی ہے۔ ہم نے اب تک دنیا کے جتنے بھی عجائب گھر دیکھے ہیں، ان میں سے یہ ہر اعتبار سے شان دار، تاریخی اور قیمتی ترین ہے۔

استنبول کا ’’توپ قاپی‘‘ دیکھنے کے لیے ایک خلقت موجود تھی۔ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بہرکیف، یہاں سے فارغ ہوکر ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا، اور پھر گائیڈ ہمیں ’’آیا صوفیا‘‘ کی طرف لے گیا۔ آیا صوفیا کے سامنے ایک بڑا اور خوب صورت باغ ہے، جس میں بے حد حسین و دل کش پھول بوٹے لگے ہیں۔ ہم تھوڑی دیریہاں کے نرم و دبیز گھاس پر سستانے کے لیےبیٹھے، تو گائیڈ نے آیاصوفیا کے حوالے سے مختصراً بتانا شروع کردیا ’’آیا صوفیا، دراصل، ایک کلیسا اور گِرجا کا نام ہے، جو قسطنطنیہ فتح ہونے سے پہلے تک دنیائے عیسائیت کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز شمار ہوتا تھا۔اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ ’’قسطنطین‘‘ نے رکھی تھی۔ ’’قسطنطین‘‘ روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا۔ اسی بادشاہ کے نام پر اس شہر کا نام ’’قسطنطنیہ‘‘ پڑا تھا۔ ایک ہزار سال تک یہ عمارت کلیسا کے طور پرمسیحیوں کے روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی، پھرجب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو ’’آیاصوفیا‘‘ نامی اس قدیم کلیسا کو مسجد میں تبدیل کردیا۔ اس کی دیواروں سے تصاویرمٹادی گئیں اور اس کا محراب قبلہ رُخ کردیا گیا۔بعدازاں، یہ ’’جامع مسجد آیاصوفیا‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔اس کے بعد سقوط ِخلافتِ عثمانیہ کے بعد 1930ء میں جمہوریہ ترکی کے صدر، مصطفی کمال پاشا نے اسے میوزیم میں تبدیل کردیا۔ اس دور میں یہاں نماز پڑھنے پر پابندی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں تھوڑی دیر گھوم پھر کر مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ پر ندامت کے آنسو بہاتے ہم باہرآگئے۔

ہماری اگلی منزل، استنبول کی سب سے بڑی جامع مسجد ’’سلیمانیہ‘‘تھی۔ یہ مسجد عثمانی خلیفہ ’’سلیمان اعظم‘‘ نے تعمیر کروائی تھی۔ عثمانی خلفاء کا یہ خاص طریقہ تھا کہ وہ بہت شان دار مساجد و مدارس تعمیر کرواتے تھے۔ جامع مسجد سلیمانیہ کے باہر ایک احاطے میں قائم ایک چھوٹے سے قبرستان میں ایک قبر سلیمان اعظم کی بھی ہے۔ ہم ان کے مزار پر حاضری کے بعد جامع مسجد سلیمانیہ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک کتب خانے میں چلے گئے،جس کا شماراستنبول کے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ کتب خانے کے سرسری جائزے کے بعد آگے بڑھے،تو گائیڈ نے جامع مسجد ابوایوب انصاریؓ کی طرف چلنے کا عندیہ دیا۔ وہاں پہنچ کر تو گویاعقیدت سے سرشار ہوگئے کہ اسی مسجد کے احاطے میں میزبانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوایوب انصاریؓ کا مزار بھی واقع ہے۔حضرت ابوایوب انصاریؓ مدینہ منورہ کے قبیلے ’’بنوخزرج‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ ابتدا ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی، تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حضرت ابوایوب انصاریؓ ہی کو حاصل ہوا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف غزوات میں بھی شامل رہے۔ آپؓکو جہاد کا ازحدشوق تھا۔ حضرت امیر معاویہؓ نے جب قسطنطنیہ پر حملے کے لیے لشکر بھیجا، تو اس لشکر میں حضرت ابوایوب انصاریؓ بھی شامل تھے۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے قسطنطنیہ کا پہلا باقاعدہ محاصرہ تھا،جو کئی روز تک جاری رہا۔حضرت ابوایوب انصاریؓ اسی محاصرے کے دوران بیمار ہوئے، اور پھر رحلت فرماگئے۔ مسلمانوں نے ان کی وصیّت کے مطابق انہیں یہیں دفن کردیا۔ مؤرخین کے مطابق آپؓ کو قسطنطنیہ کی دیوار کے نیچے دفن کیا گیاتھا۔ بعدازاں، 29 مئی 1453ء بمطابق 20 جمادی الاولیٰ 857 ہجری، سلطنتِ عثمانیہ کے خلیفہ، سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد آپؓ کی قبر مبارک تلاش کرواکے یہاں ’’جامع ابوایوب انصاریؓ‘‘ کے نام سے ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی اور ساتھ ہی حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر کے لیے جگہ مختص کرکے، ان کے جسدِ مبارک کو یہاں منتقل کردیا، جس کے بعد سے یہ پورا علاقہ ’’حضرت ابوایوب انصاریؓ‘‘ کے نام سے مشہورہوگیا۔ جامع مسجد ابو ایوب انصاریؓ سے متصل ایک قدیم قبرستان میں دورِ سلاطینِ عثمانیہ کے کئی اولیاء اللہ، بزرگ، صلحاء اور شہزادے بھی مدفون ہیں۔ اوریہاں ہر وقت فاتحہ خوانی کرنے والوں کا ایک ہجوم لگا رہتا ہے۔ہم نے بھی دو رکعت نماز پڑھی اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر مبارک پر فاتحہ پڑھ کرباہر چلے آئے۔

مزار سے باہر آکر پیدل ہی کچھ آگے بڑھے، تو گائیڈ نے ایک ٹوٹی ہوئی نئی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دیکھیں۔‘‘ اولاً توہمیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہے؟ شیشے کے ایک خوب صورت فریم میں ایک نئی کار کھڑی تھی، جو تین طرف سے بالکل ٹھیک، جب کہ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سےتباہ حال تھی، یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اس طرف سے اس سے کوئی بھاری چیز ٹکراگئی ہو۔بہرحال، ہمارے تجسّس اور حیرانی پر گائیڈ نے بتایاکہ’’ اس کا پس منظر یہ ہے کہ 2016ء میں جب طیّب اردگان حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی، تو عوام میں سے طیّب اردگان کے ایک حامی شخص نے اپنی نئی گاڑی یہ سوچ کر ٹینک سے ٹکرا دی کہ بغاوت کو ناکام بنانے میں اس کا بھی کچھ حصّہ ہونا چاہیے۔جب بغاوت ناکام ہوگئی، تو اس واقعے کی خبر طیّب اردگان کو بھی ہوئی۔ طیّب اردگان نے کار کے مالک کو بلوایا، اس کا شکریہ ادا کیا اور ٹوٹی ہوئی کار کی رقم دینے کی پیش کش کی، تو اسنے یہ کہہ کررقم لینے سے انکار کردیا کہ ’’یہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے کیا، مَیں اس کا صلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے چاہتا ہوں۔‘‘اس کی اس بات سے طیّب اردگان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ترکی کے مشہور اور مقدّس ترین مقام، جامع ابوایوب انصاریؓ کے بالکل سامنے شیشے کا یہ خوب صورت اور مضبوط فریم بنواکر یہ ٹوٹی ہوئی کار یہاں رکھوادی۔ اس فریم کے اوپر ایک خوب صورت جملہ بھی درج ہے کہ ’’ہم تمہیں نہیں بھولے اور نہ کبھی بھولیں گے۔‘‘

یہاں سے واپسی کی راہ لی، تو شام ڈھلنے لگی تھی۔ اگرچہ اب بھی بہت سے مقامات باقی رہ گئے تھے، لیکن وقت کی تنگی کے باعث دیکھنے سے قاصر رہے۔ ترکی میں بازار اور ہوٹل رات کو جلد بند ہوجاتے ہیں۔ اس روز دوستوں نے ترکی کے مشہور ہوٹل ’’یوسف جی‘‘ میںعشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا، جہاں 9 بجے تک پہنچنے کی تاکید تھی۔ ’’یوسف جی ہوٹل‘‘ کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ ہوٹل کا مالک کچھ عرصہ قبل تک ترکی کے شہر ’’بروصہ‘‘ میں کباب کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ وہ غریبوں کو مفت کھانا کھلاتا تھااور اس کی اسی غریب نوازی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا کاروبار ایسا چلایا کہ آج استنبول، ازمیر، قونیہ، انقرہ اور شانلی سمیت ترکی کے کئی شہروں میں اس کے 41 بڑے ہوٹلوں کی چین ہے۔ اس کا غریبوں کو مفت کھانا کھلانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جب کہ نفع بھی بہت کم رکھا جاتا ہے۔ یوسف جی ہوٹل کا کباب، تکّہ اور بوٹی بہت مشہور ہے، جب کہ ساتھ سلاد، رائتہ، روٹی، ڈبل روٹی، چائے، قہوہ وغیرہ سب مفت ہے۔ یہاںہجوم کا یہ عالم تھا کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوٹل میں تِل دھرنے تک کی جگہ نہ تھی۔انتہائی کم نرخ میںعمدہ سروس، خوش اخلاق ویٹرز اورذائقے دار کھانے کے ساتھ صفائی ستھرائی بھی کمال کی تھی۔عشائیے سے فارغ ہوکر ہوٹل پہنچے، تو رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ صبح سے چل چل کر برا حال تھا۔ سو، گرم لحافوں میں لیٹتے ہی اس طرح نیند کی آغوش میں چلے گئے کہ پھر صبح ہی آنکھ کھلی۔ قصّہ مختصر، سلطان محمد فاتح کے جاںنشیں، طیّب اردگان کے دیس میں کچھ وقت گزار کے ایسا سکون ملا کہ صحیح معنوں میں بیاں بھی مشکل ہے۔