غیر مُلکی زبانوں کی ’’جِلاوطنی‘‘ کے سبب ابلاغ کا مسئلہ شدید تر ہے

September 16, 2018

پروفیسرمحمد فاروق قریشی، لاہور

بلاشبہ، حرمین شریفین میں مانگی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ اور اس کے حبیب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر پر مانگنے والے کی مراد اِک نہ اِک روز ضرور بَر آتی ہے۔ اللہ رب العزت کریم و رحیم، سراپا عطا ہے۔ بہت عرصے قبل میرے ایک دوست نے اپنی روداد سنائی کہ جب وہ سعودی عرب گیا، تو اسے بندرگاہ پر جہازوں سے سیمنٹ کی بوریاں اتارنے کا کام ملا۔ یہ کام کس قدر مشکل ہے، یہ وہی جانتے ہیں، جنہوں نے وہاں کی گرمی میں یہ کام کیا ہو۔ اُس نے حرم شریف میں جا کر دعا کی کہ، ’’اے اللہ مجھے اس سخت گرمی سے نجات دلاکر کسی ٹھنڈی جگہ کام دلوادے۔‘‘ چند ماہ بعدہی اسے آئس کریم فیکٹری میں کام مل گیا۔ ہم نے بھی حرمین شریفین میں اپنی پہلی حاضری کے وقت اللہ تعالیٰ سے سعودی عرب میں ملازمت اور قیام کی دعا مانگی تھی، لیکن ٹھیک دو سال بعد 1986ء میں ترکی میں ملازمت ملی، تو یہ سوچ کر کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور صدقِ دل سے مانگی دعا دیر یا بدیر ضرور قبول ہوتی ہے، یقیناً میری ارض مقدّس میں ملازمت کی دعا بھی کبھی نہ کبھی ضرور قبول ہوگی، ترکی چلا گیا۔

دراصل، ترک حکومت کو اپنے پبلک اسکولز میں انگریزی اساتذہ کی ضرورت تھی اور پاکستان سے منتخب کردہ اساتذہ میں ہم بھی شامل تھے۔ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی اور چین دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں، جہاں کے عوام پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ ترکی کا نام آتے ہی دل میں سلطنتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کی تاریخی عظمت اور شان و شوکت کا تصوّر ابھر آتاہے۔ سلطنتِ عثمانیہ، جو تین برّاعظموں ایشیا، افریقا اور یورپ کے وسیع علاقوں پر محیط تھی۔ اس کا دارالخلافہ، قسطنطنیہ، علم و حکمت، فنونِ لطیفہ اور تہذیب کا شہرئہ آفاق مرکز تھا۔ پھر جب خلافتِ عثمانیہ زوال پزیر ہوئی اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس کے حصّے بخرے ہونے لگے، تو ایک بہادر، محبّ وطن فوجی افسر، مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک نے غیر ملکی افواج کے خلاف مسلّح مزاحمت کی قیادت سنبھال لی۔

غیر ملکی افواج کو شکستِ فاش دی اور 1922 ء میں آزاد ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی۔ مصطفیٰ کمال کو اتا ترک یعنی ’’ترکوں کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے ملک میں تیز رفتار ترقی کے لیے بہت سے انقلابی اقدامات کیے، جن میں ترکی زبان کے رسم الخط کی تبدیلی، تعلیمی اداروں، صنعتوں اور بینکوں کا قیام، سڑکوں اور ریلوے کی تعمیر شامل تھے۔ اس کے کچھ اقدامات اسلامی تہذیب کے حوالے سے قابلِ اعتراض بھی سمجھے گئے۔ مثلاً مغربی لباس کی ترویج، خواتین کے حجاب کا خاتمہ اور آمرانہ طرزِ حکومت۔ نیز،مصطفیٰ کمال کا ایک بڑا قدم خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ بھی تھا، جس کی ہر جگہ مخالفت اور مذمّت کی گئی۔ پوری اسلامی دنیا، خصوصاً برّصغیر پاک و ہند میں خلافت کے احیاء کے لیے تحریک چلائی گئی، جس میں دو ممتاز رہنما، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنی شعلہ بیانی سے مسلمانانِ ہند کے جوش و جذبے کو ابھارا۔ مسلمان خواتین نے خلافت کی بحالی کے لیے اپنے زیورات تک اتار کر تحریک کی نذرکردیئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ترک عوام اس تاریخی یک جہتی کے اظہار اور حمایت پر برصغیر کے مسلمانوں کے ہمیشہ ممنون اور قدردان رہے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر، تحریکِ خلافت کا تاریخی حوالہ بن چکا ہے۔ ؎بولیں امّاں محمد علی کی.....جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔

اساتذہ کا گروپ، کراچی سے ترکش ائرلائن کے ذریعے ترکی روانہ ہوا۔ ترک حکومت نے اساتذہ کو فیملی ویزے اور ٹکٹس بھی دئیے تھے، اس لیے کچھ اساتذہ بیوی بچّوں کے ساتھ سفر کررہے تھے، البتہ مَیںاکیلا ہی ملازمت کی غرض سے ترکی جارہا تھا۔ ہمارا جہاز استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے پر اترااور یہاں سے ہم انقرہ جانے والی پرواز پر سوار ہوئے۔ جب ہم ترکی کے دارالحکومت، انقرہ پہنچے، تو شام ڈھل چکی تھی۔ ہوائی اڈّے پر وزارتِ تعلیم کے افسران نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمیں پہلے سے معلوم نہیں تھا کہ ہماری تقرری کا مقام کون سا ہے۔ وزارت کے فیصلے کے مطابق، متعلقہ اسکولوں کے اہل کاروں ہی کو اساتذہ کو لینے آنا تھا۔ مجھے اور میرے ایک ساتھی سعید صاحب کو جس اسکول کے نمائندوں کے سپرد کیا گیا، وہ جنوب مشرقی ترکی کے شہر، غازین ٹپ (Gaziantep) میں واقع تھا۔ سعید صاحب اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ غازین ٹپ جانے کے لیے ہم نے ایک گاڑی میں پوری رات سفر کیا، سڑک شان دار اور ہم وار تھی۔ تاہم، رات کی تاریکی کی وجہ سے ہم اردگرد کے ماحول سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہے۔ بہرحال، علی الصباح غازین ٹپ پہنچ گئے۔ غازین ٹپ جنوب مشرقی ترکی کا ایک صوبہ ہے اور اس کے صدر مقام کا نام بھی یہی ہے۔ اسی شہر کے ایک بڑے اسکول میں ہمارا تقرر انگریزی پڑھانے کے لیے ہوا تھا۔ ترکی کا یہ قدیم تاریخی شہر، شام کی سرحد سے ستانوے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

یہاں کے قابلِ دید مقامات میں یونی ورسٹی، آثارِ قدیمہ کا عجائب گھر اور تاریخی قلعہ شامل ہیں۔ شہر تعلیم، صنعت اور تجارت کا بڑا مرکز ہے۔ یہاں کی خاص پیداوار پِستہ ہے۔ ہم نے اپنے قیام کے دوران یہاں ریڑھیوں پر سستے داموں خوب پِستہ بکتا دیکھا۔ صاف ستھرے شہر میں لوکل ٹرانسپورٹ کے لیے اچھی بس سروس، شاپنگ سینٹرز، ریستوران اور بڑے بڑے ہوٹلز بھی موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ خوب صورت اور خوش اخلاق ہیں، ترکی زبان بولتے اور انگریزی سے بالکل نا آشنا ہیں، جب کہ یہاں کا موسم گرمیوں میں خشک، سخت گرم اور سردیوں میں انتہائی سرد رہتا ہے۔ اکثر برف باری بھی ہوجاتی ہے۔

جس اسکول میں ہمیں معلّمی کے فرائض انجام دینا تھے، وہاں داخل ہوتے ہی ہمارا سامنا مصطفیٰ کمال اتاترک کے ایک بلند و بالا مجسمے سے ہوا، جو وہاں وقار و تمکنت کے ساتھ اِستادہ تھا۔ یہ اگست کا پہلا ہفتہ تھا اور گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند تھا۔ ہمارے میزبانوں نے فی الحال ہمیں اسکول کے ہاسٹل میں ٹھہرایا۔ طویل ہوائی اور زمینی سفر کے باعث کافی تھکن ہوچکی تھی۔ سو، دیر تک آرام کیا۔ دوپہر کے وقت پرنسپل صاحب انگریزی کے ایک استاد کے ساتھ تشریف لائے اور بہت گرم جوشی سے ملے۔ انگریزی کے استاد، جن کا نام بَحری مصری تھا، مترجّم کے فرائض انجام دے رہے تھے، پھر وہ ہمیں اسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین کے پاس لے گئے اور ہمارا مختصر تعارف کروایا۔ چیئرمین صاحب بھی بڑے تپاک سے ملے۔ کچھ ضروری رسمی اور غیر رسمی بات چیت کے بعد انہوں نے فوری اخراجات کے لیے ہمیںپچھتّر پچھتّر ہزار لیرا (ترک کرنسی) کی رقم پیشگی ادا کی اور ریستوران پر کھانا کھلانے کے بعد واپس ہاسٹل چھوڑ دیا۔ ہاسٹل کا باورچی خانہ کھلا، لیکن عملہ غائب تھا۔ برتن بھی کہیں نہ ملے۔

مجبوراً بازاری کھانوں پر گزارا کرنے لگے۔ عیدالاضحی سے ایک روز قبل اچانک بازار، مارکیٹس، ریستوران، سبزی، گوشت کی دکانیں سب کچھ بند ہوگیا، البتہ کہیں کہیں تنور کھلے تھے۔ میزبان ہمیں پیشگی رقم دے کر بے فکر ہوگئے کہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست خود ہی کرلیں گے۔ سعید صاحب کی اہلیہ کھانا پکا سکتی تھیں، لیکن پکاتیں کیا، آٹا، گھی، سبزی، گوشت، مرچ مسالےسمیت کچھ بھی تو میسّر نہ تھا۔ اس پر مستزاد، کھانا پکانے کے لیے برتن تک نہ تھے۔

ترکی پہنچ کر ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اردو، انگریزی بولنے والوں کے لیے یہاں ابلاغ کا مسئلہ کس قدر شدید تر ہے۔ دراصل مصطفیٰ کمال کی حبّ الوطنی نے ترکی سے غیرملکی زبانوں کو جِلا وطن کردیا ہے۔ استنبول اور انقرہ جیسے بڑے شہروں کی بات اور ہے، جہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی ادارے اور افراد موجود ہیں اور انگریزی میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ترک بھی انگریزی زبان سمجھتے، بولتے ہیں، لیکن غازین ٹپ جیسے دُور دراز مقام پر یہ ایک سنگین معاملہ تھا۔ یہاں ہماری بات سمجھنے والا واحد استاد بھی اسکول میں موجود نہیں تھا۔ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ عید منانے گیا ہوا تھا۔ سعید صاحب دُہری مشکل میں تھے کہ بھوک سے بچّے رو رہے تھے۔ بیوی بچّوں کو کیا جواب دیں، کہاں سے کھلائیں؟ اگلے دن عید تھی۔ انہوں نے مجھ سے نہایت دردمندانہ اپیل کی کہ کسی نہ کسی طرح کچھ کھانا پکانے کا بندوبست کروں۔ مجھ سے ان کی بے چارگی دیکھی نہ گئی، چناںچہ میں نے ہامی بھرلی اور اللہ کا نام لے کر اسکول سے باہر نکل آیا اور پِھرتا پھراتا ایک قریبی محلّے میں جا نکلا۔ وہاں ایک بابا اپنی سبزی کی دکان کھولے بیٹھے تھے۔ سبزیاں ساری ختم ہوچکی تھیں، صرف آلو دست یاب تھے۔ سو، وہی لے آیا۔ اب مسئلہ درپیش تھا کہ آلو پکانے کے لیے دیگچی وغیرہ کہاں سے حاصل کی جائے۔

چوں کہ ترکی زبان میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ مستعمل ہیں، لہٰذا ان زبانوں سے تھوڑی بہت شُدبُد ہونے کے ناتے قیافہ کیا کہ ہاسٹل کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک اقامتی اسکول ہے اور طلبہ تعطیلات کی وجہ سے گھروں کو جاچکے ہیں، لیکن ہاسٹل کا کوئی انچارج استاد یہاں ضرور مقیم ہوگا۔ یہی سوچ کر ہم نے اپنی لسانی علمیت کا استعمال کرتے ہوئے گیٹ کیپر سے دریافت کیا کہ ’’یہاں اسکول میں کوئی فیملی مقیم ہے؟‘‘ اس نے اشارے سے بتایا کہ اِدھر کچھ گھر ایسے ہیں۔ چناںچہ وہاں جاکر ایک دروازہ کھٹکھٹایا، تو ایک صاحب برآمد ہوئے۔ سلام کے بعد ہم نے بات شروع کی، لیکن ’’زبانِ یارِ مَن، ترکی، و مَن ترکی نمی دانم‘‘ والی صورتِ حال تھی۔ ہم نے اپنی ساری عربی، فارسی استعمال کر ڈالی، لیکن ان کے پلّے کچھ نہ پڑا۔ پھر ہم نے اشاروں کی زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور متعدد بار ہاتھوں اور بازوئوں سے کسی فرضی برتن میں کفگیر کو ہلانے اور باہر نکالنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس بار ہماری باورچیانہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور ہم ان سے ایک عدد دیگچی اور ایک عدد کفگیر عاریتاً حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ احساسِ کامرانی کے ساتھ واپس آئے اور مطلوبہ سامان سعید صاحب کے حوالے کردیا۔ بہرکیف،ہماری وہ ’’آلوانہ عیدالاضحی‘‘ بہت بے کیف اور بے مزہ گزری۔ عید کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل آگئے۔ اجنبیت اور بے زبانی کے احساس نے عید کی خوشی ماند کردی تھی۔ وطن اور اپنوں سے دور۔

مبارک بادوں، معانقوں اور مزےدار کھانوں سے محروم۔ اُس روز معلوم ہوا کہ عید منانے کا اصل مزہ تو اپنوں کے ساتھ ہی آتا ہے۔ غریب الوطنی کی عید، احساسِ طرب کے بجائے یاس اور محرومی کا احساس دلاتی ہے۔ ہم نے سارا دن بیڈ پر لیٹ کر گزارا کہ پاس تفریح کا بھی کوئی سامان نہ تھا۔ یہ کیسی عید تھی؟ سہ پہر کے وقت بحری مصری اپنی بیگم کے ساتھ ہم سے ملنے آئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ بھی خالی ہاتھ۔ شام کو کسی نے ہمارے لیے دو نان اور گوشت کا تھوڑا سا سالن بھیجا۔ ہم نے وہ سعید صاحب کے حوالے کیا کہ بچّوں کو کھلادیں۔ شاید یہ کھانا بھیجنے والا وہی ترک استاد تھا، جس سے ہم نے کھانا پکانے کا برتن عاریتاً لیا تھا۔

شام کو ہم دونوں دوست گھومنے پھرنے نکلے، تو ایک جگہ اوپن ائر تھیٹر پر فلم دکھائی جارہی تھی۔ ہم نے بھی ٹکٹ لیے اور بیٹھ گئے۔ زبان سے نابلد ہونے کے باوجود مزہ آیا۔ یہ ایک رومانی اصلاحی فلم تھی۔ اسکول کھلنے میں ابھی چند دن باقی تھے، لیکن میں مکمل بوریت کا شکار ہوچکا تھا۔ سعید صاحب اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ مصروف وقت گزار رہے تھے، لیکن میرے لیے کرنے کو کچھ بھی تو نہیں تھا۔ تنگ آکر ایک دن بس میں سوار ہوگیا اور شہر کی مشہور یونی ورسٹی جاپہنچا۔ گیٹ پر سیکیوریٹی والے سے کہا کہ یونی ورسٹی کے شعبہ انگریزی میں کسی سے فون پر بات کروائو۔ اس نے ایک پروفیسر سے میری بات کروائی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور درخواست کی کہ کچھ وقت آپ سے گپ شپ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ شریف آدمی شاید میری بے زاری اور پریشانی سمجھ چکا تھا، لہٰذا فوراً اپنی گاڑی نکالی اور مجھے ساتھ بٹھاکر ایک ریستوران لے گیا۔ اس نے چائے منگوائی اور ہم نے کوئی گھنٹہ بھر گپ شپ کی۔ میں نے شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے کچھ قیمتی وقت دیا اور میزبانی کا شرف بخشا۔ بہرحال،دس بارہ روز کے قیام میں، ہم نے اندازہ لگالیا تھا کہ یہاں رہنے کے لیے ترکی زبان سیکھنا لازم ہے۔ ایسے میںاگر اپنے بیوی بچّوں کو بھی وہاں بلالیتا، تو انہیں بھی اس لسانی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا، اور بچّوں کا تعلیمی سال بھی ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ بہرکیف، ہمارا ترکی آنے کا تجربہ کچھ اتنا امید افزا اور خوش کن ثابت نہیں ہوا تھا۔ ہم نے کراچی اپنے بھائی صاحب کو فون کیا کہ ’’ہمیںایک ٹیلی گرام بھیجیں کہ گھر میں ایمرجینسی ہوگئی ہے، فوراً واپس پہنچو۔ ساتھ ہی استنبول سے کراچی کا ٹکٹ بھی۔‘‘ اسکول کھلنے سے ایک دن قبل اسٹاف میٹنگ تھی۔

جس میں ہم بھی موجود تھے۔ اسی وقت ٹیلی گرام پہنچ گیا۔ پرنسپل نے مترجّم کی وساطت سے پوچھا کہ ’’گھر میں کیا مسئلہ ہوگیا ہے؟‘‘ اتنی جلدی واپسی کے لیے کسی معقول جواز کی ضرورت تھی۔ ہم نے کہا ’’کچھ کہہ نہیں سکتے، اہلیہ امید سے ہیں۔‘‘ تو انہوںنے فوراً دوسرا سوال داغ دیا کہ ’’واپسی کا ٹکٹ کون خرید کردے گا؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ہم خود خریدلیں گے۔ ظاہر ہے ترک حکومت تو اتنی جلدی ٹکٹ خرید کردینے والی نہیں تھی۔ میرے پاس ترکش لیرا موجود تھے۔ کچھ ملبوسات اور کافی سارا پستہ خریدا۔ سعید صاحب نے بھی میرے ہاتھ اپنے اِعزّہ کے لیے پستہ بھجوایا۔ شام کو پرنسپل صاحب اپنی گاڑی میں بس اسٹیشن تک چھوڑنے آئے، وہاں سے انقرہ کا ٹکٹ خرید کر بس میں سوار ہوگئے۔ بس نہایت آرام دہ اور شان دار تھی۔ سڑک موٹر وے کی طرح ہم وار اور عمدہ تھی۔ پاکستان میں اس طرح کی بسیں موٹر وے بننے کے بعد میسّر آئیں۔ ڈرائیور دو گھنٹے بس چلانے کے بعد سڑک کنارے بنے ریستوران پر پندرہ بیس منٹ کے لیے روک دیتا، بس رکنے سے چند منٹ قبل کنڈکٹر تمام مسافروں کو تازہ دم کرنے کے لیے مسافروں کے ہاتھوں پر خوشبو دار پانی چھڑکنا نہ بھولتا۔ یہ عمل ہر دو گھنٹے بعد دہرایا جاتا۔ علی الصباح انقرہ پہنچے اور فوراً ہی استنبول جانے والی بس میں سوار ہوگئے۔ اب دن کا سفر شروع ہوا۔ سڑک کے دونوں طرف پہاڑی سلسلے، مکانات، سبزہ اور کھیت خوب صورت منظر پیش کررہے تھے۔ جا بہ جا گھاس چَرتے مویشی بھی نظر آئے۔ شام کے سائے گہرے ہونے سے قبل ہی بس نے ہمیں استنبول پہنچادیا، وہاں سے ہم نے ٹیکسی پکڑی اور بھاگم بھاگ پی آئی اے کے دفتر پہنچ گئے۔ کائونٹر پر پاکستانی خاتون تشریف فرما تھی، اس نے دراز سے ہمارے نام کا کاغذ نکالا اور ٹکٹ تھمادیا۔ فلائٹ رات گیارہ بجے کی تھی۔ کہیں اور تو جا نہیں سکتے تھے، لہٰذا ائرپورٹ پہنچ گئے۔ روشنیوں سے جگمگاتے استنبول شہر کی مختصر جھلکیاں دیکھیں، جو آج بھی یاد ہیں۔ خوب صورت عمارتیں، صاف شفاف سڑکیں، آبنائے باسفورس میں تیرتے بحری جہاز۔ ائرپورٹ پر سرخ و سفید ترک مرد و خواتین کو دیکھ کر کسی یورپی ملک کا گمان ہوا۔ اگلے دن علی الصباح خیر و عافیت کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے۔ دو روز بعد ہی ترک سفارت خانے اور پاکستان کی وزراتِ تعلیم سے فون آنے شروع ہوگئے کہ واپس ترکی کب جارہے ہیں، تو ہم نے جوابی ٹیلی گرام میں معذرت کرلی کہ اب ہم واپس نہیںجائیں گے۔ دو ہفتے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیںخوب صورت بیٹے سے نوازا۔

ترکی سے واپس آنے کا کوئی غم نہ رہا۔ اور پھر.....کوئی چھے ماہ بعد سعودی عرب میں ملازمت کے لیے اسلام آباد سے اچانک انٹرویو کال آئی، تو بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ ہم نے تو درخواست ہی نہیں دی تھی۔ بہرحال، انٹرویو کے لیے پہنچ گئے، وہاں ایک نیک دل پاکستانی رابطہ افسر سے ملاقات ہوئی، تو یہ عقدہ کھلا کہ اسی افسر نے ہمارا ترکی کے لیے انٹرویو اور بعدازاں ویزا، ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست کیا تھا۔ ہماری ترکی سے واپسی کا بھی اسے علم تھا، لہٰذا اس نے ازراہِ ہم دردی ازخود میرا نام سعودی عرب میں انگریزی ٹیچر کی ملازمت کے لیے امیدواروں کی فہرست میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم پاکستانی ایمبیسی انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالج جدّہ پہنچ گئے۔ الحمدللہ، یہ میرے دل کی آواز تھی، جو حرمِ مکّہ میں حاضری کے وقت رب العزت نے سن لی تھی۔ بلاشبہ، حرمین شریفین میں عاجزی اور خلوص سے مانگی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔