حرص و طمع کا پھیر

October 07, 2018

یہ سچّا واقعہ ہمارے دادا جان نے ہمیں سنایا تھا، جو ان ہی کی زبانی پیش کررہا ہوں۔ ’’تقسیمِ ہند سے قبل مَیں فوج میں بھرتی تھا۔ ایک روز میںایک دعوت میں شرکت کے لیے کلیانہ گائوں جارہا تھا کہ راستے میں ایک اور گائوں آیا۔ مَیں وہاں ایک پرانے گھر میں قائم نائی کی دکان سے بال کٹوانے اور پھر منسلک حمّام میں نہانے کے بعد جب کپڑے تبدیل کرکے حمّام سے باہر آنے لگا، تو میں نے مخالف دیوار پر چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار دیکھی۔ چیونٹیاں قدرے مختلف جسامت کی تھیں، جنہیں دیکھ مجھے کچھ تجسّس ہوا، تو میں نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس میں کچھ چیونٹیاں بند کرلیں اور کلیانہ گائوں کی طرف روانہ ہوگیا۔ جس دوست کی دعوت میں مدعو تھا، وہ محکمہ پولیس کی تحقیقاتی برانچ سے وابستہ تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنے تجسّس کا اظہار کرتے ہوئے کاغذ میں بند وہ چیونٹیاں دوست کو دے دیں، جنہیں اس نے فوراً ایک بڑی بوتل میں بند کرلیا۔

دعوت ختم ہونے کے بعد دوسرے دن جب تقریباً سب مہمان چلے گئے، تو دوست نے چیونٹیوں کا گہرا مشاہدہ کیا۔ اس نے بتایا کہ عام طور پر ایسی چیونٹیاں مردہ گوشت کھانے والی ہوتی ہیں، لہٰذا اس نے پولیس کے متعلقہ افسران کو آگاہ کیا اور ایک پولیس ٹیم کے ساتھ ہم اس پرانے گھر میں قائم نائی کی دکان پر تفتیش کے لیے پہنچ گئے۔ ہماری ٹیم نے منسلک حمّام کا تفصیلی جائزہ لیا۔ جس زمینی جگہ سے چیونٹیوں کی قطار آرہی تھیں، وہاں کی کھدائی کی گئی، تو اس جگہ سے ایک آدمی کی لاش برآمد ہوئی۔فوری طور پر دکان میں موجود نائی کو گرفتار کرلیا گیا۔ تفتیش کے دوران نائی نے بتایا کہ ’’میں صرف ملازم ہوں اور میری رہائش قریبی گائوں میںہے، مجھے دفن شدہ لاش کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ ’’دکان کے مالک کا پچھلے ہفتے ڈاکوئوں (راہزنوں) کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے۔‘‘ جب مقتول نائی کی بیوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو اس نے بتایا کہ ’’وہ پچھلے ہفتے سے اپنی ماں کے گھر میں مقیم ہے۔‘‘ پولیس نے مقتول نائی کی بیوی کو بلوا کر اس سے روایتی انداز میںتفتیش کی، تو اس نےسب کچھ اگل دیا،اس نے بتایا کہ ’’پچھلے ہفتے، ایک آدمی شام کے وقت ایک چھوٹے صندوق کے ساتھ دکان پر آیا تھا۔ جب وہ شخص اپنی صندوقچی سے کپڑے نکال رہا تھا، تو میرے شوہر کی نظر اس کے کپڑوں کے نیچے رکھی کثیر رقم پر پڑگئی۔ اس دن ملازم چھٹی پر تھا اور علاقہ سنسان تھا۔ شوہر کے دل میں لالچ آئی اور اس نے شیو کرنے کے دوران تیز دھار آلہ اس شخص کی گردن پر پھیر دیا، جس کے باعث تھوڑی دیر تک تڑپنے کے بعد وہ شخص ہلاک ہوگیا، تو میرے شوہر نے حمّام کے کونے میں ایک گڑھا کھود کراس کی لاش کو دفنادیا اور دوسری ہی رات دور شہر میں رہایش اختیار کرنے کی غرض سے رقم سمیت مجھے لے کر روانہ ہوگیا۔ راستے میں ہمارا سامنا ڈاکوئوں سے ہوگیا، ڈاکوئوں نے میرے شوہر کورقم کاتھیلا چھیننے کے دوران مزاحمت پر قتل کردیا اور ساری رقم لے کر فرار ہوگئے۔ میںجان بچ جانے کے بعد اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔ پھر چند دنوں بعد خبر ملی کہ ہم سے رقم چھیننے والے تمام ڈاکو ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے۔‘‘

نائی کی بیوی سے تفتیش کے بعد پولیس جب حمّام میں دفن لاش کے کپڑوں کی جیب میں موجود ایک پرچے پر درج نام اور پتے کی مدد سے اس شخص کے گائوں پہنچی، تو پتا چلا کہ وہ شخص کافی عرصے سے لوگوں کو رقم دگنی کرنے کا جھانسا دے رہا تھا۔ اور پھر ایک روز گائوں کے بہت سے لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی لےکر اچانک غائب ہوگیا۔‘‘ یہ واقعہ جب بھی میرے ذہن میں آتا ہے، تو میرا ایمان اس بات پر اور پختہ ہوجاتا ہے کہ ناحق پیسا کبھی کسی کو دائمی فائدہ نہیں دے سکتا۔ لوگ کس طرح لالچ میں آکر اپنی جمع پونجی سے محروم ہوئے۔ کس طرح ان کی جمع پونجی لے کر فرار ہونے والا فریبی شخص نائی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اورپھر وہ قاتل نائی خود بھی ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور ڈاکو بھی چند روز بعد ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے۔

(عدنان خلیل، ایل ایل ایم ، کراچی)