ہماری پیاری پھپھو آپا

October 14, 2018

وہ میری پھپھو تھیں، ابو کی بڑی بہن، لیکن گھر کے بڑوں کی دیکھا دیکھی میں نے اور پھر میری تقلید میں میری بہنوں اور بھائیوں نے بھی ہمیشہ انھیں’’ آپا‘‘ کہا۔ جب میں پیدا ہوئی، تو گھر میں کوئی اوربچّہ نہیں تھا۔ مَیں گھر بھر کے لاڈلے بھائی کی پہلی بیٹی تھی، لہٰذا میںبھی سب کی لاڈلی ہی رہی۔ یوں تو گھر کے سبھی بڑے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، مگر آپا کو مجھ سے خاص طور پر بے انتہا محبت تھی اور اس بات پر میرے ابو اکثر انہیں چھیڑتے تھے کہ ’’تمہیں تو بس عائشہ ہی سے محبت ہے۔‘‘ لیکن ایسی بات نہیںتھی، وہ تو سب ہی بچّوں سے پیار کرتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سراپا محبت و شفقت، صاف دل، صاف گو خاتون تھیں۔ ہر قسم کی منافقت اور ریاکاری سے پاک۔ ہر ایک کا خیال رکھنے والی۔ میری پیدایش کے روز سے کافی عرصےبعد تک، آپا ہر روز مجھے ایک نیا جوڑا سی کر پہناتی تھیں۔ وہ سلائی، بُنائی کی بھی ماہر تھیں۔ ہم بہنوں اور بھائیوں کے بچّوں نے ان کے ہاتھ کے سلے بے شمار کپڑے اور ان کے ہاتھ کے بنے بے شمار سوئٹر پہنے۔یہاں تک کہ آج بھی میری بچّیاں ان کے ہاتھ کے سِلے کپڑے پہن رہی ہیں۔

مَیں اپنی عمر کے چھٹے سال میں تھی، جب ابو کا آفس کی طرف سے اسلام آباد ٹرانسفر ہوگیا اور ہم کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوگئے۔ جب کچھ لکھنا پڑھنا آیا، تو میرے اور آپا کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو میری شادی کے کچھ عرصے بعد بھی جاری رہا۔ ظاہر ہے کہ میری عمر کے حساب سے میرے خط بچکانہ ہوتے تھے، لیکن آپا میرے خطوں کے جواب بڑے مفصّل اور دل چسپ انداز میں دیا کرتیں۔ خاندان کی تمام تقریبات کا احوال ہمیں ان کے خطوط سے معلوم ہوا کرتا۔ امّی بھی آپا کے خط دل چسپی سے پڑھا کرتی تھیں اور اکثر ان کے خط مجھ سے پہلے پڑھ لیتی تھیں۔ آپا عید، بقرعید، سال گرہ اور امتحانات میں کام یابی پر سب کو فرداً فرداً تحائف بھیجا کرتیں، جس کا سلسلہ ان کی وفات سے کچھ روز پہلے تک بھی جاری رہا، بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی ہمیں بے شمار ایسی چیزیں ملیں، جو انہوں نے ہمیں دینے کے لیے جمع کر رکھی تھیں، کیوں کہ وہ کچھ عرصے بعد اسلام آباد آنے کا ارادہ کررہی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ وہ بہت بیمار تھیں، ان کی بڑی خواہش تھی کہ انہیں کبھی اسپتال میں داخل نہ ہونا پڑے، کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش اس طرح پوری کی کہ ہر کوئی ان کی موت پر رشک کررہا تھا۔ رمضان المبارک، جمعے کے روز روزے کی حالت میں تسبیح پڑھتے پڑھتے ہی وہ خاموشی سے سفرِ آخرت پر چلی گئیں۔ آپا کے جانے سے ہماری زندگیوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ آج بھی مَیں پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں، تو زندگی کی کتاب کے ہر ورق میں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ میں ان کی محبتوں کا کماحقہ بدل نہ دے پائی۔ گھر کےمعاملات اور بچّوں کی مصروفیات میں اس قدر الجھی رہتی کہ انہیں فون بھی کم ہی کرپاتی، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری عظیم آپا کو جنّت الفردوس میںاعلیٰ درجہ اور بہترین اجر عطا فرمائے۔ (آمین)

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

عائشہ ضیاء، اسلام آباد