سیاسی میدان کے طاقت ور کھلاڑی

January 02, 2019

فوربس، ٹائم میگزین ، عالمی اخبارات اور جرائد کے اعدادوشمار، سروے رپورٹس کی روشنی میں سال 2018 کے طاقتور اور فعال اُن رہنماؤں کی فہرست جاری کی ہے، جن کے اشاروں پر عالمی سیاست، معیشت اور طاقت گردش کرتی رہی اور بساطِ سیاست کا کھیل جاری رہا۔ رپورٹ کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیاگیا ، روس کے صدر دوسرے اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دسویں پائیدان پر رہے۔ ذیل میں بین الاقوامی سروے رپورٹس کی فہرست کے مطابق دس بااثر شخصیات کے بارے میں مختصراً نذرِ قارئین ہیں۔

شی جن پنگ

چین کے تاحیات صدر، مسلحافواج کے سربراہ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے شی جن پنگ دنیا کے سب سے طاقتور ترین رہنما ہیں۔ نوے کی دَہائی کے آخر میں انہوںنے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ برسوںچین کے مختلف اداروں کے سربراہ رہے۔ان کی محنت، حب الوطنی اور لیاقت نے انہیںسیاسی رہنمائوں کی صف میںاولین اور بلند مقام تک پہنچادیا۔ شی جن پنگ خاموش طبع، ٹھنڈے مزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک ہیں۔وہ اپنی گوناگوںمصروفیات کے باوجود مطالعہ، مشاہدے اور حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ 2023 تک وہ چین کے ہر فرد کو روزگار فراہم کردیںگے اور 2050 تک چین کے تمام عوام خوشحالی اور آسودگی میں دنیا کی تمام اقوام سے آگے ہوں گے۔ویسےچینی کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام میںپوری دنیا کو بھوک، افلاس، جہالت اور انتہا پسندی سے نجات دلانا شامل ہے۔

چین کی ون روڈون روٹپالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے چینی صدر کی جدوجہدقابل ذکر ہے ،تاحال ساٹھ سے زائد ممالک اس کلب کے ممبر بن چکےہیں اور چین سے تجارتی،صنعتی اور سرمایہ کاری کے مختلف معاہدے کررہے ہیں۔ چین کی معیشت جس رفتار سے ترقی کررہی ہے اسی رفتار سے چین اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کررہا ہے جس پر امریکہ اور بھارت کو تشویش ہے۔چین اور پاکستان کی مثالی دوستی کی بدولت پاکستان میں بھی چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ سی پیک خطے کا سب سے اہم تجارتی اور اسٹریٹجک منصوبہ ہے۔ چینی صدر نے حال ہی میں اس منصوبہ کی جلد تکمیل کی خواہش ظاہر کی ہے۔

ولادی میر پیوتن

روس کے صدر ولادی میر پیوتن عالمی سطحپر مقبول ہیں۔وہ اپنے ٹارگٹکو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ عالمی جائزوں میں انہیں 2018ء کی دنیا کی طاقت ور شخصیت قرار دیا ہےستر کےعشرے میں انہوںنے روسی سراغ رساں ایجنسی’’کےبی جی‘‘ سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا، مگر ڈپٹی ڈائریکٹر کے بعد ان کی ترقی کا راستہ رک گیا تھا جس کی وجہ سے انہوںنے ملازمت سے استعفیٰدے کرپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ سال 2000 میں انہوںنے صدر کے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے،مگر دوسری بار وہ انتخاب ہار گئے لیکن سیاست کی دنیا میںاپنے قدم مضبوطی سے جمائےرکھے اور مغربی طاقتوںکو اپنی کھلی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ،نیز مشرق وسطیٰ جنوبی امریکہ میں امریکی مخالف قوتوں کی بھرپورحمایت کرتے رہے۔ صدر پیوتن کے دور میںروس ایک بار پھر دنیا میںچند بڑی طاقتوں کی صف میںشامل ہوگیا اور دنیا میںہتھیاروں کی فروخت کا دوسرا بڑا فروخت کنندہ بن کر ابھرا۔ ان پر امریکی حزب اختلاف کی طرف سے یہ الزام بھی عائد ہے کہ صدر پیوتن نے ہیلری کلنٹن کو ہرانے کیلئے ٹرمپ کی سائبر ذرائع سے مدد کی جس پر تاحال بحثتنقید اور تحقیق جاری ہے۔

ڈونلڈٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نہ صرف امریکی بلکہ عالمی سیاست میںبھی متنازع شخصیت مانے جاتے ہیں، ہر چند کہ وہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی پارٹی کے ٹکٹپر وہ صدر منتخب ہوئے مگر ان کا پارٹی اور سیاست سے تعلق بہت کم عرصہ کا ہے، اس لئے وہ روایتی سیاستدانوںکے بجائے اپنی شخصی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹرمپ نے دنیا کے اہم رہنمائوںکو ناراض کررکھا ہے۔ ان کی سیاست کا نعرہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ ہے۔ وہ گلوبل معیشت اور کھلی منڈی کی تجارت کے بجائے پابند معیشت اور قوم پرست سیاست کا پرچار کررہے ہیں، جبکہ چین نے اس معاملے پر شدید تنقید کی ہے۔ فی الفور چین اور امریکااپنےتجارتی معاہدوں پر نظرثانی کررہے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ نے امریکا میں تارکین وطن کے حوالے سے بھی جو پالیسی اپنائی ہے وہ بھی امریکہ اور دیگر ممالک میں تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ خاصطور پرمیکسیکن اور مسلمانوں کے بارے میںٹرمپ کے خیالات زیادہ شدت پسند ہیں۔ یہاںتک کہ کینیڈا کی انسانی حقوق اور تارکین وطن کی پالیسی کو بھی صدر ٹرمپ نے تنقید کا نشانہ بنایا جس پر کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے جبکہ اکثریت نے کینیڈا کی غیرجانبدارانہ پالیسی کو سراہا۔ صدر ٹرمپ کا اہم ٹارگٹ ملکی معیشت کو بہتر بنانا، بیروزگاری کی سطح کم کرنا اور چین پر نظررکھنا ہے۔ مگر صدر ٹرمپ کا غیرلچکدار رویہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔

انجیلا مرکل

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل یورپی یونین کی سب سے نمایاں اور مقبول عام رہنما ہیں۔ خاص طور پر یورپی یونین کو متحد رکھنے، نیٹو معاہدے کو مزید فعال بنانے اور تارکین وطن کے مسئلے پر انسانی ہمدردی کا اظہار کرنے کی وجہ سے انہیںبراعظم یورپ کے علاوہ دیگر ممالک میں پسند کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوںتارکین وطن کی حمایت میںجس جرات اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے وہ عالمی رہنمائوں کی صف اول میںشام ہوگئیں۔ دوسرے لفظوں میں یورپ میں فعال رہنمائوںمیں انجیلا مرکل سرفہرست ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے انجیلا مرکل کے تعلقات میںکشیدگی رہی ہے۔ چین نے سیاسی، تجارتی اور دفاعی لحاظ سے یورپی یونین میں جرمنی کو فوقیت دی لیکن یورپی ممالک میں بعضممالک چین کی تجارت اور سرمایہ کاری کی زبردست پیش قدمی پر ہراساںنظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کو شکوہ ہے کہ وہ چین کا کھلی منڈی میں تجارتی مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں مگر جرمنی بتدریج مستحکم سیاسی راستے پر گامزن ہے۔

تھریسامئے

تھریسامئے برطانیہ کی وزیر اعظم اور کنزرویٹو پارٹی کی سب سے اہم رہنما تصور کی جاتی ہیں۔ نوے کے عشرے میں کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعدہی ہائوس آف کامن کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ دو ہزار دو میں مسلسل محنت اور لگن سے پارٹی کی سربراہ چن لی گئیں۔ بعد ازاںاپنی مثبت تنقیدی تقاریر سے کنزرویٹو پارٹی میں بہت سی تبدیلیاں لائیں جس سے پارٹی کو فائدہ حاصل ہوا اور تھرمیسامئے ایک منجھی ہوئیں سیاستدان کے طور پر سامنے آئیں۔ 2010 ءمیں انہیں وزیر داخلہ اور خواتین کی فلاح بہبود کا قلمدان ان کو سونپ دیا، جس انہوں نے بہت نمایاں کارکردگی دکھائی، جس پر برطانیہ کےمیڈیا نے انہیں دوسری مارگریٹ تھیچر کے نام سے موسوم کیا۔ برطانیہ میں بیشتر اصلاحات کا نفاذ تھریسامئے کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد سے برطانیہ خاصی میں ہل چل سی مچی ہوئی ۔ برطانوی اور یورپی دانشوروں کی رائے میں برطانیہ کا فیصلہ غلط ہے ان کا مشورہ ہے کہ برطانیہ یورپی برادری سے الگ ہو کر بہت سے دیکھے اور ان دیکھے فائدوں سے محروم ہو گیا ہے، مگر امریکہ میں صدر ٹرمپ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ یورپ میں برطانیہ کو قابل اہمیت تصور کرتے ہیں۔ یہ مسلہ بھی یورپی یونین کے لئے ددر سر بنا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نیٹو کے سالانہ بجٹ کا زیادہ تر بوجھ یورپ پر ڈال رہے ہیں ۔ تھریسامئے کے لئے صدر ٹرمپ سے دوستی یا معاہدے رسی پر چلنے کے مترادف ہیں،پھر دہشت گردی کے واقعات نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی سب سے زیادہ فکر تھریسامئے کو ہے،جن کواب آئرن لیڈی بھی کہا جانے لگا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے زیادہ طاقتور شخصیت سعودی سلطنت میں نہیں ہے۔ولی عہد نے اتنا بااختیار ہونے کے بعد ملک میں قدیم روایات اور بیشتر اصولوں کو تبدیل کرنے ، ملک سے کرپشن ختم کرنے اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کی مہم شروع کی ،جس میں سعودی عرب کی خواتین کوچند حقوق عطا کئے گئے اور کچھ بڑے شہزادوں سے کرپشن کی رقومات وصول کی گئیں، جس سے ولی عہد کی شہرت میں اضافہ ہوا سعودی عرب کے قدامت پسند حلقوں کو چھوڑ کر دیگر حلقوں نے ولی عہد کے پالیسی کو سراہا۔ 2009 میںشہزادہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کے ریاستی امور میں ہاتھ بٹاتے رہے ، انہیں اکتوبر 2017 میں ولی عہد نامزد کیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد نامزد ہونے اور اہم عہدوں پر تقرری کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور اس کو ایک اچھا اقدام قرار دیا۔ولی عہد نے وژن 2030 کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس عرصے میں سعودی عرب کی معیشت کو جو تیل پرانحصار کرتی ہے اس کو دیگر شعبوں انحصار کرنے کی طرف لے جائیں گے۔ اسلامی تعلیمات اور قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جو بھی آزادیاں اور تبدیلیاں ہو سکتی ہیں وہ عوام کو بالخصوص خواتین کو دی جائیں گی۔ ولی عہد کے اس پروگرام کو جس سیاست، معیشت ، معاشرت اور سیکورٹی شامل ہے،کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔

پوپ فرانسس

رومن کھیتولک عیسائی فرقے کے جو سب سے بڑا فرقہ ہے، پوپ فرانسس اس کے 266 ویں روحانی پیشوا ہیں۔2018ء کی تمام بین الاقوامی جائزوں اور شماریاتی سروے رپورٹس میں انہیں دنیا کی چند بڑی اور طاقتور شخصیات میں شمار کیا ہے۔ پوپ فرانسسی روحانی پیشوا، مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ سائنس، تاریخ اور عالمی حالات کے بھی ماہر ہیں۔ کرہ ارض پر جاری موسمی تغیرات پر ان کی گہری نظر ہے۔ دنیا کے تمام عیسائی سربراہ اور عالمی شخصیات پوپ کا احترام اور ان کے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں۔ 2015سے پوپ فرانسس نے ماحولیات کے حوالے سے عالمی سطح پر تحریک شروع کر رکھی ہے۔ وہ بار بار دنیا کے رہنمائوںکو کرہ ارض پر ہونے والی موسمی تغیرات اور تبدیلیوں کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں، خاص طور پر پیرس کی ماحولیات کی عالمی کانفرنس کے ایجنڈے اور عہد نامے کو جس پر دنیا 192 سربراہوں اور عالمی شخصیات کے دستخط ہیں اس ضمن میں پوپ فرانسس کو زیادہ تشویش ہے امریکہ جیسا ملک اس معاہدے سے الگ ہو کر معاہدے کے خلاف پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے جس سے دوسرے ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ پوپ فرانسس کا نعرہ کرہ ارض کو بچائو ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے اہم سربراہ پوپ کی حمایت کرتےہیں سوائےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جو ماحولیاتی مسئلہ کو محض ایک ڈرامہ قرار دیتےہیں۔ مگر اخلاقی اور روحانی طور پر دنیا کی بڑی اکثریت پوپ فرانسس کی حمایت کررہی ہے۔

ولیم ہنری بل گیٹس

ولیم ہنری بل گیٹس کا شمار دنیا کے امیر ترین شخصیات میں پہلے نمبر پر ہے ۔ان کے اثاثوں کی لاگت 95ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ انہوں نے اپنا ادارہ مائیکروسوفٹ قائم کیا۔انڈورگیم تیار کر کے فوری شہرت حاصل کر لی جس کے بعد ویڈیو گیم موسیقی، ونڈ سسٹم پر کام کر کے بہت رقم کمائی۔ مختلف سوفٹ ویئر کی تیاریوں کے بعد بل گیٹس کا ادارہ مائیکرو سوفٹ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔مائیکرو سوفٹ سے اربوں ڈالر کمائے مگر ان کا حساس دل اور روشن دماغ انسانی فلاح و بہبود کی طرف بھی مائل رہتا تھا۔ اس حوالےسے بھی پوری دنیا میں بل گیٹس اور ملینڈا بل گیٹس مشہور ہیں۔ سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے جو پوری دنیا میں مہلک بیماریوں کے علاوہ بھوک، ناخواندگی اور دیگر سماجی مسائل کے حل کے لئےکام کررہا ہے۔ بل گیٹس نے پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف مہم چلائی ہے اور اب تک چار کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو کی دوا پلائی جا چکی ہے ۔ ان کی انسان دوستی کی وجہ سے دیگر دولت مند افراد نے بھی فائونڈیشن سے تعاون کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں ہنری کلنٹن ، اور چند عرب شہزادوں کے علاوہ یورپی اور امریکی امراء بھی شامل ہیں۔

نریندر مودی

بھارت کے وزیر اعظم اور بھارتی جنتا پارٹی کے اہم رہنما نریندر مودی گزشتہ عالمی سروے کے لحاظ سے نویں پائیدان سے اب کچھ نیچے آرہے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے ایک ہزار اور پانچ سو روپیہ کے نوٹوں کی تبدیلی کی پالیسی اپنائی جس سے بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مشیر کا دعویٰ تھا کہ کھربوں روپیہ کالا دھن سامنے آجائے گا لیکن کالا دھن تو ہاتھ نہ لگا مگر ان کی اس پالیسی پر کالک مل گئی۔ نریندر مودی تند و تیز بیانات دینے اور اشتعال انگیز تقریروں سے ہندو عوام کو اپنے سحر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر قدامت پسند اور شر پسند ہندو تنظیموں نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ،خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف طوفان شر انگیزی مچا رکھی ہے۔ وزیر اعظم مودی کو میڈیا میں رہنے کا فن آتا ہے۔ اس حوالے سے وہ بیرون ملک دورے، مختلف معاہدے اور بھارت کی ترقی کا پروپگنڈہ کرنے میں نمایاں ہوتے ہیں۔ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد اور وہاں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا اب عالمی برادری نے بھی نوٹس لینا شروع کیا ہے۔جن سے نریندر مودی کا امیج اب خاصا دھندلایا سا لگتا ہے۔ ان کی تمام جدوجہد کے باوجود بھارت کی سالانہ قومی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔ بھارت کی تمام حزب اختلاف کی جماعتیں نریندر مودی کی جاری پالیسیوں پر شدت سے نکتہ چینی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر گائے کشی کے مسئلے پر اور ’’ویجٹیرین انڈیا‘‘ کے نعروں پر بھارت کے 25 کروڑ مسلمان مودی سرکار کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسلحہ کی خریداری پر مودی سرکار کی ترجیحات نے معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

ایمنوئل میسخواں

فرانس کے صدر ایمنوئل میسخواں1977میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسکول کی تعلیم کے بعد پیانو بجانے کی تعلیم حاصل کی پھر پیرس یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے میکارلی اور کارل مارکس پر مقالات لکھ کر اعلیٰ سند حاصل کی ۔ کچھ عرصہ بینک میں کام کرکے وزارت مالیات میں ملازمت کی، جہاں سے ان کا پیشہ ورانہ اور سیاسی کیرئیر شروع ہوا۔ بعدازاں جنرل سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کرلی ۔ میخواں کی صلاحیتوں اور گرمجوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی نے انہیں مئی2007میں صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ حزب مخالفت کی جماعتوں سے سخت مقابلے کے بعد ایمنوئل میسخواں صدر بننے میں کامیاب ہوگے ۔ اس طرح فرانس کی تاریخ کے سب سے کم عمر صدر کہلائے۔ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد قانون سازی اور اصلاحات کا کام تیز تر کردیا ۔ لیکن جب تیل اور ڈیزل پر نیا ٹیکس عائد کیا تو ملک میں زبردست احتجاج شروع ہوگیا ہے ۔دائیں بازو کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ صدر استعفیٰ دیں۔ فرانس کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں بھی مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اس کے علاوہ یورپ کو تارکین وطن کا بہت بڑا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ فرانس یورپ کا اہم ملک ہے، یہاں کی سیاست کے اثرات دور تک جاتے ہیں۔ یورپی یونین میں فرانس اور صدر مسیخواں کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ امریکہ سے کشیدگی کے بعد ڈر ہے کہ فرانس سیاسی اور معاشی حوالوں سے چین کے زیادہ قریب ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو یورپ کے دیگر ممالک بھی امریکہ سے دور ہوسکتے ہیں۔

بینجمن نتن یا ہو

اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو اسرائیل کی سیاسی جماعت لیکڈ پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ نوے کی دہائی میں وہ سیاست میں فعال ہوئے ۔ پرجوش تقاریر اور وژن کی بنیاد پرانتخابات جیت کر اسرائیل کے سب سے کم عمر رہنما کہلائے۔ حال ہی میں امریکہ اور ایران کے مابین ہونے والے جو ہری معاملات کی شدید مخالفت کی ۔ اسی حوالے سے ان کے سابق امریکی صدر بارک اوباما کے مابین زبردست کشیدگی سامنے آئی ۔نتن یا ہو نے ایک طرح سے اپنا مشن بنالیا ہے کہ وہ ایران کو اس خطے میں تنہا کردیں، جو ہری معاہدہ ختم کرکہ ایران پرمزید اقتصادی پابندیاں عائد کرادیں۔ اس حوالے سے عرب کے چند بااثر ممالک بھی نتن یا ہوکے خیالات مشن سے فکری اور سیاسی مطابقت رکھتے ہیں ۔ نتن یا ہو کو فوربس اور دیگر سروے کرنے والے اداروں نے سوطاقتور رہنماوں اور شخصیات کی فہرت میں نمایاں جگہ دی ہے۔ اسرائیل، مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقتور ملک شمار ہوتا ہے جس کی معیشت بہتر ہے۔ جدید ہتھیاروںسے مسلح تربیت یافتہ فوج اور غیراعلانیہ اٹیمی طاقت بھی ہے۔ اسرائیل کے مخالف حلقوں نے شدت پسند وزیر اعطم نتن یا ہو پر داعش کو فوجی امداد فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد اسرائیل اور ایران کی کشیدگی جو تیزی سے بڑھ رہی تھی کچھ سرد دکھائی دیتی ہے۔

شینزو ایبے

جاپان کے وزیر اعظم شینزہ ایبےکا گھرانہ مکمل سیاست سے تعلق رکھتا تھا ۔ انہوں نے سیاسیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں اسناد حاصل کیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے وزارت خارجہ میں انڈر سیکریٹری سمیت کئی عہدوں پرکام کیا ۔ لبرل ڈیمو کرٹیک پارٹی میں مختلف عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ،بعدازاںپارٹی نے سربراہ مقرر کردیا۔ وہ دوسری بار وزیر اعظم مقررہوئے ہیں۔ اس بار پارلیمان سے شینزو ایبے نے بہت اہم ترامیم اور قراردادیں منظور کرائی ہیں جس کے تحت جاپان کو اپنی دفاعی طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بیرون محاذ بھی اپنی فوجیں بجھوانے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم پہلی بار زیادہ طاقتور اور بااختیار ہوکر سامنے آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ، بحرالکاہل کے شمال جنوب میں واقع جاپان دفاعی لحاظ سے اب بہت طاقتور بن کر ابھرا ہے۔ امریکہ کا بحری بیڑہ اور ایٹمی آبدوزیں گذشتہ چالیس برسوں سے زائد عرصے سے وہاں تعینات ہیں، اس کے علاوہ جاپان نے جدید ہتھیار، لڑاکا طیارے، مزائل، آبدوزیں اور لیزر ہتھیار تیار کرلئے ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے جاپان اپنے دفاع پر مجموعی سالانہ آمدنی کا دوفیصد خرچ کرتا ہے جو اربوں ڈالر بنتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور تحقیق پر جاپان کا سب سے زیادہ بجٹ ہوتا ہے۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات یونی پولر سے ملٹی پولر دنیا میں بھی بہت سی نئی تبدیلیاں متوقع ہیں جس کے لئے نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں اور اس پس منظر میں جاپان بڑی قوت اور اہم اتحادی بن کر ابھررہا ہے۔

طیب اردگان

ترکی کے صدر اور مرد آہن طیب اردگان، نوجوانی ہی میں سیاست کے میدان میں داخل ہوگئے ترکش اسلامی اسٹوڈنٹ یونین کے سرگرم رہنما بن گئے،بعدازاں وہ تحریک اسلامی جماعت میں شامل ہو گئے،پھر استنبول کے مقامی انتخابات میں جیت کر وہاں کے میئر بن گئے۔ اور سب سے پہلے انہوں نے وہاں شراب پر پابندی عائد کر دی، جس سے ترک لبرل حلقے ان کے مخالف بن گئے۔ترکی نیٹو ممالک کا اعزازی رکن ہے۔ صدر طیب اردگان یورپی یونین میں شمولیت کے شدید خواہشمند ہیں مگر یورپی یونین کی پارلیمان انہیں بنیاد پرست مسلمان صدر قرار دیتی رہی ہے ،جس سے ترکی کی رکنیت تعطل کا شکار ہے۔ گزشتہ دو تین برسوں میں ترکی نے شام ،عراق اور ترکی کے اندر بھی کردوں کے خلاف بڑے آپریشن کئے۔ داعش سے تیل خریدنے کے مسئلے پر روسی صدر پیوٹن اور صدر طیب اردگان میں بڑی کشمکش اور کشیدگی نظر آئی۔ امریکہ سے ترکی کے تعلقات بہتر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے شام اور عراق کردوں کو اسلحہ کی فراہمی روک دی ہے۔ جس کا ترکی مطالبہ کر رہا تھا۔ کبھی ترکی کو مرد بیمار کہا جاتا ہے لیکن اب ایسانہیں کہا جا رہا ۔

کم جونگ ان

شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان ملک کی سب سے بڑی واحد جماعت ورکرز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ کم جونگ دو ہزار گیارہ میں اپنے والد کے انتقال کے بعد برسر اقتدار آئے۔ کوریا کی افواج نے انہیں سپریم کمانڈر کے علاوہ مارشل کا ٹائٹل دیا ہے،اس حوالے کم جونگ ان، افواج شمالی کوریا کے سپریم کمانڈر اور مارشل ہیں، ملک کے تمام سیاسی، عسکری اور انتظامی اختیارات کم جونگ کے پاس ہیں، اس حوابے سے ان کا شمار دنیا کی طاقتور شخصیات میں ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی میں جونگ ان نے سوئزر لینڈ میں تعلیم حاصل کی پھر وہیں انگریزی زبان کی مکمل تعلیم حاصل کی،کچھ عرصہ اپنے ملک کی طرف سے سوئزر لینڈ میں سفارت کاری بھی کی۔ جزیرہ نما کوریا شمالی اور جنوبی دو ملکوں میں تقسیم ہے جب کہ شمالی کوریا اشتراکی معیشت پر انحصار کرتا ہے اور جنوبی کوریا نے جدید سرمایہ دار نظام کے تحت ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔شمالی کوریا کی افواج بارہ لاکھ کے قریب اور نیم فوجی رضا کاروں کی تعداد پچاسی لاکھ کے قریب ہے۔ جو دنیا میں دفاعی قوت کے بموجب ایک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ چھ برسوں سے شمالی کوریا اپنے صدر کم جونگ ان کی ہدایات کے عین مطابق جوہری تجربات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ سب سے خطرناک اور تشویشناک مسئلہ یہ ہے کہ صدر کم جونگ نے بین براعظمی جوہری مزائلوں کے کامیاب تجربوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے پورے خطے کا امن دائو پر لگ گیا ہے۔ کم جونگ ان نے امریکا اور جاپان کو بھی پریشان کر رکھا ہے2018 ء میں ان کا شمار دنیا کے طاقتور ترین رہنمائوں میں کیا گیا۔

جمال خاشقجی

مشہور زمانہ ہفت روزہ ٹائمز میگزین نے جمال خاشقجی کو سال 2018ء کی اہم شخصیت قرار دیتے ہوئے سرورق ان کے نام کر دیا ہے۔ جمال خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔ وہ 13 اکتوبر 1958ء کو مدینہ شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ترک تھے۔ جمال خاشقجی نے ابتدائی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کی۔ امریکا جا کر بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کیا۔ انہوں نے 1983ء میں صحافی کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا۔ سعودی عرب کے اخبارات کے علاوہ الجزیرہ اور دیگر اخبارات میں لکھتے رہے۔ ان کے مضامین تبصرے ،خبریں امریکی اور ایشیائی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ انہوں نے جنگی رپورٹر کے طور پر افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی کام کیا۔انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے عرب اخبارات میں کالم لکھے، جس کو غیر جمہوری حکومتوں نے پسند نہیں کیا۔ فلسطین کی حمایت اوراسرائیل کی مخالفت میں بھی مضامین لکھے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی انہوں نے اسرائیل کی جاری پالیسی پر شدید تنقید کی تھی۔ سی این این کے مطابق جمال خاشقجی نے زیادہ لبرل خیالات کا اظہار کرنا اور مشرق وسطیٰ کی قدامت پسند حکومتوں پر تنقید کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ خطے جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے آواز اٹھانے لگے تھے۔ جمال خاشقجی کے قتل کی گونج دنیا بھر میںسنائی دی اس کی وجہ سے سعودیہ اور ترکی کے درمیان کشید گی پیدا ہوئی۔

عمران خان

وزیر اعظم پاکستان عمران احمد خان نیازی 5اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایچی سن کالج رائل گرامر اسکول برطانیہ اور کبلی کالج آکسفورڈ سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ بچپن سے کرکٹ کا شوق رہا، انگلینڈ میں بہت کرکٹ کھیلی پھر قومی ٹیم میں شامل ہونے کے بعد عمران خان نے بہترین آل رائونڈر کا رول ادا کیا اور 1992ء میں ان کی سربراہی میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا۔انسان دوستی اور فلاحی امور میں گہری دلچسپی رہی ۔ شوکت خانم ہسپتال بنوایا، اس کے علاوہ دیگر فلاحی امور سر انجام دیئے۔طالب علمی کے دور ہی سے عمران خان علامہ اقبال اور ایرانی سماجیات کے ماہر علی شریطی کی تحریروں اور خیالات سے متاثر ہوئے۔ 25 اگست 1996ء کو انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف قائم کی۔مختلف نشیب و فراز سے گزر کر انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ہر چند کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے ان انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا مگر عمران خان نے اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بن کر حلف اٹھایا۔ بیشتر اخباری جائزوں کے مطابق عمران خان جنوبی ایشیا کے طاقتور رہنمائوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کا مشن ملک سے کرپشن ، غربت کا خاتمہ کرنا، تعلیم کو فروغ دینا، صحت عامہ اور پینے کے پانی کے لئے نئی منصوبہ بندی شروع کرنا اور سرحدوں کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ بلاشبہ نوجوان پاکستانیوں کی بہت سی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔