کشمیر کے خلاف بین الاقوامی سازش

January 25, 2019

آزاد کشمیر پر حملہ آور بھارتی فوج کے خلاف جوابی کارروائی کرنے والے پاک آزاد دستے دریائے توی کو پار کرکے حدمتارکہ جنگ سے اٹھارہ میل آگے بڑھ چکے ہیں۔ اور انہوںنے جوڑیاں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اپنی زمینی فوج کی پسپائی کو دیکھ کر بھارتی ہائی کمان نے انڈین ائیر فورس کو نہ صرف محاذ جنگ پر بلکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی دہشت پھیلانے کے لیے حملوں کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ بھارت کو بہت مہنگا پڑا اور پاکستان کے عقاب صفت اور شیر دل ہوا بازوں نے سات بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور کئی کو نقصان پہنچایا۔ دو زبردست ہوائی معرکوں کے بعد پاکستان نے پہلی بار بھارتی فوج کی چوکیوں، چھائونیوں، گولہ بارود اور پیٹرول کے ذخیروں پر بمباری کی۔ اس لیے کہ بھارتی ہوائی حملوں کے بعد پاکستان کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ اب تک کے واقعات شاہد ہیں کہ کشمیر میں ’’سیز فائر لائن‘‘ پار کرنے یا ہوائی بیڑہ استعمال کرنے کے معاملے میں پاکستان نے پہل نہیںکی بلکہ ہماری طرف سے محض جوابی کارروائی کی گئی ہے۔

کشمیر میںپاکستان کا ہر قدم، ہر تحریک اور ہر کارروائی، حق و انصاف اور دفاع آزادی کے عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، مگر عالمی امن کے محافظ ادارے اقوام متحدہ کے برسر اقتدار عناصر چونکہ نیک و بد میںتمیز کرنے کی صلاحیتوںسے عاری ہیں، لہٰذا انہیں آج تک یہ سمجھنے یا سمجھتے ہیںتو کہنے کی جرات نہیںہوئی کہ کشمیر میںظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ مظلوم کا حامی کون ہے اور اسے پنجۂ استبداد میں جکڑے رکھنے کی کون کوشش کررہا ہے؟ چنانچہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ سلامتی کونسل نے ایک بار پھر یہ قرار داد پاس کر ڈالی کہ کشمیر میں دونوںفریق خطِ متارکہ جنگ کا احترام کریںاور جنگ شروع ہونے سے پہلے کی پوزیشنوںپر واپس آجائیں لیکن یہ قرارداد بالکل مہمل ہے اس لیے کہ خط متارکہ جنگ کی خلاف ورزی پہلے بھارت نے کی تھی اس کے اخباروں نے سیزفائر لائن پار کرنے اور اس سلسلے میں اپنے وزرا کے احکامات شائع کئے تھے۔ اس پر بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی پہلے پاکستان نے کی اور وہ اس طرحکہ آزاد کشمیر کے علاقے سے’’بے وردی مسلح افراد‘‘ مقبوضہ کشمیر میںداخل ہوئے۔

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی رپورٹ اور سلامتی کونسل کی قرارداد دونوںنہ صرف مہمل ہیں بلکہ ان میںبھارت کے جارحانہ حملوں کی طرف سے جان بوجھ کر مجرمانہ چشم پوشی کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میںبھارت کے اس موقف کی حمایت کی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین آزادی ’’پاکستان کے بھیجے ہوئے مسلح سپاہی ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کی اس جانبداری کے بعد پاکستان کو اس ادارے سے انصاف کی کیا امید ہوسکتی ہے؟ یوںتو اقوام متحدہ نے گزشتہ سترہ سال میںکشمیر کے سوال پر حق و انصاف کا ساتھ دینے سے مسلسل گریز ہی کیا ہے۔ لیکن اب تبدیل شدہ حالات میں جب کہ اقوام متحدہ کے غالب عناصر یعنی دول مغرب پاکستان سے اس کی چین دوستی کے باعث ناراض ہیں۔ اس ادارے سے پاکستان دشمنی کے سوا ہم اور کوئی توقع نہیںکرسکتے۔ عین اس وقت جب کہ پاک آزاد افواج مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی خاطر اپنے خون سے تاریخ آزادی کا ایک باب زریںمرتب کررہی ہیں، اقوام متحدہ میںپہلے کی طرح ایک بار پھر اس مسئلے کو تقریروںاور قرار دادوں میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے کھٹائی میںڈالنے کی سازش ہورہی ہے۔ اس سازش میں کون کون شریک ہیں اور کون پہل کررہا ہے۔ پاکستان ان تمام حقائق سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو ان ریشہ دوانیوںکے خلاف بطور احتجاج پاکستان کو بھی انڈونیشیا کی طرحاقوام متحدہ سے الگ ہونے میںکوئی تکلف نہیںہوگا۔

بھارت اور اس کے حامیوںکی خرافات سے قطع نظر مسئلہ کشمیر کا فیصلہ اب میدان جنگ ہی میںہوگا۔ بھارت نے کشمیر میںپاکستان پر جنگ مسلط کردی ہے اور دشمن کے للکارنے پر ہم اللہ کا نام لے کر اس جہاد میںبے دھڑک کودے ہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم حق و انصاف پر ہیں۔ ہم ایک اعلیٰو ارفع مقصد کے لیے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں، لہٰذا کشمیر کی جنگ آزادی اب اپنے تاریخی اور منطقی نتیجے پر پہنچ کر ہی ختم ہوگی۔ ہم برادران کشمیر کو آزادی دلانے کا وعدہ کرچکے ہیں اب اس وعدے کو پورا کردکھانے کا وقت آگیا ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم نے ذرا بھی پس و پیش سے کام لیا اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیا توکشمیر ہمیںکبھی معاف نہیںکرے گا۔ تاریخ ہمیںکبھی معاف نہیںکرے گی۔