رمضان بازار: اربوں کی سبسڈی بھی عوام کو ریلیف دے سکے گی؟

May 09, 2019

سیاست کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں تبدیلیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ رونما ہوتا دکھائی دے رہا ہے، سب سے بڑی تبدیلی تو خود مسلم لیگ (ن) کے اندر آئی ہے کہ پہلی بار شریف برادران کی بجائے مسلم لیگ (ن) کو چلانے کے لئے ایک بڑا انتظامی سیٹ اپ بنا دیا گیا ہے جس میں کئی نائب صدور ہیں اور ان کے ذریعے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ غور کیا جائے تو اس میں صرف ایک خاص علاقے کے رہنمائوں کو لے کر ان میں عہدے بانٹ دیئے گئے ہیں ، ایک ملک گیر سیاسی جماعت کا جو ڈھانچہ ہونا چاہیے خاص طور پر اس حوالے سے کہ شریف برادران کے دو بڑے نواز شریف اور شہباز شریف پس منظر میں چلے گئے ہیں اور پارٹی اب دوسرے درجہ کی قیادت کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مگر اس قیادت میں جنوبی پنجاب کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے ، گیارہ نائب صدور بنانے کے باوجود کوئی ایک نائب صدر بھی جنوبی پنجاب جس کی آبادی 6 کروڑ سے زائد ہے سے نہیں لیا گیا۔ حیرت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ پہلے ہی جنوبی پنجاب کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسلم لیگ ( ن) نے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب سے واضح شکست کھائی اور تحریک انصاف کو ملتان سمیت کئی شہروں میں کلین سویپ کا موقع فراہم کیا، اب اس دور میں کہ جب مسلم لیگ (ن) ایک مشکل صورتحال سے گزر رہی ہے اب بھی جنوبی پنجاب کے کسی رہنما کو پارٹی کے مرکزی دھارے میں شامل نہ کرنا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) آج بھی چند خاص ہاتھوں میں موجود ہے اور شریف برادران نے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جو چالیں بنائی تھیں وہ اب بھی کام کررہی ہیں۔ ادھر تحریک انصاف بالآخر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی نظام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی یہ ایک بہت بڑی سیاسی برتری تھی کہ اس کے نمائندے بلدیاتی اداروں میں موجود تھے اور پنجاب کے اکثر شہروں میں میئر اور چیئرمین ضلع کونسل مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ تھے اور ایک عام خیال یہ تھا کہ ان نمائندوں کی موجودگی میں تحریک انصاف پنجاب میں گراس روٹ لیول تک اپنی گرفت قائم نہیں رکھ سکے گی کیونکہ ان بلدیاتی اداروں کی وجہ سے جتنے بھی ترقیاتی کام ہورہے تھے ان کے بارے میں یہی تاثر موجود تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے حامی یہ کام کررہے ہیں، حکومت نے بڑی منصوبہ بندی سے ان اداروں کو انجام تک پہنچایا۔اگرچہ اب بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس فیصلہ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے عدالتوں میں جانے کا اعلان کیا تھا مگر ایسا نہیں لگتا کہ عدالتیںاسمبلی سے منظور کردہ اور گورنر کے حکم سے نافذ ہونے والے بل کو کالعدم قرار دیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سڑکوں پر اس بل کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں ہوئے اور میئر اور چیئرمین ضلع کونسل جو اپنے اجلاس میں یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ اگر حکومت نے کوئی ایسا قدم اٹھایا تو شدید مزاحمت کی جائے گی وہ کہیں نظر نہیں آرہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام ان بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ایسی تبدیلی آئے کہ جو ان کے لئے سود مند ثابت ہو۔ تحریک انصاف نے بڑی مہارت سے اپنی حمایت کو طول دینے کا ایک پلان بنایا ہے مثلاً فوری انتخابات کرانے کی بجائے ایک سال میں انتخابات کرانے کی شق رکھی گئی ہے جبکہ اسے اقتدار میں آئے نو ماہ گزر چکے ہیں گویا جب یہ انتخابات ہوں گے تو حکومت کی آئینی مدت تقریباً سوا تین سال رہ جائے گی لیکن یہ ادارے اگلے پانچ سال کے لئے وجود میں آئیں گے اور غالب امکان یہی ہے کہ انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کو کامیابی ملے گی ۔ حکومت کو غیر مقبول کرنے میں کلیدی کردار تو وہ فیصلے بھی کررہے ہیں جن کے تحت عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے اور ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے ، حالیہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر حکومت نے رمضان المبارک کا جو ’’ تحفہ ‘‘ عوام کو دیا ہے اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں نہ صرف حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے بلکہ مہنگائی کی وہ لہر جو کچھ آہستہ سے آگے بڑھ رہی تھی اب سونامی کی شکل اختیار کرگئی ہے کیونکہ رمضان المبارک کی آمد پر پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ویسے بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اور اب تو مہنگائی مافیا کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا بہانہ بھی مل گیا ہے ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہنگائی کے عمل سے بالکل لا تعلق نظر آتی ہیں اور صاف لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہی لیپا پوتی جیسے اقدامات کئے جارہے ہیں جو ماضی کی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں اور جن پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر عوام کو ریلیف نہیں ملتا اور یہ سارے پیسے پھر مہنگائی مافیا اور افسروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اس بار بھی پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں رمضان بازار لگنے کا وہی گھسا پٹا نادر شاہی حکم جاری کیا ہے اور بازار سے 5سے 10 فیصد سستی چیزیں فراہم کرنے کے لئے کروڑوں روپے کی لاگت سے رمضان بازار سجائے گئے ہیں ۔ کیا ایک بڑے شہر میں 5 یا10 رمضان بازار عوام کو ریلیف فراہم کرسکتے ہیں ؟ کیا لوگ دو چار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ان بازاروں میں چند روپوں کی بچت کے لئے خوار ہوسکتے ہیں ؟ جبکہ کرائے کی مد میں ہی ان کے اتنے پیسے خرچ ہوجاتے ہیں۔ یہ گورننس کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ وہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں کھلا چھوڑ دے اور خود دکاندار بنا کر رمضان بازار لگا کر دے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو اشیا رمضان بازار میں بقول شخصے سستی ملتی ہیں وہ عام مارکیٹ میں نہیں مل سکتیں۔ سبزی منڈی اور غلہ منڈی میں بیٹھے ہوئے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو نکیل کیوں نہیں ڈالی جاتی ، مارکیٹ کمیٹیوں کا گلا سڑا نظام اگر کام نہیں کرپارہا تو اسے ختم کرکے کوئی اور میکنزم کیوں نہیں بنایا جاتا؟ سوال یہ ہے کہ رمضان میں سبزیوں ، پھلوں اور مرغی کے گوشت کے نرخ آسمان سے باتیں کیوں کرنے لگ جاتے ہیں ، کیا یکدم ان کی کمی واقع ہوجاتی ہے یا ذخیرہ اندوز انہیں مارکیٹ میں نہیں لاتے اور کمی پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں ۔ اگر رمضان بازاروں کی بجائے منڈیوں میں مانیٹرنگ کا ایک موثر نظام قائم کردیا جائے اور اس کے تحت مارکیٹ میں سپلائی کو یقینی بنا کر عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق اشیائے خوردونوش فراہم کی جائیں تو مہنگائی کا جو شور اس وقت مچا ہوا ہے اس میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے ، مگر ایسا کون کرے گا، لگتا یہ ہے کہ حکومت کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس منافع خوری کا حصہ ہیں اورکوئی مؤثر نظام لانے کی بجائے یہی چاہتے ہیں کہ لوٹ مار کا بازار گرم رہے اور لوگ اسی طرح کوستے ، بلبلاتے اور جمہوریت کو برا بھلا کہتے رہیں۔ تحریک انصاف کے لئے اگر کوئی سب سے بڑا خطرہ ہے تو وہ اس کی معاشی کارکردگی ہے جو پہلے دن سے عوام کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے۔