ٹیکس + ٹیکس + ٹیکس

June 23, 2019

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

ڈاکٹر قیصر بنگالی
اکانومسٹ

آیندہ مالی سال کے بجٹ میں معیشت کی سمت کا تعین نہیں کیا گیا،عالمی مالیاتی اداروں نے ہمارے ملک کی معیشت پر قبضہ کر لیاہے،بجٹ ملک دشمن اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہے،موجودہ معاشی صورت حال میں ریونیو میں اضافہ ممکن نہیں،ٹیکس بڑھانے سے تجارتی و کاروباری سرگرمیاں مزید کم ہو جائیں گی، ٹیکس بڑھانے کے بہ جائے اخراجات میں کمی لانا ہو گی،معاشی مسائل حل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے،اسے ہر صورت خسارہ کم کرنا ہوگا،تمام غیر ضروری اشیائے صرف کی درآمد پر مکمل پابندی عاید کر دی جائے، ہمارے پاس برآمد کرنے کو کچھ نہیں، تو تمام ایف ٹی ایز منسوخ کر دیے جائیں،جی ایس ٹی کم کر کے5فیصد کر دیا جائے،معاشی بحران ختم ہونے میں10برس سے زاید کاعرصہ لگے گا

ڈاکٹر قیصر بنگالی

اپوزیشن موجودہ آئی ایم ایف پیکیج پر تنقید کر رہی ہے، لیکن اسے یہ بھی تو سوچنا چاہیے


امین ہاشوانی
معاشی تجزیہ کار

کہ اس کے دور میں کوئی ایسی گڑبڑ ضرور ہوئی کہ جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی،سہولتوں کے لیے سب کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا، ہمیں ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے ڈائریکٹ ٹیکسز پر آنا پڑے گا،موجوہ حکومت بہت زیادہ تبدیلیاں لانا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے مزید معاشی مشکلات پیدا ہوں گی،ڈھانچہ جاتی اصلاحات معیشت کو بحران سے نکالنے کا حل ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہے، تمام طبقات کو مل کر ہی مسائل کا حل نکالنا ہو گا اور ایک دوسرے پر الزامات عاید کرنا مسائل کا حل نہیں، حکومت کو ایک واضح پالیسی دینی ہو گی اور اس پر عمل درآمد کرنا ہو گا،عالمی مالیاتی ادارے ہماری معاشی کمزوری کی وجہ سے ہماری سیاست پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جو نہایت غیر معمولی صورت حال ہے

امین ہاشوانی

وزیرِ اعظم عمران خان نے 50لاکھ نئے گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی کے ذریعے عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور تعمیراتی شعبے سے جڑی دوسری صنعتیں چلیں گی،

محسن شیخانی
سابق چیئرمین، آباد (آل پاکستان
بلڈرزاینڈ ڈیولپرز ایسوسی ایشن)

لیکن اس کے برعکس بجٹ میں اسٹیل اور ماربل پر 17فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا اور سیمنٹ کی قیمت میں 40پیسے فی کلو اضافہ کر دیا گیا، حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے جو نئے قوانین بنائے ہیں، ان کی وجہ سے بھی سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں، اس وقت ہمارے ملک کی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہیں،ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا،’’آباد‘‘ نے تعمیراتی صنعت پر فکس ٹیکس عاید کرنے کی تجویز بھی دی تھی،پورے پاکستان میں ایک ساتھ ڈی سی ویلیو رائج کو کرنا ہو گی،کم و بیش دو برس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر شدید مشکلات کا شکار رہے گا، جب تک ہمارا سسٹم ڈیجیٹلائزڈ نہیں ہو گا، ہم کچھ نہیں کر سکتے

محسن شیخانی

عوام کے لیے اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں، بلکہ تکلیف ہی تکلیف ہے، بجٹ کے نتیجے میں بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء مہنگی ہو جائیں گی،

خالد امین
چانسلر، انڈس یونی ورسٹی

حکومت کا یہ کہنا درست ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت کو انکم ٹیکس ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ 22کروڑ عوام میں سے 20لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس میں بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے اور 350کمپنیوں کا ہے ، اگر یہی صورت حال برقرار رہتی ہے، تو ملک کی معیشت پنپ نہیں پائے گی، لیکن چھوٹے پیمانے کی ویونگ انڈسٹری پر سیلز ٹیکس عاید کرنا کسی طور درست نہیں، کیوں کہ اس صنعت کا پہلے ہی بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے، حکومت عوام پر اتنا بوجھ ڈالے، جتنا وہ برداشت کر سکیں، کیوں کہ وہ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،نیب اور ایف بی آر کا خوف ختم کرنا ہوگا

خالد امین

انڈس یونی ورسٹی، کلفٹن کیمپس میں ’’پوسٹ بجٹ معاشی مشکلات حل کرے گا؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر،ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

11جون کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا باقاعدہ بجٹ پیش کیا۔ حکومت کی جانب سے رکھے گئے ریونیو ہدف (5,555ارب روپے) کو معروف ماہر معیشت، ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ’’مشن امپوسیبل‘‘ قرار دیا ہے، کیوں کہ پچھلے مالی سال کا ہدف 4,500ارب روپے بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ سرکار کا بھی دعویٰ ہے کہ حالیہ بجٹ سے عوام پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، حالاں کہ ڈالر کی قدر اور تیل کی قیمت بڑھنے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز، بڑی حد تک ہمارا انحصار درآمدات پر ہے،تو آیا حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے یا غلط، اس بارے میں ہمارے فورم کے شرکاء اپنی رائے دیں گے۔ دوسری جانب حکومت نے اپنا ایک برس پورا ہونے سے قبل اپنی معاشی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں اور پی ٹی آئی کا معاشی منشور بنانے والے افراد اس ٹیم کا حصہ نہیں ہیں، تو یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت صنعتی و کاروباری سرگرمیاں تقریباً رک گئی ہیں اور اگر نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد کاروباری طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے، تو معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا، روزگار کے نئے مواقع کیسے پیدا ہوں گے اور حکومت کو آمدنی کیسے حاصل ہو گی۔ علاوہ ازیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ یکم جولائی کے بعد حکومت قرضے نہیں لے سکے گی، تو اس کے نتیجے میں مستقبل میں حکومت کے لیے کیا مشکلات پیدا ہوں گی۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ آئی ایم ایف کے اشاروں پر تیار ہوا، تو کیا حکومت نے میزانیہ تیار کرتے وقت ملک اور عوام کا مفاد بھی پیشِ نظر رکھا یا نہیں۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے قبل ہمیشہ تعلیم و صحت کے شعبوں کو ترجیح دینے کی بات کرتی تھی، لیکن حالیہ بجٹ میں ان دونوں شعبوں کے لیے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم رقم مختص کی گئی ہے۔ان سمیت دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں انڈس یونی ورسٹی، کلفٹن کیمپس میں ’’پوسٹ بجٹ معاشی مشکلات حل کرے گا؟‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں اکانومسٹ/ سابق معاشی مشیر حکومت سندھ/بلوچستان، ڈاکٹر قیصر بنگالی، معاشی تجزیہ کار امین ہاشوانی اور آباد (آل پاکستان بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ایسوسی ایشن) کے سابق چیئرمین، محسن شیخانی اور انڈس یونی ورسٹی کے چانسلر، خالد امین نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :وفاقی بجٹ 2019-20ء کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

خالد امین :یہ بجٹ بہت اچھا ہے، لیکن ان کے لیے جو اس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں، یعنی پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی، جب کہ عوام کے لیے اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں، بلکہ تکلیف ہی تکلیف ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ تاہم، حکومت کا یہ کہنا درست ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت کو انکم ٹیکس ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ 22کروڑ عوام میں سے 20لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس میں بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے اور 350کمپنیوں کا ہے اور اگر یہی صورت حال برقرار رہتی ہے، تو ملک کی معیشت پنپ نہیں پائے گی، لیکن چھوٹے پیمانے کی ویونگ انڈسٹری پر سیلز ٹیکس عاید کرنا کسی طور درست نہیں، کیوں کہ اس صنعت کا پہلے ہی بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔ حکومت عوام پر اتنا بوجھ ڈالے، جتنا وہ برداشت کر سکیں، کیوں کہ وہ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

جنگ :کیا اس بجٹ میں حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نظر آ رہی ہے اور اس کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی :اس بجٹ میں معیشت کی کوئی سمت نظر نہیں آ رہی، جب کہ ہم سب اس انتظار میں تھے کہ حکومت بجٹ میں کوئی معاشی پالیسی پیش کرے گی۔ بجٹ میں معاشی پالیسی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ اب حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ پہلے ہماری منتخب حکومتوں کا خارجہ پالیسی اور دفاع میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا اور معیشت میں بھی کوئی کردار نہیں رہا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ہمارے ملک کی معیشت پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب مشیرِ خزانہ اور دیگر معاشی حکام وزیرِ اعظم اور کابینہ کو رپورٹ نہیں دیتے۔ یہ بجٹ ملک دشمن ہے اور اس کا مقصد ملکی معیشت کو درست کرنا نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہے۔ یہ حکومت ہر صورت ٹیکس جمع کرے گی۔ حکومت نے 5.5ہزار ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 30فیصد زیادہ ہے اور بجٹ کا 40فیصد بیرونی قرضوں سے پورا کیا جائے گا، جب کہ اس کے باوجود بھی 3,100ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہے۔ کوئی بھی ملک دو وجوہ کی بنا پر آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے۔ پہلی وجہ بڑھتے بجٹ خسارے کو کم کرنا اور دوسری بڑھتے رواں خسارے کو کم کرنا ہوتی ہے۔ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے ٹیکنو کریٹس کی مدد بجٹ تیار کیا ہے، تو بجٹ خسارہ کم ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقصد کچھ اور ہے۔ میں 2001ء سے یہ بتاتا آ رہا ہوں کہ ٹیکنوکریٹس کی جانب سے بنائی جانے والی معاشی پالیسیاں ملک کے لیے نقصان دہ ہیں اور اب یہ سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کا یہ بیانیہ ہے کہ ٹیکس دو، کیوں کہ ٹیکس چوری کی وجہ سے یہ ملک بحران کا شکار ہے، لیکن نہ کرپشن اور نہ ہی ٹیکس چوری کی وجہ سے حکومت بحران کا شکار ہے۔ اس وقت ہماری معیشت اس قدر کمزور ہے کہ اس سے آمدنی حاصل نہیں کی جا سکتی اور معیشت کا یہ اصول ہے کہ جب معیشت ابتری کا شکار ہو، تو ٹیکس کی شرح کم کر دی جائے اور ہماری معیشت تو گزشتہ کئی برسوں سے تنزلی کا شکار ہے۔ حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق ہماری مینوفیکچرنگ میں شرحِ نمو منفی2فیصد اور زرعی شعبے میں منفی 4فیصد ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کساد بازاری کا شکار ہیں اور ایسی صورت حال میں ٹیکس میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ حکومت نے متعدد اشیاء پر ٹیکس بڑھایا ہے۔ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں مزید کم اور صنعتیں بند ہو جائیں گی، تو حکومت ٹیکس کہاں سے جمع کرے گی۔ ہماری معیشت گزشتہ تین سے چار دہائیوں سے بحران کی شکار ہے اور گزشتہ 25برس سے اس کی شرحِ نمو ہر برس محض ایک، دو یا تین فیصد ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری معیشت میں جان ہی نہیں ہے اور بے جان معیشت سے ٹیکس نہیں نکل سکتا۔ اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر معاشی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اس معاملے میں حکومت بے اختیار ہے۔ ہم اپنی معاشی آزادی کھو چکے ہیں اور ایسا ملک اپنی سیاسی خود مختاری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ آئی ایم ایف صرف توازنِ ادائیگی کے لیے قرضہ دیتی ہے اور یہ صرف تین برس کے لیے ہوتا ہے۔ یہ معیشت کو درست نہیں کرتی۔ جب کوئی ملک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے، تو اس پر تمام شرائط درج ہوتی ہے اور جب ان پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا، تو آئی ایم ایف اگلی قسط روک لیتی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں آئی ایم ایف نے 13مرتبہ رعایت دی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسا سخت گیر ادارہ پاکستان کو اتنی رعایت کیوں دے رہا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ ہماری رسی لمبی کر کے ہمیں اس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں، جہاں یونان پہنچ گیا تھا۔ جب ہم اس مقام تک پہنچ جائیں گے، تو آئی ایم ایف ہم سے ہمارے جوہری اثاثے طلب کرے گا۔ ہم نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے، 1999ء میں ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا اور پھر ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے ٹیکنو کریٹس کے، جنہیں میں میر جعفر کہتا ہوں، ہاتھ میں آ گئی۔ ان کا یہ ایجنڈا تھا کہ پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کے فرق کو اتنا بڑھا دیا جائے کہ اسے سنبھالا ہی نہ جا سکے۔

انڈس یونی ورسٹی، کلفٹن کیمپس میں ’’پوسٹ بجٹ معاشی مشکلات حل کرے گا؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر،ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

جنگ :ایک حکومت شرحِ سود کم کرنے اور روپے کی قدر برقرار رکھنے کی پالیسی بناتی ہے، جب کہ دوسری حکومت شرحِ سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کر دیتی ہے، تو کیا یہ پالیسی قابلِ فہم ہے؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی :پالیسی معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔ جب پرویز مشرف کے دور میں شرحِ سود کم کی گئی، تو اس کی سیاسی وجوہ تھیں۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی بینکوں کو فائدہ ہوا۔ اس دور میں نئے نئے بینک کھلے اور وہ ٹھیک ٹھاک پیسہ کمانے کے بعد بند ہو گئے۔ آئی ایم ایف کے موجودہ پیکیج سے بھی بینکوں کو فائدہ ہو گا، کیوں کہ اس وقت ہمیں 15سے 18ارب ڈالرز خسارے کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں 3برس میں 6ارب ڈالرز قرضہ فراہم کرے گی اور باقی قرضہ ہمیں کمرشل بینکوں سے لینا پڑے گا، جس کے نتیجے میں بینک خوب پیسہ کمائیں گے۔ ہمیں ٹیکس بڑھانے کے بہ جائے اپنے اخراجات میں کمی لانا ہو گی اور تبھی ہم خسارے پر قابو پا سکتے ہیں۔

جنگ :حالیہ وفاقی بجٹ کے انڈسٹری بالخصوص رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

محسن شیخانی :اگر تعمیراتی شعبے کی بات کی جائے، تو وزیرِ اعظم عمران خان نے 50لاکھ نئے گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی کے ذریعے عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور تعمیراتی شعبے سے جڑی دوسری صنعتیں چلیں گی، لیکن اس کے برعکس بجٹ میں اسٹیل اور ماربل پر 17فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا اور سیمنٹ کی قیمت میں 40پیسے فی کلو اضافہ کر دیا گیا۔ نیز، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 30فیصد اضافہ بھی ہوا، تو اس کے نتیجے میں تعمیراتی لاگت 35سے 40فیصد بڑھ گئی اور پہلے جو شخص اپنا گھر بنانا چاہتا تھا، اب وہ نہیں بنا سکتا۔ دوسری جانب عدالتی احکامات کے نتیجے میں گزشتہ ڈھائی، تین برس سے کراچی میں قانونی تعمیراتی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئی ہیں، جب کہ غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے جو نئے قوانین بنائے ہیں، ان کی وجہ سے بھی سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔ ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے، لیکن جب خوف کی فضا قائم کر دی جائے گی، تو ملک میں سرمایہ کاری کیسے ہو گی اور حکومت کو ٹیکس کیسے ملے گا۔ گزشتہ 12برس سے ہمارا تجارتی خسارہ 20ارب ڈالرز ہے اور برآمدات میں اضافے کے لیے تاجروں کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ اس وقت ہمارے ملک کی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ہم نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے ہیں اور ہمیں ان کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اس وقت پوری دنیا میں تجارتی جنگ جاری ہے اور ہر ملک اور ادارہ اپنا مفاد دیکھتا ہے، تو ہمیں بھی اپنے مفادات کے تحت ہی پالیسی بنانا ہو گی۔

جنگ: ’’آباد‘‘ نے بھی بجٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز دی ہوں گی، تو ان کا کیا نتیجہ نکلا؟

محسن شیخانی :ہم نے پراپرٹی کو مارکیٹ ویلیو پر لانے کی تجویز دی تھی کہ اس سے ہماری معیشت کا حجم بڑھ جائے گا، تو اب ایسا ہی ہو رہا ہے، لیکن یہ معاملہ سندھ حکومت کی وجہ سے رک جاتا ہے، کیوں کہ یہ صوبائی معاملہ ہے، تو ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ ایک فیصد ڈیوٹی عاید کر دی جائے اور ٹرانسفر مارکیٹ پرائس پر ہو، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے تعمیراتی صنعت پر فکس ٹیکس عاید کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔

جنگ :سندھ حکومت کے آیندہ مالی سال کے بجٹ پر آپ کی کیا رائے ہیں؟

محسن شیخانی :اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں پورے پاکستان میں ایک ساتھ ڈی سی ویلیو رائج کو کرنا ہو گی۔ یہ صرف تعمیراتی شعبے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ جہاں کہیں بھی زمین کسی بھی مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو اس کی ڈی سی ویلیو ہوتی ہے۔ ہمیں ایک ساتھ آواز بلند کرنا ہو گی اور اس ملک میں آنے والے پیسے کے مصرف کے بارے میں پوچھنا ہے۔ سندھ حکومت نے بورڈ آف ریونیو اور دیگر ذرایع سے جو رقم جمع کی، وہاں کہاں خرچ ہوئی۔ ہمیں اس بارے میں پوچھنا چاہیے۔ جب تک ہم سوال نہیں کریں گے، تو محتاج ہی رہیں گے۔

جنگ:کیا مستقبل میں کراچی کی تعمیراتی صنعت بحال ہو گی؟

محسن شیخانی :کم و بیش دو برس سے یہ سیکٹر شدید مشکلات کا شکار رہے گا، کیوں کہ جب بھی نئے قوانین بنتے ہیں، تو ان سے مطابقت پیدا کرنے میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے اور اس کے بعد بہتری کے کچھ آثار پیدا ہوں گے۔

جنگ: آپ حالیہ وفاقی بجٹ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

امین ہاشوانی :حالیہ بجٹ پر جتنا بحث مباحثہ ہو رہا ہے اور جتنے مختلف النوع تبصرے سامنے آ رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ تاہم، یہ اچھی بات ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔ اپوزیشن موجودہ آئی ایم ایف پیکیج پر تنقید کر رہی ہے، لیکن اسے یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اس کے دور میں کوئی ایسی گڑبڑ ضرور ہوئی کہ جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی، جب کہ مشرف کے دور میں سرکاری ادارے منافع بخش تھے۔ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، جس میں ہمارے سماج اور میڈیا کا بھی کردار ہے۔ ہم تعلیم، صحت اور دوسری سہولتوں کی بات کرتے ہیں، لیکن ہمیں ٹیکس بھی ادا کرنا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہمارا اخلاقی بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ ہمیں اس مسئلے کا کوئی سماجی حل بھی تلاش کرنا چاہیے اور اس بارے میں ابھی تک ہم نے سوچنا بھی شروع نہیں کیا۔ موجوہ حکومت بہت زیادہ تبدیلیاں لانا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے مزید معاشی مشکلات پیدا ہوں گی، لیکن ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر سب کا اتفاق ہے، کیوں کہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کا یہی حل ہے۔ ہمیں سرکاری اداروں میں بہتری لانا ہو گی، اپنی طرزِ حکمرانی کو بہتر کرنا ہوگا اور توازنِ ادائیگی کو بہتر کرنا ہو گا۔ اس ملک میں ٹیکس چوری ایک مسئلہ ہے، حالاں کہ شہری بہت سے ان ڈائریکٹ ٹیکسز ادا کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکس امیر و غریب دونوں دے رہے ہیں اور ہمیں ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے ڈائریکٹ ٹیکسز پر آنا پڑے گا۔ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے۔ ہمیں نہ صرف اسے بڑھانا ہے، بلکہ ہمیں اپنی معیشت کو دستاویزی شکل بھی دینی ہے۔ جب پاناما اسکینڈل سامنے آیا تھا، تو میں نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ پاکستان سب سے بڑا پاناما ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ 70برس سے چل رہا ہے۔ جب پرویز مشرف کے دور میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تو سارا کاروباری طبقہ سڑکوں پر آ گیا تھا اور اس نے ہڑتال کر دی تھی۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ جنت میں سب جانا چاہتے ہیں، لیکن مرنا کوئی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم سب پاکستان کو مضبوط و مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن قربانی دینے پر کوئی آمادہ نہیں۔ حکومت ایک ایسے ماحول میں ریونیو میں اضافہ کرنا چاہتی ہے کہ جب معیشت کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ لہٰذا، یہ ایک مشکل کام ہے۔ حکومت ایک جانب برآمدات بڑھانا اور اخراجات کم کرنا چاہتی ہے، تو دوسری طرف سبسڈیز بھی ختم کر رہی ہے۔ یہ یقیناً ایک نہایت کٹھن چیلنج ہے۔ اگرچہ حکومت کی تمام باتوں سے اتفاق کرنا ضروری نہیں، لیکن مجھے اس سے ہمدردی ہے، کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہے اور ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ تمام طبقات کو مل کر ہی مسائل کا حل نکالنا ہو گا اور ایک دوسرے پر الزامات عاید کرنا مسائل کا حل نہیں۔ دوسری جانب پارلیمنٹ میں شور شرابہ جاری ہے، جب کہ ہمیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

جنگ :اس صورت حال کی ذمے دار پی ٹی آئی بھی ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے سے قبل اور بعد میں بڑے بڑے دعوے کیے تھے؟

امین ہاشوانی :میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے ایک سو دن گنوا دیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بیرونِ ملک سے 200ارب ڈالرز آ رہے ہیں۔ ملک میں تیل دریافت ہو گا، تو ہماری لاٹری نکل آئے گی۔ اسی طرح عوام کے عطیات کی مدد سے ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔ ان تمام دعوئوں پر تنقید جائز ہے۔ حکومت عطیات کی مدد سے ڈیم جیسے بڑے منصوبے نہیں بنا سکتی۔ اس کے لیے ٹیکسز جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو ابتدا ہی سے واضح پالیسی دینی چاہیے تھی اور اب بھی متصادم آراء سامنے آ رہی ہیں، جس کی وجہ سے عوام مخمصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپوزیشن اپنی سیاست چمکاتی ہے۔ عوام میں بے یقینی ختم کرنے کے لیے حکومت کو ایک واضح پالیسی دینی ہو گی اور اس پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ نیز، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ہمیں حکومت کے غلط اقدامات پر ضرور تنقید کرنی چاہیے، لیکن یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ہمیں اس کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی :امین ہاشوانی صاحب نے عمومی صورتِ حال پر گفتگو کی ہے اور ان کی باتوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہمیں مخصوص معاملات پر بات کرنی ہو گی۔ جب کسی عمارت میں لگی ہو، تو یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آگ کس نے لگائی اور عمارت کے پردے کس رنگ کے ہیں۔ یہ غیر متعلقہ باتیں ہیں۔ دو چیزیں اہم ہیں، ایک رواں خسارہ اور دوسرا مالی خسارہ۔ ہمیں ان دونوں مسائل کا حل نکالنا ہے۔ نیز، یہ بات بھی غلط ہے کہ پارلیمنٹ میں شور شرابہ ہوتا ہے، جو تشویش ناک بات ہے۔ دنیا میں پارلیمنٹ میں اس سے زیادہ بھی شور شرابہ اور ہنگامہ ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ہوتی ہی اس مقصد کے لیے ہے۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ میں تو اس شور شرابے کو پارلیمنٹ کی موسیقی کہتا ہوں۔ دراصل، ہم آمریت کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ذرا سا شور شرابہ ہوتا ہے، تو کہتے ہیں کہ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ پارلیمنٹ میں اس سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ دوسرا میں اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ دورِ آمریت میں اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے منافع بخش ہوتے ہیں اور جمہوریت میں خسارے میں چلے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی بات گزشتہ کئی برسوں سے کر رہا ہوں اور اس ضمن میں سوشل پالیسی ڈیولپمنٹ سینٹر کی رپورٹس بھی موجود ہیں۔ میں 2001ء سے مسائل کی نشان دہی کر رہا ہوں اور وہی ہوتا آ رہا ہے اور اب حالات سنگین ہو گئے ہیں۔ اب اس حکومت کو مسائل حل کرنے ہوں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا، تو ہم اس پر تنقید جاری رکھیں گے۔ یہ بات غیر متعلقہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے۔ یہ مسائل حل کرنا موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو مذکورہ بالا دونوں خسارے کم کرنا ہوں گے۔ چاہے وہ درآمدات کم کرے یا برآمدات بڑھائے یا کچھ بھی کرے۔ میں نے حال ہی میں ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس کے چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ تمام غیر ضروری اشیائے صرف کی درآمد پر مکمل پابندی عاید کر دی جائے۔

جنگ :تو ایف ٹی ایز کا کیا ہو گا؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی :تمام ایف ٹی ایز منسوخ کر دینے چاہئیں، کیوں کہ ان سب سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی وجہ سے صرف ہماری درآمدات میں اضافہ ہوا ہے، برآمدات نہیں بڑھیں، کیوں کہ ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ 17فیصد جی ایس ٹی زہرِ قاتل ہے اور اسے کم کر کے 5فیصد کیا جانا چاہیے۔ موجودہ حکومت صنعتوں کو بٹھانا چاہتی ہے۔ جی ایس ٹی کم کرنے کے ساتھ ہی صنعت کاروں کو ان کے ری فنڈز دیے جائیں، تاکہ انہیں اپنے ورکنگ کیپیٹل کے لیے بینکوں سے قرضے نہ لینا پڑیں۔ جی ایس ٹی کم کرنے سے برآمدات بڑھیں گی اور تجارتی خسارہ کم ہو گا۔

سمیر پال: کیا گزشتہ10 برس کا خسارہ 10 ماہ میں پورا ہو سکتا ہے اور کیا ہماری لوکل انڈسٹری اس قابل ہے کہ ہم ایف ٹی ایز منسوخ کر دیں؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی :یہ گزشتہ 10برس کا نہیں، بلکہ 20برس کا مسئلہ ہے۔ ہماری برآمدات میں گراوٹ 2002ء سے شروع ہوئی۔ اس سے پہلے ہمارا تجارتی خسارہ 20سے 30فیصد تھا، جو اس وقت 125فیصد تک پہنچ چکا ہے اور یہ دانستہ طور پر کیا گیا۔ بلاشبہ یہ مسئلہ 10ماہ میں ختم نہیں ہو سکتا، لیکن معیشت کی سمت کا تعین ضرور کیا جا سکتا ہے۔ معیشت کو راتوں رات ٹھیک کرنے کا دعویٰ عمران خان نے کیا تھا اور ہم اس کی توقع نہیں کرتے۔ موجودہ معاشی بحران ختم ہونے میں 10برس سے زاید کا عرصہ لگے گا، لیکن ہمیں ایک سمت درکار ہے، جب کہ اس بجٹ میں الٹی سمت دی گئی ہے۔ اب جہاں تک ایف ٹی ایز کی بات ہے، تو دو طرفہ تجارت میں ہمارے پاس بیچنے کے لیے ہی کچھ نہیں ہے۔ ہماری برآمدات میں دو تہائی حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے اور باقی چاول اور چمڑا ہے۔ میں نے انہیں تین ’’چ‘‘ کہتا ہوں۔ یعنی چادر، چاول اور چمڑا۔ اس کے علاوہ ہم کچھ بنا ہی نہیں سکتے۔ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں بالکل ان پڑھ ہیں، تو ہم کیا تجارت کریں گے۔ چین کے قونصل جنرل سے کراچی میں پوچھا گیا کہ ایف ٹی اے میں آپ ہم سے کچھ درآمد نہیں کرتے، تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ بناتے ہی کچھ نہیں ہیں۔ ہم مصنوعات اس لیے نہیں بنا سکتے کہ گزشتہ 40برس سے ہماری پالیسیاں اینٹی انڈسٹری ہیں۔ ہم نے ایک کیسینو اکانومی کو جنم دیا ہے، جہاں پیسے سٹے بازی سے کمائے جاتے ہیں اور لوگ اسٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ میں کئی ایسے صنعت کاروں کا جانتا ہوں کہ جو اپنی انڈسٹریز بند کر کے اسٹاک ایکسچینج یا پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیںاور اب مزے میں ہیں۔

امین ہاشوانی :میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ دہائیوں پرانا مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے بھی طویل عرصہ درکار ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں معاشی سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ ہمیں نئے ادارے بنانے ہوں گے اور طرزِ حکمرانی میں بہتری لانا ہو گی۔ مختلف صوبوں میں تعلیم و صحت کے شعبوں کا برا حال ہے۔ وہاں پیسے لے کر نااہل افراد کو بھرتی کیا گیا، جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ہماری سول سوسائٹی کو بھی صرف تنقید کرنے کے بہ جائے کام کرنا ہو گا۔ اگر کسی گائوں میں گھوسٹ اسکول ہے، تو مقامی باشندوں کو اس کے خلاف مل کر آواز بلند کرنی چاہیے۔ جب وہ آواز بلند کریں گے، تو میڈیا بھی ان کی طرف متوجہ ہو گا اور حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی اس مسئلے کو حل کرے گی۔ کسی ایک فرد سے توقعات وابستہ رکھنے کے بہ جائے ہمیں مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور ہم سب کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہماری سول سوسائٹی کو متحرک ہونا پڑے گا۔ جب ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے، تو سب اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک بھی بحران کا شکار ہے اور ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ صرف میڈیا میں تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنے طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانا ہو گا، کرپشن کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی اور ادارے تعمیر و مضبوط کرنے ہوں گے۔ یہ سارے کام کوئی ایک فرد نہیں کر سکتا۔ شہباز شریف نے پنجاب میں حیران کن کام کیا، لیکن ادارے نہیں بنائے ۔وہ ون مین شو تھے، جس کی وجہ سے پائیداری نہیں آ سکی۔

محسن شیخانی :مجھے امین ہاشوانی کی باتوں سے اتفاق ہے۔ البتہ میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بات کروں گا۔ ہم یہی بزنس دبئی اور لندن میں بھی کرتے ہیں اور یہ سب آن لائن ہوتا ہے۔ ہمیں ہر مرحلے کے بارے میں معلومات آن لائن مل رہی ہوتی ہیں، تو جب تک ہمارا سسٹم ڈیجیٹلائزڈ نہیں ہو گا، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آج دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ آج اگر ہم ماسٹر کارڈ یا ویزا کارڈ پوری دنیا میں استعمال کر رہے ہیں، تو اس کے پیچھے ایک نظام ہے۔ ہمیں مین ٹو مین کنٹیکٹ اور رشوت خوری کو ختم کرنا ہو گا۔ موجودہ حکومت کو اپنے ابتدائی تین ماہ میں نظام کو ڈیجیٹلائزڈ کرنا چاہیے تھا۔ ہم اپنی آبادی اور کچی بستیوں کے لیے لڑ رہے ہیں اور جب تک یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہو گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔

محمد اسحٰق :موجودہ وفاقی بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جا رہا ہے۔ ہر حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرے گی، لیکن پھر قرضے لینے پہنچ جاتی ہے، تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

امین ہاشوانی :آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتی ہے، تو اس ملک کو اس کے سامنے اپنا ایک منصوبہ پیش کرنا پڑتا ہے، جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کون سے ایسے اقدامات کرے گا کہ جس کی وجہ سے وہ قرضہ ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستانی معیشت پر عالمی سیاست بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین، امریکا کا حریف ملک ہے اور پاکستان، چین کے کیمپ میں جا رہا ہے، جس کی وجہ سے امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں پاکستان قرضے کی رقم چین کو تو نہیں دے رہا، کیوں کہ سی پیک دونوں ممالک کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ یہ نہایت ہی غیر معمولی صورت حال ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ہماری معاشی کمزوری کی وجہ سے ہماری سیاست پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ یہ صرف معیشت کا معاملہ نہیں، بلکہ ہمیں اپنے طرزِ عمل کو بھی بدلنا ہو گا، کیوں کہ اب ہماری سیاسی خود مختاری دائو پر لگی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی :آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ موڑنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مستقبل میں مزید موڑے جائیں گے۔

جنگ :بلاشبہ اس وقت ہمارا ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور ان میں بتدریج کمی کے بہ جائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت سیاسی میدان میں افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرے، تو کیا حالات میں بہتری واقع نہیں ہو گی؟

امین ہاشوانی :ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان کی حکومت ایک پاپولسٹ یا عوامیت پسند حکومت ہے اور یہ ایک بیانیے کی بنیاد پر منتخب ہوئی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں یہ سلسلہ عام ہے۔ اس قسم کی حکومتیں عمومی طور پر شخصیت پر انحصار کرتی ہیں اور اداروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور پی ٹی آئی کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو سخت اور بے لچک رویہ کسی حد تک زیب دیتا ہے، لیکن حکومت میں آنے کے بعد رویہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب ہونا چاہیے، لیکن خود کو دیانت دار اور دوسروں کو بد دیانت کہنے سے آپ کی اپنی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کو اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہیے اور اگر کوئی احتساب کے بارے میں سوال کرتا ہے، تو اس سے متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کے لیے کہا جائے۔ عمران خان کو اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے بہ جائے اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ جب تک اداروں کی استعداد میں اضافہ نہیں ہو گا، مسائل حل نہیں ہوں گے۔

جنگ :اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو این ایف سی میں رقم بھی ملنے لگی ہے اور ان کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں، تو کیا اس کے نتیجے میں صوبوں کی بالخصوص تعلیم و صحت کے شعبوں میں کارکردگی میں کوئی فرق پڑا ہے؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی :میں سندھ کے حوالے سے بات کر سکتا ہوں۔ جی بالکل فرق پڑا ہے اور اس سلسلے میں بی ایچ یوز (صحت کے بنیادی مراکز) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سندھ کے تمام بی ایچ یوز بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹرز بھی موجود ہوتے ہیں اور ادویہ بھی۔ اس کے علاوہ دیگر سہولتیں بھی دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ماڈل اپنایا ہے اور اسے مزید توسیع دی جا رہی ہے۔ البتہ تعلیم کے شعبے میں کوئی واضح تبدیلی سامنے آئی۔

امین ہاشوانی :اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ہیلتھ کے شعبے میں تو کافی فرق آیا ہے اور اس کے اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح شعبۂ تعلیم میں بھی بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اس وقت نچلی سطح پر جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، انہیں دور کرنا وزیرِ تعلیم یا سیکریٹری ایجوکیشن کے بس کی بات نہیں ۔ اس سلسلے میں دوسری وزارتوں کو بھی کوششیں کرنا ہوں گی۔ سندھ حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی ہے، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس وقت بھی کرپشن اور بیڈ گورنینس کا مسئلہ عام ہے، لیکن یہ سب ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس مقصد کے لیے بہت زیادہ تبدیلیاں لانا ہوں گی اور جب تک جرأت مندانہ اقدامات نہیں کیے جائیں گے، نظام میں بہتری واقع نہیں ہو گی۔

جنگ :’’آباد‘‘ سندھ حکومت کی معاونت سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کم لاگت کے نئے مکانات تعمیر کیوں نہیں کرتی؟

محسن شیخانی :ہماری اس سلسلے میں سندھ حکومت سے کئی میٹنگز ہوئی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بس سے باہر ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ بھی بے بس ہیں اور ان کے پس پردہ موجود بعض دوسرے سیکٹرز تمام معاملات چلا رہے ہیں۔ پھر سندھ حکومت کو نیب کا ڈر بھی لگا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے ہم بھی ہچکچاتے ہیں، تو سندھ حکومت کے اس تاثر کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

امین ہاشوانی :سندھ حکومت میں اچھے لوگ موجود ہیں، لیکن ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

خالد امین :اس وقت کاروباری شخصیات اور اداروں میں نیب اور ایف بی آر کا خوف پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ ہمیں اس خوف کو ختم کرنا ہو گا۔