عید الاضحیٰ... ہزار جشنِ مسرت تِرے گلستاں میں

August 11, 2019

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: ندا خان، ماہا چوہدری

ملبوسات: ثناء ہارون

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

’’عید الاضحی‘‘ (بقرعید، عیدِ قرباں، بڑی عید، نمکین عید) اس اعتبار سے ’’عید الفطر‘‘ (میٹھی عید، چھوٹی عید، سویّوں والی عید) سے نہ صرف مختلف ہوتی ہے کہ اِس کی ’’چاندرات‘‘ 10 روز پہلے ہی ہوجاتی ہے، عین عید سے ایک روز قبل چاند نظر آنے، نہ آنے کی افراتفری نہیں ہوتی، بلکہ گلی، محلّوں، جگہ جگہ لگے شامیانوں، گھروں کے دالانوں، گیراجوں میں بندھے جانوروں کی آوازوں، گلے میں پڑی گھنٹیوں، پیروں میں بندھی جھانجھنوں کی جلترنگ سے بھی جو یک سر سارا ماحول ہی بدل سا جاتا ہے، تو گویا عید سے بہت پہلے ہی سے عید کا تصوّر جاگنے لگتا ہے، اِک فضا سی بن جاتی ہے۔ جہاں حکمِ ربّی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنےاور اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ اور اُن کے محبوب بیٹے سیدنا اسماعیل ؑ کے بے مثال و لازوال جذبۂ اطاعت و ایثار کے اِتباع میں دو مخلوقات باہم راضی، شِیر و شکر نظر آتی ہیں، وہیں ہر مومن کا چہرہ اِک الوہی خوشی کے احساس سے دمکتا چمکتا سا محسوس ہوتا ہے۔ وہ انشاء اللہ خان کا ایک بے حد معروف شعر ہے ناں ؎ یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں… وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا۔ تو واقعی، یہ تہوار اس اعتبار سے بھی بہت منفرد و عجیب ہے کہ ایک طرف تو جانور کی قربانی، گوشت تقسیم کرنے، بانٹنے، کھانے، کھلانے میں بھی سارا فائدہ حضرتِ انسان کا، تو دوسری طرف بے پناہ اجر و ثواب بھی اُسی کے حصّے کہ عیدالاضحی تو گویا اللہ پاک کی طرف سے اپنے بندوں کی بہترین مہمانی، دعوت و ضیافت ہے۔ خالقِ کائنات کا ارشاد ہے ’’اللہ کو ان (جانوروں)کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اُسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘(سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

یعنی صرف اِک خلوصِ دل، نیک نیّتی، تقویٰ اور خوفِ خدا کی شرط ہے اور پھر خود ہی کھانا، کِھلانا اس طور موجبِ جزا و ثواب کہ حدیثِ مبارکہؐ ہے ’’جس نے خُوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی، اُسے آتشِ جہنّم سے حجاب (یعنی روک) ہو جائے گا۔‘‘ اور ’’قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضرت عائشہؓ راوی ہیں کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا ’’اولادِ آدمؑ نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنےسے) سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ اور روزِ قیامت، وہ ذبح کیا ہوا جانور خود آئے گا، اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ۔ اور قربانی کا خون اِس سے پہلے کہ زمین پر گرے، اللہ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، پس تم قربانی کرکے اپنے دلوں کو خوش کرو۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)۔ گویا جیسے ماہِ صیام کا اصل مقصد و منشا محض بھوکا رہنا، فاقے کاٹنا نہیں، نفس کی تطہیر ہے، اِسی طرح عیدِ قرباں کا بھی مطلب و مفہوم محض جانور کے گلے پر چُھری پھیر دینا نہیں، اس کے ذریعے بارگاہِ ایزدی میں بِنا حیل و حجّت، بِلا چون و چرا سجدہ ریز ہونے کی تعلیم اور اپنی اَنا، مَیں، نفس کی قربانی کا درس دینا بھی مقصود ہے۔ راہِ خدا میں جانور ذبح کرنا صرف بندگی و رضا کی علامت نہ ہو، یہ اس بات کا اقرار، اس حقیقت کا اعتراف بھی ہو کہ اے اللہ! میرا سب کچھ تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ تیرے ہی لیے ہے اور تیرے ایک حُکم پر سب قربان ہے۔ یہ جانور کی معمولی قربانی تو محض ایک علامتی اظہار ہے، تیرا حکم ہو تو میرا سارا مال تو کیا، میری جان بھی حاضر ہے۔ ایک کمزور و مجبور، بے بس و لاچار انسان کی ہستی ہی کیا ہےکہ وہ اپنی طاقت کے بَل پر کوئی دعویٰ کرے، کچھ کرگزرنے کے عہد و پیماں باندھے۔ جو قربان کرنے، ہونے کا حُکم دیتا ہے، وہی تعمیلِ حُکم، اطاعت و فرماں برداری کی توفیق بھی، اسی لیے تو قربانی کے وقت یہ دُعا پڑھی جاتی ہے، ’’میری نماز بھی، میری قربانی بھی، میرا مرنا بھی، میرا جینا بھی صرف اللہ کے لیے ہوگا، جو ربّ العالمین ہے۔‘‘

کل، اور پھر اگلے دو روز عید الاضحی کے موقعے پر، جب کہ آپ نے ایک خُوب صُورت، اپنا پسندیدہ جانور راہِ خدا میں قربان کرنے کا ارادہ کیا ہی ہے، تو پھر اس بار یہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کی حد تک نہ ہو، اِن اشعار کے مثل ؎ ’’ہزار جشنِ مسرت تِرے گلستاں میں… ہزار رنگِ طرب تیرے رُوئے خنداں پر… تِری حیات کا مسلک، تِرے عمل کا طریق… اساس اس کی ہے، کیشِ وفا پسنداں پر… تجھے عزیز تو ہے سُنتِ براہیمیؑ… تِری چُھری تو ہے حلقومِ گو سفنداں پر… مگر تجھے اس بات کا خیال آیا…؟ تِری نگاہ نہیں، دردِ درد منداں پر۔‘‘ یہ قربانی اِخلاص و تقویٰ، اطاعت و فرماں برداری، بندگی و پرہیزگاری جیسے سَچّےو سچّے جذبات و احساسات سے لبریز ہونی چاہیے۔ ایک چُھری اَنا، مَیں، ضد، ہٹ دھرمی، خود سری و خود پسندی پر بھی چلے، تو نگاہ ہم دردی و دل جوئی، غم خواری و غم گساری کی لَو سے جُھکی جاتی ہو۔ اوّلین کوشش یہی ہو کہ اس بار ’’عیدِ قرباں‘‘ اپنی اصل رُوح کے مطابق منائی جائے۔ ہماری جانب سے بڑی عید کی بڑی خوشیوں کی بہت بڑی مبارک باد، اس چھوٹی سی ’’عید الاضحی اسپیشل بزم‘‘ اور اس دُعا کے ساتھ ؎ ’’عشق تجدید کرکے دیکھتے ہیں… پھر سے اُمید کرکے دیکھتے ہیں… قتل کرتے ہیں اپنی ہستی کا… اور پھر عید کرکے دیکھتے ہیں‘‘ قبول فرمائیں۔ اللہ کرے ؎ ہر سمت ہو خوشیوں کا سماں، عید مبارک۔