سائنسی خبرنامہ: انسانی آنکھ کیسے کام کرتی ہے

August 30, 2019

رضوان سلیم

پیارے بچو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری آنکھیں نہیں دیکھتیں بلکہ یہ تو صرف دیکھنے کا ذریعہ ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روشنی گزرنے کا رستہ ہیں-آنکھیں انسان میں ریسپٹرز کا کام سرانجام دیتی ہیں ایسے آرگنز جو مخصوص سٹیمولائی (stimuli) کو معلوم کرنے کے لیے مخصوس ہوں سینس آرگنز یا ریسیپٹرز کہلاتے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھوپڑی کے چھوٹے حصوں میں موجود ہیں، جنہیں آربٹس کہتے ہیں – آنکھ کی ساخت کو تین بڑی تہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

آنکھ کی سب سے بیرونی تہہ سکلیرا (sclera )اور کورنیا (cornea)پر مشتمل ہوتی ہے۔ سکلیرا آنکھ کو سفید رنگ دیتی ہے یہ موٹے کنیکٹو ٹشو کی بنی ہوتی ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تعلق پیدا کرنے کا کام سر انجام دینے والے ٹشوز کو کنیکٹو ٹشوز کہتے ہیں۔ یہ دوسرے ٹشوز کو سہارا دیتے ہیں اور انہیں جوڑتے ہیں اور آنکھ کے اندرونی حصوں کی حفاظت کرتی ہے اور ان کی شکل برقرار رکھتی ہے سامنے کی طرف سکلیرا کورنیا بناتی ہے – کورنیا روشنی کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے اور روشنی کی شعاعوں کو اس طرح موڑتا ہے کہ فوکس پر آ جائیں۔آنکھ کی درمیانی تہہ کورائڈ ( choroid ) کہلاتی ہے اس میں بلڈ ویسلز ہوتی ہیں اور زیادہ تر انسانوں میں سیاہ رنگ میں پائی جاتی ہے ۔ آنکھوں کے رنگ کا تعین جینز کرتے ہیں اور یہ ایک براؤن رنگ کے پگمنٹ میلنن کی مقدار میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے ، اس گہرے رنگوں یا سیاہ رنگ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آنکھ کے اندر روشنی کی ریفلیکشنز کو بے ترتیب نہیں ہونے دیتا – کورنیا کے پیچھے کورائڈ اندر کی جانب مڑی ہوتی ہے اور ایک مسکولر دائرہ بناتی ہے جسے آئرس (iris) کہا جاتا ہے آئرس کے مرکز میں گول سوراخ ہوتا ہے، جسے پیوپل کہا جاتا ہے

کورنیا سے ٹکرانے کے بعد روشنی پیوپل سے گزرتی ہے آئرس میں دو قسم کے مسلز پائے جاتے ہیں۔ – ریڈیئل مسلز ،سرکولر مسلز تیز روشنی میں آئرس کے سرکولر مسلز سکڑتے ہیں اور پیوپل تنگ ہو جاتا ہے اسی طرح دھیمی روشنی میں ریڈیئل مسلز سکڑ جاتے ہیں اور پیوپل پھیل جاتا ہے،ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آنکھ میں بہت زیادہ روشنی جانے سے ریٹینا کو نقصان ہو سکتا ہےتو پیوپل سکڑ کر اس نقصان سے بچاتا ہے اور اگر روشنی کم ہو تو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے تو پیوپل پھیل جاتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ روشنی آنکھ میں جاتی ہے اور دیکھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ آئرس کے پیچھے ایک کنویکس لینز ہوتا ہے جو روشنی کو ریٹینا پر فوکس کرتا ہے زیادہ فاصلے پر موجود چیزوں کو دیکھنے کے لیے سیلیئری مسلز ریلیکس ہوتے ہیں اور لینز کم کنویکس ہو جاتا ہے – کم فاصلے پر موجود چیزوں کو دیکھنے کے لیے سیلیئری مسلز سکڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لینز مزید کنویکس ہو جاتا ہے ( سیلیئری مسلز وہ مسلز ہوتے ہیں جن سے لینز دائرہ نما سسپنری لگامنٹ کی مدد سے جڑا ہوتا ہے)آنکھ کی اندرونی تہہ سینسری ہے اور اسے ریٹینا کہتے ہیں اس میں روشنی کے لیے حساس سیلز راڈز اور کونز اور ان سے منسلک کونز ہوتے ہیں۔انسان کی ایک آنکھ میں تقریباً 125 لاکھ راڈز سیلز اور 7 لاکھ کونز سیلز ہوتے ہیں

ریٹینا پر دو اہم مقام ہوتے ہیں۔ – فوویا،یہ ریٹینا کے بلکل مخالف ایک گہرائی ہوتی ہے اس میں کون سیلز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے یہ مقام رنگوں کی شناخت کرتا ہے۔

آپٹک ڈسک , یہ وہ مقام ہے، جہاں آپٹک نرو ریٹینا میں داخل ہوتی ہے، اس مقام پر راڈز اور کونز نہیں پائے جاتے اسے بلائنڈ سپاٹ بھی کہتے ہیں۔

آئرس کی وجہ سے آنکھ کی کیویٹی ( cavity ) دو خانوں میں تقسیم ہے –۔ اگلا چیمبر آئرس کے سامنے ہے، – پچھلا چیمبر آئرس اور ریٹینا کے درمیان۔

اگلے چیمبر میں ایک میں صاف فلوئڈ ہوتا ہے، جسے ایکوئس ہیومر کہتے ہیں ( Aqueous Humour ) اور پچھلے چیمبر میں جیلی کی طرح کا فلوئڈ ہوتا ہے، جسے وٹرس ہیومر ( vitreous humour) کہتے ہیں یہ آنکھ کی شکل برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور نازک لینز کو ساکت رکھتا ہے۔

جب کسی چیز سے ٹکڑا کر آنے والی روشنی آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو کورنیا ، پیوپل ، ایکوئس ہیومر ، لینز اور وٹرس ہیومر سے گزرتی ہے لینز اس روشنی کو ریٹینا پر فوکس بھی کرتا ہے، اس کے نتیجے میں ریٹینا پر امیج بنتا ہے – راڈز اور کونز آپٹک نرو میں نرو امپلسز پیدا کرتے ہیں ان امپلسز کو دماغ کے حصے فور برین، فوربرین کے حصے سریبرم، سریبرم کے حصے ہیمی سفیرز ، ہیمی سفیر کی بالائی تہہ سیریبرل کارٹیکس کے لوب آکسی پیٹل تک پہنچایا جاتا ہے، جہاں پہلے سے موجود تصویروں سے اور معلومات سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے اور دیکھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے اس سارے کام کو انجام دینے میں صرف اور صرف تقریباً آدھے سیکنڈ کا وقت درکار ہوتا ہے منعکس ہونے والی روشنی آپ کی آنکھ میں آدھے سیکنڈ پہلے داخل ہوئی تھی، مگر اس کی امیج آدھے سیکنڈ بعدبنتا ہے۔