ملین مارچ اسلام آباد پہنچ سکے گا یا نہیں؟

September 12, 2019

بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد مسند اقتدار تک پہنچنے والے کرکٹ کے ورلڈ چیمپئن اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں عوام کی خواہش کے مطابق تو کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکے البتہ ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے والے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کرتا دھرتا ضرور اڈیالہ جیل اور کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اشیائے خوردنوش کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر نکل چکی ہیں اور تو اور عوام کی تکالیف کی نشاندہی کرنے والے میڈیا ورکز کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ ایک طرف ملک کے اندر حکومت پر معیشت کو قابو میں رکھنے میں ناکامی کا الزام لگایا جارہا ہے تو دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے کرفیو کا نفاذ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے اور دونوں طرف ایٹمی جنگ کے خطرات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان سفارتی محاذ پر بھارتی ظلم و جبر کو بے نقاب کرکے اقوام عالم پر باور کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کو بچانے کیلئے انسانی حقوق کے چیمپئن خاموش رہے تو پھر پاکستان کو اپنی شہ رگ بچانے کیلئے عملاً آگے بڑھنا ہوگا جس کے نتائج نہ صرف دونوں ایٹمی ممالک بلکہ پوری دنیا کیلئے ٹھیک نہ ہوں گے۔ پاکستان کی کوششیں کسی حد تک بارآور ہو رہی ہیں امریکہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی پابندیاں ختم کرنے کیلئے زور دے رہا ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم نے بھی امریکہ کے بعد مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ پوری پاکستانی قوم نے کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرکے اقوام عالم پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی قوم حکومت اور فوج مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے آخری تک جاسکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مزید تین سال کیلئے تقرری کرکے حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کا عملی مظاہرہ کر دیا ہے عمران خان حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی ناکامیوں پر وائٹ پیپر جاری کیا۔ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو حکومت کے خلاف میدان میں اتارنے میں عملاً ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد کمر درد کا شکار ہیں اور وفاقی دارالحکومت آنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مریم نواز کو بھی نیب نے گرفتار کر رکھا حمزہ شہباز شریف نیب کے ریمانڈ سے گزر کر جیل پہنچ چکے ہیں رانا ثناء اللہ ابھی تک انسداد منشیات فورس کی تفتیش سے ہی نہیں نکل پائے۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کے خلاف نیب ریفرنس تیار کر چکی ہے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق صدر مملکت رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شعبہ خواتین کی سربراہ رکن سندھ اسمبلی محترمہ فریال تالپور جعلی اکائونٹس کیس میں نیب کی تفتیش کے بعد اڈیالہ سنٹرل جیل منتقل کر دیئے گئے ہیں دونوں بہن بھائیوں کو ڈاکٹروں نے ہسپتال میں رکھنے کی کوشش کی تھی مگر دونوں کو حکومتی ایماء پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا جس کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سعید غنی سمیت پوری سندھ کابینہ نے سخت ردعمل دیا اور خبردار کیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے روا رکھے گئے رویئے سے سندھ کے عوام کو کوئی اچھا پیغام نہیں جارہا۔ سندھ میں تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کراچی میں نظام حکومت میں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی قوتیں بھی پیپلز پارٹی کیلئے مسائل پیدا کرتی رہیں ہیں مگر کراچی کے عوام کی بدقسمتی کہ اس بار ان کی عیدالاضحیٰ غیر معمولی بارش کی نذر ہوگئی مگر اقتدار سے منسلک کسی گروپ نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ ایک طرف حکومت پر معاشی ناکامیوں کے الزامات لگائے جارہے ہیں تو دوسری طرف حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ معاشی حالات میں بہتری زیادہ دور نہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو نواز شریف اور آصف زرداری سے آئی ایم ایف سے بھی بڑا پیکج ملنے کی نوید سنا رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف ہے کہ مسلط کئے گئے حکمران گرفتار قیادت کو عدالتوں سے ریلیف ملنے سے قبل ہی ڈیل کی باتیں کرکے متوقع عدالتی فیصلوں کو مشتبہ کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا خیال ہے کہ حالات جس طرح جارہے ہیں 2020 انتخابات کا سال ہوگا۔ بعض حلقے مارشل لاء کے خدشات بھی ظاہر کر رہے ہیں اپوزیشن اکتوبر میں حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں ملین مارچ کرنے میں کامیاب ہوسکے گی یہ معاملہ بھی اپوزیشن حلقوں میں زیربحث ہے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان حکومت کی پہلے سال کی ناکامی کے باوجود پارلیمنٹ کوئی بھی تبدیلی رونما ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ صرف اپوزیشن میں نہیں حکمران جماعتوں میں بھی بعض لوگ اس نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے تبدیلی کے تبدیل ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ شہر اقتدار میں بیٹھے لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی تبدیلیاں لمحوں میں آجاتی ہیں۔ 66ووٹ رکھنے والوں کو تو چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا حالانکہ ووٹنگ سے پہلے بھی ساٹھ لوگوں نے کھانا اکٹھے کھایا مگر ووٹ 50نکلے۔ پارٹی سے غداری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی باتیں بھی ماضی کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ میں اقتدار موجود ہے۔ ن لیگ کو اقتدار سے دور رکھنے میں ان کی خواہش بھی موجود تھی اس لئے نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں رکھنے کے بعد آصف زرداری کو زرداری ہائوس میں تو نہیں برداشت کیا جاسکتا۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے مزید لوگ بھی ابھی ریفرنس بھگتیں گے مگر کیا پاکستان کی سیاست اسی ڈگر پر چلتی رہے گی ۔سیاسی نظام صرف سیاستدانوں نے ہی ٹھیک نہیں کرنا اس میں دوسرے عوامل زیادہ موثر ہوچکے ہیں قانون کی بالادستی کے بغیر بہتری کی خواہش تو کی جاسکتی ہے مگر بہتری آ نہیں سکتی۔