• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال کی پیدائش سے کچھ روز قبل ان کے صوفی منش والد نے خواب میں دیکھا کہ کسی وسیع میدان میں بہت سے لوگ، فضا میں چکر لگاتے ہوئے ایک سفید کبوتر کو ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دیوانہ وار پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کبوتر کبھی نیچے اترتا اور کبھی آسمان کی طرف اُڑ جاتا۔ بالآخر اس نے اچانک فضا میں غوطہ لگایا اور اقبال کے والد کی جھولی میں آن گرا۔ شیخ نورمحمّد اسے اشارۂ غیبی سمجھے اور خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا، جو خدمتِ اسلام میں نام پیدا کرے گا۔

جمعہ 3ذیقعد 1294ھ (بمطابق 9 نومبر 1877ء )کے دن سیال کوٹ کی فضا میں ابھی نمازِ فجر کی اذانیںبلند ہونا شروع ہوئی تھیں کہ شیخ نور محمّد کے چھوٹے سے ایک منزلہ مکان کی تاریک کوٹھریوں میں سے کسی ایک میں ، چراغ کی ٹمٹماتی روشنی میں، ایک سُرخ و سپید پیارا سا بچّہ پیدا ہوا، جس نے گھر کے مکینوں کی توجّہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ چالیس سالہ شیخ نور محمّد نے اپنے خواب کی نسبت سے نومولود کا نام محمّد اقبال رکھا۔

ننھّے منّے اقبال کے بھائی عطا محمّد تب اٹھارہ سال کے تھے اور غالباً شادی شدہ تھے۔ بہن فاطمہ بی،عطا محمّد سے چھوٹی تھیں اور ہو سکتا ہے بیاہ کے بعد اپنے شوہر کے گھر آباد ہوں، مگر بہن طالع بی سات سال کی تھیں۔ مکان میں ان کے چچا، شیخ غلام محمّد کے اہل و عیال بھی رہتے تھے۔ اس غریب یا متوسط الحال خاندان میں ننّھا منّا اقبال اپنی والدہ، امام بی کے سایۂ شفقت میں رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا۔ بجلی کی سہولت سے محروم اس گھر کے محدود دالان میں اس نے چلنا سیکھا اور پھر تعلیم کے آغاز کے بعد اسی گھر کی تاریک کوٹھڑیوں میں، چراغ کی روشنی میں اس نے ابتدائی سبق از بر کیے۔شیخ نور محمّد خود چوں کہ بڑے دین دار آدمی تھے، ا س لیےان کی خواہش تھی کہ بچّے کو صرف دینی تعلیم دلوائیں۔ 

وہ سیال کوٹ کے علماء و فضلا سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے اور معارف ِ دین کی تفہیم کے لیے بعض اوقات مولانا ابوعبد اللہ غلام حسن کے ہاں جایا کرتے تھے۔ مولانا غلام حسن محلّہ شوالہ کی مسجد میں درس بھی دیتے تھے۔ چناں چہ جس روز اقبال چار سال چار ماہ کی عُمر کو پہنچے ، شیخ نور محمّد انہیں مسجد میں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ اقبال نے اسی مسجد میں درسِ قر آن سے تعلیم کی ابتداء کی۔ یہ تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے کتنا عرصہ مولانا غلام حسن کی درس گاہ میں قرآن مجید پڑھا مگر یہ مدّت تقریباً ایک سال کے لگ بھگ تھی۔ 

ایک دن مولانا سید میر حسن درس گاہ میں آئے اور اقبال کو وہاں درس لیتے دیکھا۔ وہ ان کی کشادہ پیشانی ، متین صُورت اور بھورے بالوں سے بے حد متاثر ہوئے اور مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ’’ کس کا بچّہ ہے؟‘‘ جب انہیں معلوم ہوا کہ شیخ نور محمّد کا لڑکا ہے تو ان کے پاس جا پہنچے اور چوں کہ شیخ نور محمّد کو خوب جانتے تھے، ا س لیے انہیں سمجھایا کہ اس بچّے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا اسے درس گاہ سے اُٹھوا کر ان کی تحویل میں دے دیا جائے۔ شیخ نور محمّد نے کچھ دن تو پس و پیش کیا مگر میر حسن کے اصرار پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا۔چناں چہ اقبال نے اپنے گھر کے قریب ہی کوچۂ میر حسام الدّین میں سید میر حسن کے مکتب میں اردو، فارسی اورعربی ادب پڑھنا شروع کیا۔

اپنی ابتدائی تعلیم کے متعلق اقبال خود بیان کرتے ہیں کہ ’’ پنجاب میں ان دنوں علم و حکمت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے تعلیم دلوائیں۔ انہوں نے اوّل تو مجھے محلّے کی مسجد میں بٹھا دیا، پھر شاہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ ‘‘ اقبال نہایت ذہین اور ہونہار تھے، اس لیے سید میر حسن نے انہیں بڑی توجّہ سے تعلیم دینا شروع کی۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ اسی دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ چوں کہ وہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے زبر دست ہامی تھے، اس لیے انہوں نے شیخ نور محمّد کی رضا مندی حاصل کرکے اقبال کو اسکاچ مشن اسکول میں داخل کروادیا۔ 

اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اقبال نے تقریباً سات برس کی عُمر میں 1884ء میں، اسکول کی پہلی جماعت میں داخلہ لیا،مگر چوں کہ وہ دوسرے بچّوں سےذہانت میں بہت آگے تھے ، ا س لیے پہلی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے1885ء سے لے کر 1891 تک چھے سالوں میں انہوں نے سات جماعتیں پاس کرلیں ۔ وہ اساتذہ سے صرف اسکول ہی میں نہ پڑھتے تھے بلکہ اسکول کے بعد سیّد میر حسن کے گھر میں بھی ا ن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا اور سیّد میر حسن کا تو معمول تھا کہ اگر بازار سودا سلف لینے جاتے، تو بھی شاگرد پیچھے پیچھے چلتے جاتے اور تدریس کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پاتا۔

(کتاب: ’’زندہ رُود‘‘ اَز ڈاکٹر جاوید اقبال، انتخاب: شفق رفیع)

ناقابلِ اشاعت کلام اور ان کے تخلیق کار

شہیدِ ملّت کو خراجِ عقیدت،ڈاکٹر عبد العزیز چشتی،جھنگ ٭کشمیر جل رہا ہے،وارث علی بٹ، مقام نہیں لکھا ٭میرا کشمیر، دیا علی صمدانی، کراچی ٭حقوقِ انسانیت کے داعی،ظفیر حُسین پرواز، کوٹلی، آزاد کشمیر ٭نذرِ حُسین، نام و مقام نہیں لکھا٭غیروں سے کہاں گِلے شکوے، میرا دل تھا، رابعہ آفرین، ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور ٭کپڑے دھونے کی مشین،عذرا جمیل، مقام نہیں لکھا ٭دو بار مات ہوگئی، زاہد اظہار، کراچی ٭وہ مجھ سے دُور ہے اب، صابر نور، قبولہ شریف ٭انڈیا جب کرے گا جارحیت، شاکر حُسین، لطیف آباد، حیدر آباد ٭ذرا سی زندگی میں، صدرمغل آباد، راول پنڈی ٭ ملن کی سہانی گھڑی، محمّد عمر ، فتح جنگ، اٹک ٭ ہر شہری کے نام، آبشار، کراچی ٭وہ آنکھیں، سمیر سیف، گلشنِ اقبال ٹاؤن، کراچی ٭تمہارے حصّے کی مارخود کھائی، سنو لعل، اقصیٰ، مقام نہیں لکھا ٭وہ اس قدر حسیں تھی، رنگ دیکھتا ہوں، رُوپ دیکھتا ہوں، احمرندیم، گلشنِ اقبال، کراچی ٭میدانِ کربلا، محمّد شرافت علی، نارتھ ناظم آباد ، کراچی ٭وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے سب کو اپنی مجبوری، مبین عرشی، مقام نہیں لکھا٭اچھا ہے، محمّد عمیر لنگوی، پسرور، سیال کوٹ ٭کشمیر، شہ رگِ پاکستان، میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبّیری، مشکوٰ ۃ عبدالوحید، مقام نہیں لکھا ٭اے قائد، شری مُرلی چند گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور ٭سفرِ لا حاصل، اعتراف، آمدِ سُخن، حالتِ نزع میں آرزوئے حیات ،پرویز احمد، مقام نہیں لکھا ٭سانحۂ پشاوراور 16 دسمبر، میکنیکل انجینئر، مقام نہیں لکھا ٭کشمیر ہمارا ہے، اقصیٰ عثمان، مقام نہیں لکھا ٭جیسے شکوہ لیے پکار رہا ہو کوئی، تاشفہ آفتاب، مقام نہیں لکھا۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے قلم کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

٭پاکستانی کتّا اور بھارتی آدمی، لاوارث، گُم شدہ، دکھ کی گھڑی،عظیمہ بی بی،نکڑالی، راول پنڈی٭نماز، صحت، مقصدِ تخلیق، شراب، فرقہ واریت، ہم پاکستانی لوگ، محمّد ذوہیب، کراچی ٭جھوٹ، اُمّ الخبائث ہے، شخصیت سازی،دوست، آپ کا آئینہ ، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی عیدی، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی،گلبرگ ٹاؤن، کراچی ٭بسم اللہ، سیّدہ فرحانہ اطہر بخاری، کراچی ٭آزادی کی متوالی شخصیات، قائدِ اعظم ؒ کو سلام کہنا، پروفیسر ناہید نرگس ٭زندگی کی سب سے بڑی غلطی، قوم کے بڑوں کو ہم درد تصوّر کیا،غلام سرور شاہوانی، مستونگ ٭مجبور، کنزا یار خان، کراچی ٭قیمت، مبین عرشی، مقام نہیں لکھا ٭نئی حکومت، بہن بھائی کی بہادری،کانچ کی چوڑی، نام و مقام نہیں لکھا ٭حضرت علی مرتضیٰ ، نام و مقام نہیں لکھا ٭باپ، فرحین منیر ،کراچی ٭دل، حنا کامران، کراچی ٭ القرآن الکریم، سعدیہ وحید سوری، اسلام آباد٭دنیا داری چھوڑ دی، ظہیر انجم تبسّم، خوشاب ٭شہیدِ ملّت لیاقت علی خاں،ڈاکٹر عبد العزیز چشتی، جھنگ٭اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں،حقیقی محبّت،قدرت کے مختلف پہلو،شبو شاد، کراچی٭کون ہیں ہم لوگ،خواجہ فرید نوازؒ،مصباح طیّب، سرگودھا ٭ماں کی عظمت، سیّدہ عطرت بتول، لاہور٭خُودی کی پہچان، ناظم حُسین، چکوال ٭صدقے تیری رحمت کے،مجذوب ملنگ، مکافاتِ عمل، ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا،فیصل آباد٭لڑکی کے قیمتی آنسو،شوہر، پانی، لالٹین، پرنس افضل شاہین، بہاول نگر٭یومِ تکبیر یا یومِ تشکّر، صبا احمد، مقام نہیں لکھا ٭عیدی،مہرین کنول، کراچی ٭درودِ پاکﷺ کی فضیلت، مسز لبنیٰ جاوید، لاہور ٭جوان کی موت، ممتاز کُنبھر، عمر کوٹ ٭چڑیا کی فریاد،عبد العلیم، رحیم یار خان ٭خالی حویلی، بنتِ سومر خانگل، کلی ترخہ،کوئٹہ ٭برے پھنسے، ابو الفرح ہمایوں، شیر دل چوہا،مقام نہیں لکھا ٭جو تم ملو تو عید ہو، عروسہ شہوار رفیع، کالا گوجراں، جہلم ٭سرمایہ ، سود اور معاشرہ، درخت، خوش حالی نہیں آئی، شری مُرلی چندگوپی چند گھو کلیہ،شکار پور ، سندھ ٭ فتح مبین، امتل متعالی، حیدر آباد ٭موضوع نہیں لکھا، راس مملوک، کراچی۔

تازہ ترین