معلمِ انسانیت ﷺ کا فلسفہ تعلیم اور اسلامی معاشرے میں ’حُصولِ علم‘ کی اہمیت

November 01, 2019

کلام پاک کے نزول اور وحی کے آغاز کے وقت سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے سرورِ عالمﷺ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا، وہ اِقرأ ہے، یعنی پڑھیے، اور قرآن پاک کی آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں، ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔اس امت کے نام اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا پیغام تعلیم حاصل کرنا ہے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ تعمیر کیا اور وہاں چند لوگ آباد ہوگئے تو دعا فرمائی ’’اے ہمار ے رب!ان میں ان ہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور پاک کرے،یقیناًتو غلبہ والااورحکمت والاہے‘‘۔ ( سورۃ البقرہ)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نبی اکرمﷺ ۖکی بعثت کا مقصد تعلیم ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا اور انہیں پاک کرتا ہے ، یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ‘‘۔( سورۃالجمعہ)رسول اللہﷺ کی تعلیم وتربیت براہ راست خود خالق کائنات نے فرمائی، جس کی تشریح کلام پاک میں بایں الفاظ موجود ہے: اور اتاری اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کو سکھائیں وہ باتیں جو آپ جانتے نہ تھے۔

حضور پرنورﷺنے متعدد مواقع پرامت کو علم وحکمت کی ترغیب دلائی۔ارشادِ نبویؐ ہے: ’’طلبِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔(سنن ابن ماجہ) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: جو شخص علم کی طلب میں نکلا ،وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے‘‘۔حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا : ’’ایک عالم کی برتری ایک عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر، اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لئے دعائے خیر کررہی ہیں‘‘۔(جامع ترمذی)معلوم ہوا کہ اسلام تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہمیں صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجے پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺکو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اسے بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح وفلاح اور کامیابی وبہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے ،اور دوسرے تمام علوم وفنون معلومات کے درجے میں ہیں، ان تمام معلومات کولوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرسکتے ہیں، کیوںکہ ان سب کے اصول حضرت آدم ؑہی کے خمیر میں ودیعت کردیے گئے ، جیسا کہ کلام پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:اور آدم ؑکو اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں بتادیں۔

اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓبیان کرتے ہیں،ایک دن رسول اللہﷺ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجدنبویؐ میں داخل ہوئے،وہاں دوحلقے لگے ہوئے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعا کر رہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام انجام دے رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کررہاہے ۔ اللہ چاہے تو اس کی دعا قبول فرمائے ،یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں، پھرآپﷺ یہیں بیٹھ گئے۔(سنن ابن ماجہ )

اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق ان کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں انبیاء ؑکا وارث اور جانشین قرار دیا ہے،آپﷺ نے فرمایا :’’جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو اللہ اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقیناً عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکے میں نہ دینار چھوڑےہیں اور نہ درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکے میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا ،اس نے ہی حصۂ کامل پایا‘‘۔(صحیح بخاری،سنن ابوداوٴد،مسند احمد)

علم کا دائرہ بہت وسیع ہے،قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے لا محدود ہے اور اسلام نے اس کی لامحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ علم حاصل کرو۔حضرت ابوہریرہؓروایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور فریضہٴ عادلہ،اس کے سوا جو کچھ بھی ہے ،وہ زائد ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ )ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ،اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا، اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں،جاوٴ میں نےتم سب کی مغفرت کردی۔(طبرانی،الترغیب والترہیب)

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں دینی علوم بھی شامل ہیں اوردیگر علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تلاوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چیزوں کوسائنس و ٹیکنالوجی کا علم کہتے ہیں، اس کے حصول پر خاص طور سے توجہ دلائی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایا گیا ہے: ’’تم اپنی صلاحیتوں کو کام میں کیوں نہیں لاتے؟ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم قرآنی آیات پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ تمہارے اندر شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لفظ علم مختلف صورتوں میں متعدد مرتبہ واردہوا ہے ۔

اسوۂ رسولؐ اور تعلیماتِ نبوی ؐ کا فلسفۂ تعلیم درحقیقت انسانیت کی تربیت اور کردار سازی ہے۔تعلیم کے بغیرتربیت ممکن نہیں،اور تربیت بغیر تعلیم پورے طور پر مؤثر نہیں ہوسکتی، لہٰذا حصولِ علم کی فرضیت کا حکم اور رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ اور لوگوں کی تربیت اورکردار سازی کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔جس طرح حصولِ علم ایک دینی فریضہ ہے،اسی طرح امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور معاشرے کی اصلاح بھی ایک دینی فریضہ ہے اور تعلیم اس کی اساس اور بنیاد ہے۔