مغلیہ دور کی مسجد ’جامع مسجد وار مبارک‘‘

November 05, 2019

روہڑی کا شمار سندھ کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے جہاں جگہ جگہ تاریخی آثار بکھرے ہوئے ہیں انہی میں 500سالہ قدیمی’’ جامع مسجدوار مبارک‘‘ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، اس قدیمی مسجد کا سنگ بنیاد 992ھ میں اکبر بادشاہ نے رکھا تھا، یہ قدیمی مسجد آج بھی ملک بھر اور بیرون ممالک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ضلع سکھر سندھ کا تیسرا بڑا اہم ، تاریخی شہر اور تجارتی مرکز ہے جہاں نہ صرف بڑی تجارتی منڈیاں موجود ہیں بلکہ اس ضلع میں کئی سو سالہ قدیم مقامات بھی موجود ہیں ۔

ہم ضلع میں موجود قدیمی تاریخی مقامات کا ذکر کرتے رہے ہیں یہ ضلع نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں ایک قدیمی اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ ضلع سکھر کی تحصیل روہڑی کی بھی ایک بڑی تاریخی حیثیت ہے۔ سکھر کے چار تعلقوں، سکھر ، روہڑی ، پنوعاقل اور صالح پٹ میں روہڑی واحد تعلقہ ہے جہاں متعدد تاریخی اور قدیمی مقامات ، مساجد موجود ہیں ان میں کئی قدیمی مساجد ہیں ۔ایک روایت کے مطابق روہڑی شہر میں سوا لاکھ اولیائے کرام اور بزرگان دین مدفون ہیں جس کی بدولت اس شہر کو روہڑی شریف بھی کہا جاتا ہے۔

یوں تو روہڑی میں متعدد قدیمی تاریخی مقامات اور مساجد موجود ہیں جن کا شمار پاکستان کی قدیم مساجد میں کیا جاتا ہے یہ قدیم مساجد اپنی قدامات اور فن تعمیر کے لحاظ سے ماضی کا عظیم عکس پیش کرتی ہیں ۔ ان میں جامع مسجد روہڑی نمایاں مقام رکھتی ہے اور یہ مسجد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جامع مسجد روہڑی تقریبًا پانچ سو سال قدیمی مسجد ہے اورعہد اکبری میں تعمیر ہونے والی یہ جامعہ روہڑی میں دریائے سندھ کے کنارے ایک پر فضا مقام پر واقع ہے ۔

مسجد پر لگے تاریخی کتبوں کے مطابق 992ھ میں جامع مسجد روہڑی کا سنگ بنیاد اکبر بادشاہ نے رکھا تھا ۔تقریبًا اس پانچ سو سالہ قدیمی جامعہ مسجد کی عمارت سرخ اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اور ایوان عرضاً دو حصوں میں منقسم ہے اور جس کے وسطی حصہ میں محراب ہے۔ ذیل کا خاکہ صرف ایوان کی عام شکل ظاہر کرتا ہے ۔

محراب سے متصل دوکوٹھریاں ہیں اور جنوبی دیوار میں دریا کی جانب کھڑکی ہے ، ایک سوراخ دار پنجرہ ہے جس پر خوش خطی سے قرآنی آیا ت تحریر ہیں۔مسجد کی عمارت نہایت مضبوط بنی ہوئی ہے۔ محراب والے حصہ میں مشرقی دیوار کو چھوڑ کر باقی تین جانب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور دیگر آیات مبارکہ درج ہیں۔

اسی حصہ کے بیرونی کتبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت ماہ رجب 992ھ میں کسی حبیب نامی شخص کے اہتمام سے مکمل ہوئی، ’’بانی خان جمقدر مسند دوران‘‘فتح خان ہے، 1320ھ میں بادشاہ ایڈورڈ کی تاج پوشی کے موقع پر کلب علی مختار کار سرکار کے اہتمام سے اس مسجد کی مرمت بھی ہوئی تھی جبکہ مسجد میں داخل ہونے کا دروازہ بالکل معمولی ہے۔ پرانے بیرونی دروازے کے باہر تھوڑی سی جگہ ہے جس میں نیم کے متعددبڑے بڑے اور پرانے درخت ہیں۔

دروازے سے داخل ہوں تو مسجد کی عام ترتیب کے مطابق پہلے صحن ہے پھر ایوان یا مسقف حصہ، ایوان کا فرش نیلی ٹائلوں کا ہے اور چھت گنبدی ہے۔ مسجد میں مضبوط اینٹوں اور خوبصورت ٹائلوں کا استعمال کیا گیا ہے ۔جامع مسجد روہڑی کے خطیب علامہ صدر الدین سعیدی کے مطابق وہ اس مسجد میں 18سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ 500 سالہ تاریخی جامع مسجد کے انتظامات کو روہڑی کے مخدوم برادران سنھالتے ہیں۔

اس تاریخی اور مذہبی آثار کو دیکھنے کے لئے نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں بلکہ بیرون ملک سے بھی سیاح یہاں آتے ہیں ۔ اس مسجد میں رنگین ٹائلوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہے جو دیکھنے میں انتہائی دلکش ہے۔ مسجد میںبیک وقت دو سے ڈھائی ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔عید الفطر اور عیدا لاضحی کے موقع پر بھی اس مسجد میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔

مسجد دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے 2010ء کے بعدسے مسجد میں دریا کا پانی بھی داخل ہوجاتا ہے کیونکہ تاریخی مسجد کی ایک دیوار ختم ہوچکی ہے۔ حکومت، متعلقہ محکمے اور انتظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ توجہ نہ دیئے جانے کے باعث پانچ سو سالہ اس تاریخی ورثہ اور مذہبی آثار کونقصان پہنچ رہا ہے۔

امام مسجد کے مطابق وہ جب سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اس دوران تقریبًا18سالوں میں سرکاری سطح پر مسجد کی مرمت ، تعمیر کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔مسجد کی منتظمہ کمیٹی کے افرادپر ہی مسجد میں اپنے طور پرمرمت، تزئین و آئش اور دیگر کام کرانے ک ذمہ داری ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے موجود اس مسجد کی تعمیر کے وقت جو کام کرایا گیا تھا، وہ انتہائی مضبوط اور پختہ تھا اور آج تقریبًا500سال کے قریب ہونے کو ہوں مسجد اپنی اصل ہیئت میں اپنی جگہ موجود ہے، تاہم اس کے نچلے حصے کی دریائی پانی کی وجہ سے مخدوش ہورہی ہے بلکہ کئی جگہ سے شہید ہوگئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی دریائے سندھ میں روہڑی کے مقام پر پانی کی سطح بلندہوتی ہے تو دریاکا پانی مسجد کے صحن میں بھی داخل ہوجاتا ہے اس قدیمی جامعہ مسجد کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے اور مسجد کے مرمتی و تعمیراتی کام کو کرانے کے لئے حکومت ، انتظامیہ کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔