اپنے لیے جینا بھی کوئی جینا ہے

February 22, 2020

ارم فاطمہ

معاذ اور اسد گہرے دوست تھے، وہ اسکول میں ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے۔ دونوں اپنی پر چیز ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے، چاہے کتابیں ہوں یا لنچ، یہاں تک کہ اپنا جیب خرچ بھی ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ ان کی دوستی پورے اسکول میں مشہور تھی۔ تمام اساتذہ ان کے حسن سلوک، محبت اور ذہانت کی مثالیں کو دیتے تھے۔ کھیل کا میدان ہو یا امتحان کی تیاری، اسکول کے فنکشنز کی تیاری ہو یا تقریری مقابلوں کا انعقاد، ہر جگہ ہر چیز میں ان دونوں کی شمولیت لازمی تھی۔ وہ دونوں ایک طرح سے اسکول کا سرمایہ اور اثاثہ تھے۔

ان گہرے دوستوں کے مزاج میں زمین آسمان کافرق تھا۔ معاذ میں غصہ اور جلد بازی بہت تھی، جب کہ اسد دھیمے اور صبر و تحمل مزاج لڑکا تھا۔ معاذ بہت خود غرض تھا، صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا۔ وہ بہت کم کسی کا خیال رکھتا تھا یا بھلائی کرتا تھا۔ اسد اس کے مقابلے میں دوسروں کا خیال رکھتاتھا اور دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود گہرے دوست تھے۔

معاذ اور اسد کے علاوہ ان کا اسکوؒ ایک اور وجہ سے پورے علاقے میں شہرت رکھتا تھا۔ وہ یہ کہ، ان انتظامیہ ہر سال کسی دو ضرورت مند اور ذہین بچوں کو نہ صرف اسکول میں مفت داخلہ دیا کرتی تھی بلکہ تمام تعلمی اخراجات، کتابیں یونیفارم، لنچ وغیرہ کے اخراجات بھی برداشت کرتی تھی۔اس کارے خیر کے لیے اسکول کے دیگر بچے ، اساتذہ اور خود پرنسپل بھی فنڈز جمع کرنے میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔

اسد کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ اس نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، مگر معاذ کبھی بھی اس نیکی میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ اسے ان نیکی کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اتفاق سے اس سال اسکول والوں نے جن دو بچوں کو منتخب کیا ان میں سے ایک بچہ سعد ان کی کلاس میں داخل ہوا۔ وہ بہت غریب بچہ تھا۔ اس کے والد وفات پا چکے تھے۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ جلد ہی اس نے اپنی ذہانت سے سبھی بچوں اور ٹیچرز کو متاثر کرلیا اور کلاس میں نمایاں مقام بنا لیا۔ کلاس میں اس کی دوستی اسد سے ہوگئی ،اسد بھی اس کا بے حد خیال رکھتا تھا۔ معاذ کو نہ جانے کیوں اس سے بے حد چڑ ہوگئی تھی۔ وہ بلا وجہ اسے تنگ کرتا اور کبھی کبھی اسے بہت ذلیل بھی کرتا۔ اسد اسے منع کرتا تھا مگر وہ باز نہ آتا۔ سعد اس کے ہر برے رویے کو سہہ جاتا تھا اور کچھ نہ کہتا تھا۔

وقت گزرتا رہا جیسے زندگی کے راستے سبھی کو ان کی الگ الگ منزلوں کی جانب لے جاتے ہیں ،اسی طرح معاذ اور اسد بھی اپنے اپنے رستوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ مگر دنیا بہت چھوٹی ہے ، کئی برسوں بعد ایک روز وہ دونوں کرکٹ میچ کے دورانایک دوسرے سے مل گئے، دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا اور خوب باتیں کیں، اتفاق سے دونوں کی سیٹ ایک ساتھ ہی تھی۔ وہ کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے بیتے لمحوں کی یادوں کو دہرا رہے تھے۔

وقت نے اور زندگی کی مشقتوں نے ان کے چہروں پر اپنی داستان لکھی تھی۔ اسد مطمئن خوشحال اور خوش باش دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں معاذ مضمحل اور خاموش تھا، جیسے زندگی نے اسے تھکا دیا ہو۔ اسد کے کہنے پر کہ وہ پہلے اپنے بارے میں بتائے کہ آج وہ کس مقام پر ہے ؟معاذ کہنے لگا ،پریکٹیکل لائف کے آغاز میں جب انسان میں ہمت اور طاقت ہوتی ہے۔ ایک جذبہ ایک مقصد ہوتا ہے، تب وہ مشکلات کا سامنا کرنے اور کچھ بھی سہہ جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ مگر جوں جوں عمر ڈھلتی ہے ہمت کم ہوتی جاتی ہے۔

میرے پاس دنیا کی ہر نعمت ہے، مگر تنہائی اور اکیلے پن نے مجھ سے جینے کی لگن چھین لی ہے۔ اب عمر کے دور میں تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ زندگی کا یہ سفر کب ختم ہو جائے کچھ پتا نہیں۔ اس کے لہجے میں دکھ اور اذیت نمایاں تھی۔ اسد کو دیکھ کر کہنے لگا، لگتا ہے زندگی نے تمہیں ہر نعمت سے نوزا ہے۔ تمہارا مسکراتا چہرہ اور روشن آنکھیں اس بات کو ظاہر کررہی ہیں۔

اسد مسکرایا اور کہنے لگا، زندگی میں ایک مقصد لے کر جینے والے کبھی مایوس اور اداس نہیں ہوتے۔ وہ لوگ جو بے غرض ہو کر دوسروں کے لیے کام کرتے ہیں انہیں کہیں نہ کہیںکسی نہ کسی ذریعے سے صلہ مل ہی جاتا ہے۔ میں جاب کرنے کے ساتھ ساتھ ایک فلاحی ادارہ چلاتا رہا ہوں، جہاں معاشرے کے ستائے ہوئے بچوں اور خواتین کو نہ صرف آسرا دیا جاتا ہے بلکہ انہیں کوئی ہنر سکھا کر معاشرے کا کار آمد فرد بنا یا جاتا ہے۔

تمہیں سعدیاد ہے وہ غریب بچہ جو اسکول کے وظائف پر تعلیم حاصل کر رہا تھا۔تم اس سے چڑتے تھے اور بلاوجہ اسے پریشان کیا کرتے تھے۔ آج ماشاء اللہ اس کا شمار ملک کے بہترین ہارٹ ا سپیشلسٹ میں ہوتا ہے۔ میں آج کل اسی کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ وہ میرا بے حد خیال رکھتا ہے۔ اس کے بیوی بچے میری بے حد عزت کرتے ہیں۔ مجھے تنہائی اور اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیتے۔

معاذ حسرت سے اس کی جانب دیکھنے لگ اور کہنے لگا !تمہارے بیوی بچے نہیں ہیں کیا؟ اسد اداسی سے مسکرایا اور کہنے لگا بیوی کا انتقال ہوگیا تھا۔ اللہ نے مجھے بھی اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا۔ میں اس رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا کہ اس نے مجھے سعد کی صورت میں زندگی گزارنے کا سہارا دے دیا۔ اس کے پوتے مجھے دادا جان کہتے ہیں۔ کسی کے لیے بلا غرض ہو کر ، بغیر کسی لالچ کے نیکی کا یہ اجر اللہ نے مجھے عطا کیا کہ آج میں بے اولاد ہو کر بھی ایک گھر ایک خاندان میں زندگی گزار رہا ہوں اور تم جو سدا صرف اپنے لیے جیتے رہے، آج بھی اکیلے ہو۔ معاذ نے سر جھکا لیا کیوں کہ یہی سچ تھا۔