فکر و سوچ کے سائنسی دریچے

February 19, 2020

خیال تازہ … شہزادعلی
زندگی دینا اور لینا تو اللہ پاک کے اختیار میں ہے اور بطور مسلمان ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ ہر نفس نے موت کا زائقہ چکھنا ہے تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج اسلام محض ایک تقلیدی فعل بن چکا ہے تجدیدی کام، سائنسی ریسرچ دیگر علوم و فنون میں ہم نے اپنا حصہ ڈالنا چھوڑ دیا ہے۔ آج ہماری فکری جہتیں، سوچ، بلکہ دائرہ عمل ایک خاص دائرے تک ہی محدود ہے جبکہ آج جب ہم مغرب یا دیگر مروجہ سائنسی فکر کا مطالعہ کریں تو آشکار ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ اسلامی سوچ اور فکر کو ہی ایکسپلور کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر خود مسلم سائنس دان، محققین فی الحالُ مفقود ہیں یا خال خال ہیں۔ اس ایک موضوع کو ہی لے لیں کہ صحت مند زندگی کیسے بسر کی جائے ؟ جو پند و نصاع ہمارے صوفیاء صدیوں پہلے کر گئے ہیں انہی کو آج کا معالج مگر اپنے انداز میں پیش کر رہا ہے۔ تاہم ہمارا آج کا موضوع مذہب کی بحث یا بعض معامالات پر مذہبی نقطہ ہائے نظر نہیں بلکہ بعض پیچیدہ تھیوریز کو عام فہم سائنسی انداز فکر کی نظر سے دیکھنا ہے اور انہیں قدرے سلیس انداز میں قارئین سے شئیر کرنا ہے۔ سائنسی انداز فکر، سا ئینٹیفک تھنک انگ یہ سوچ و فکر کا ایک موڈ آف تھنک انگ mode of thinking ہے، کسی بھی سائنسی مضمون، مواد یا مسئلہ پر۔ جس میں تھنکر، مفکر، کمال مہارت سے سوچ بچار کے دریچوں کو وا کر دیتا ہے۔ نئے نئے زاویے آپ پر آشکار ہوتے ہیں، کائنات کے سر بستہ راز عام انسانوں پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ تحقیق، ریسرچ میں اہم ترین انسٹرومنٹ، اوزار ہمیشہ انسانی ذہن، مائنڈ آف میں ہونا چاہئے۔ سائینسی سوچ و فکر ہمیں دنیا کے ہونے کا شعور عطا کرتی ہے، سائینسی انداز فکر میں جو سکلز، مہارت، ہنر درکار ہے ان میں مشاہدہ، سوالات پوچھنا، پیش گوئی کرنا، آئیڈیاز ٹیسٹ کرنا، ڈاکو منٹنگ ڈیٹا اور خیالات کو کمیونی کیٹ کرنا ہوتا ہے۔ چند روز سے آلوک جاہا Alok Jha کی ایک تصنیف، ’’آپ دائمی زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟ How to Live Forever ‘‘ راقم کے زیر مطالعہ ہے جس میں سائنس کے 35 دلچسپ موضوعات شامل ہیں۔ ان کی سائینسی تھیوریز بعض مشاہدات سے مذہبی اعتبار سے شاید کئی سوالات اٹھتے ہوں مگر اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ انسان ان کا مطالعہ کرے اور پھر مذہب کو خودسمجھنے کی بھی اہلیت ہو یہاں ہمارا مقصد مذہب سے ہٹ کر کسی نظریہ کی تقلید کی ترغیب دینا ہرگز نہیں بلکہ صرف سائنسی انداز فکر کو متعارف کرانا ہے۔ ان کی ایک تصنیف دی واٹر بک ہے یہ لندن کے جرنلسٹ اور براڈکاسٹر ہیں، اکنامسٹ کے سائینس اور ٹیکنالوجی کےنمائندے ہیں۔ گارڈین کے سائینس اور انوائرنمنٹ کے نمائندہ بھی رہے ہیں۔ نیوز اور کامنٹ لکھنے کے علاوہ وہ ایوارڈ یافتہ ویکلی دی سائینس پڈ کاسٹ پیش کرتے رہے اور گارڈین کی سائینس ویب سائٹ، آئی ٹی وی اور بی بی سی کیلئے بھی کام کیا۔ بی بی سی ٹو اور بی بی سی ریڈیو فور کیلئے سائینس پروگرام پیش کیے، 2014 میں انہیں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے سائینس رائیٹنگ ایوارڈ ملا۔ 2008 میں یورپین سائینس راۂٹر آف دی ائیر یعنی اس سال کے بہترین سائینسی مصنف کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ یو سی ایل کے اعزازی لیکچرر اور بیسٹ سیلنگ مصنف ہیں۔ کمپلیلکس یعنی پیچیدہ سائنسی آئیڈیاز مین سٹریم لوگوں تک پہنچانے کا ملکہ گویا کہ انہیں حاصل ہے۔ ہم دوسری یونیورسیز کو کیسے تلاش کرسکتے ہیں ؟کیا ہم کبھی ان دیکھی اشیا سے بات چیت کرسکیں گے؟ ایک برین کی تعمیر کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ مائنڈ کیسے کام کرتا ہے، اور اس طرز کے متعدد بڑے آئیڈیاز کو بقول بی بی سی سائینس فوکس میگزین صاف لکھائی کے آئیڈیاز کے زریعے انہیں
آرگنائز کیا گیا ہے جس باعث آپ ان کو جب ری وزٹ کرتے ہیں تو انبساط خوشی pleasure محسوس کرتے ہیں اور اگر پہلی بار فرسٹ ٹائم پڑھیں تو یہ eye-opener ڈسکووری ہے۔ ایک معلومات افزاء، انفارمیٹیو اور انجوائے ایبل کتاب ہے،جس میں بعض پیچیدہ اور مشکل سائنسی موضوعات کو سہل بنا کر آسان طور پر پیش کیا گیا ہے تاہم کتاب میں ریفرنسز اور حوالہ جات کی کمی نوٹ کی گئی ہے ۔ جو ایسی کتب کا خاصا ہوتا ہے۔ سو،آلوک جاہا Alok Jha لکھتا ہے :سائنس تمام تر مسائل کے حل solving problems اور بہت سے کیسیز میں ان پرابلمز کو درست سوالات پوچھ کر حل کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ شاید آپ یہ جاننے کے خواں ہوں کہ نیوکلئیر بم کیوں اتنے پاور فل ہیں؟یا بگ بینگ کے سیکنڈ آفٹر کیا وقوع پزیر ہوتا ہے؟ یا آپ فقط یہ سمجھنے کی تمنا رکھتے ہوں کہ گھر کے اندر الیکٹریسٹی، بجلی برقی رو پلگ ساکٹس کے اندر سے کیسے گزرتی ہے؟یا پھر آپ یہ جاننا چاہتے ہوں کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا کہ نہیں؟یا پھر زندگی چار عشاریہ پانچ بلین سالہ تاریخ میں کیسے evolved ہوئی ؟باالفاظ دیگر آپ یہ معلوم کرنے کی جستجو کر رہے ہیں کہ ہم نے یہ کیسے معلوم کیا کہ زمین چار عشاریہ پانچ بلین سال پرانی ہے؟ یہ سوالات اور بے شمار دیگر کے جوابات انسان نے دریافت کیے ہیں۔ سائنس نے ہمیں ایسے ہتھیار عطا کیے ہیں جن سے ہم یونیورس کے بعض انتہائی طاقتور ترین رازوں کے قفل کھول سکتے ہیں ۔ پہلا باب ایک بھیڑ کیسے کلون کریں؟ How to clone a sheep? اس کا آغاز شروعات ایک سیل cell خلیہ سے ہوتا ہے۔ چیپٹر تھری، جو کتاب کا عنوان ہے میں لب لباب یہ لکھا ہے کہ اچیونگ اے لانگ لائف طویل العمری کا حصول، ایک صحت مند زندگی یہ سب چند سادہ ایکشنز ہیں : جیسا کہ مینٹی نینس maintenance کی کوالٹی ، ہائی کوالٹی جسم سے شروع کرنا جس کا مطلب سبزیوں کا استعمال ، سموکنگ سگریٹ نوشی سے اجتناب اور اپنی ینگ ایج میں بہت زیادہ ورزش کرنا،تو کوئی وجہ نہیں کہ
آپ کی زندگی صحت مند نہ بسر ہوسکے۔آپ شاید بقول مصنف سوسال سے زیادہ عرصہ جی لیں، اوراق پلٹتے جائیں، باب پانچ دماغ کی تعمیر کیسے کی جائے، How to build a brain چیپٹر نائن، مصنوعی زندگی کیسے بنائی جائے۔ اگلا باب ، How to build a Universe ، چیپٹر انیس، کسی غیرمعمولی ناقابل فہم واقعہ کی کیسے پیش گوئی کی جائے؟ چیپٹر پچیس، یونیورس کے گم شدہ ہارٹس کیسے تلاش کیے جائیں، اسی طرح بعض ابواب ؛ دیگر عالم، کائنات، دنیاوں کو کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ آپ کی جینز کو کیسے پروگرام کیا جائے؟ کوڈز کیسے بریک کیے جاسکتے ہیں ؟ غیر یقینی صورت میں کیسے جیا جائے؟ اس طرح ایک اہم باب، اپنے آپ کا ادراک کیسے کیا جائے۔ ?How to know your self ہم کہاں پر ہیں؟ جغرافیائی اعتبار سے نہیں لیکن بجائے یہ کہ آپ کی سیلف کہاں ہے؟ کیا آپ کی اپنی کوئی مرضی یا اختیار ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے؟ شعور، احساس ادراک ہمارے دماغ کی سائینٹفک انڈر سٹینڈنگ سائینسی سمجھ بوجھ کے لحاظ سے خالصتاً راز ہے، یہ وہ ایریا ہے جس سے بہت سے محققین حال تک دور ہی رہے۔ یہ آرگو منٹ رہی کہ یہ کانسیپٹس concepts، تصورات بہت زیادہ دقیق اور فلسفیانہ ہیں جبکہ سائنس کی ہیت ترکیبی نیچر تجربات پر بنیاد رکھتی ہے۔ یہاں مصنف تسلیم کرتا ہے کہ جیسا کہ کوئی بھی نیورو دماغی سائنسدان یا بیالوجسٹ جانتا ہے کہ کہ ہماری سائینسی سوجھ بوجھ میں ایک بڑا ہول big hole ہے کہ مائند اور باڈی جسم کیسے ایک دوسرے سے تعلق کرتے ہیں۔ جبکہ اس موضوع پر دیکھا جائے تو صوفیاء کے مراقبے ایک شخص کو اسکے اصل کی پہچان اور ادراک کراتے ہیں ۔ یہاں اس باب میں ایک سب ٹاپک ہے ، دی ہارڈ پرابلم: شعور و احساس کی سخت مشکل، کو فلاسفر ڈیوڈ چال مرز نے فارمیولیٹ کیا تھا۔ فرض کریں کہ ہم یہ سب کچھ بھی جان لیں کہ برین کیسے کام کرتا ہے۔ چال مرز کا کہنا ہے کہ ہم کو بدستور کوئی آئیڈیا نہ ہوگا کہ اس مواد سے اس طرح کا تجربہ کیوں تخلیق ہوا تھا ، دوسرے الفاظ میں کہ کائنات میں سرے سے آخر کار شعور کا وجود ہے ہی کیوں؟ برین ، دماغ نیوٹران کے نیٹ ورکس یا برین سیلز میں انفارمیشن جمع کرتا ہے۔ دماغ میں ایک سو بلینز سے زائد نیورونز ہیں، جبکہ جہاں تک شعور کے مطالعہ کا تعلق ہے سائنسدان چونکہ پہلے کسی معروف مسئلہ کو دیکھتے ہیں کہ جب کبھی وہ کسی بات جسکے متعلق وہ پہلے نہیں جانتے اس کو جب سٹڈی کرتے ہیں اس باعث شعور کے متعلق ورک کام کو روکے رکھاکہ سبجیکٹ بذات خود گنجلک ہے ۔ لیکن اب یہ بدل رہاہے، لیکن کافی ریسرچ کی وضاحت کے بعد مصنف تسلیم کرتا ہے کہ ابھی تک کسی کو یہ علم نہیں کہ شعور کیا ہے۔مزید آگے چلتے ہیں باب 33 پر مائنڈز، ذہن کو کیسے پڑھا جائے؟ How to read minds واضح کیا گیا ہے کہ سکینر ز برین دماغ کو پڑھ سکتے ہیں مگر مائنڈز کو نہیں اور ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ بالفرض اگر سائنسی ترقی کے باعث سائنسدان انسانی ذہن اور سوچ کو پڑھ لیں گے تو اس کے اخلاقی نتائج کیا ہوں گے؟ بتایا گیا ہے کہ 2003 میں ایک تجربے سے یہ معلوم ہوا تھا کہ سائنس دان تجربے میں حصہ لینے والے رضاکاروں کے برین سکین کرنے سے ایک پکچر بلڈ کرسکے تھے کہ کون سے فیکٹرز انہوں (رضاکاروں) نے اپنی ترجیحات ڈکلئیر کرنے کے حوالے سے سوچے تھے۔اب جب ایک سائینس دان آپ کی سوچ کو پوری طرح جان لے گا تو پھر انر ورلڈ آف مائنڈز آف برینز inner world of our minds ممکن ہے کہ مزید پرائیوٹ نہ رہ سکے کیونکہ سکینز ہماری خواہشات، ہماری کسی معاملہ پر مثبت منفی سوچوں، خیالات کو منکشف کر دے گا۔ اس حوالے سے سائنس جرنل کے ایڈیٹر ڈونلڈ کینیڈی (بوقت اشاعت) کا یقین ہے کہ دماغی سکینز بہت پرسنل ہیں اور انہیں بگ بزنسیز ، بڑے کاروباری افراد کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہئے ۔ کیونکہ یہ سکینرز کسی کے متعلق نشاندہی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں مینٹل کنڈیشنر سے متاثر ہو سکتا ہے، انکے مورال اور رویوں کے متعلق سراغ clues دے سکتے ہیں ۔ آخری باب چیپٹر 35، دنیا کو کیسے بچایا جائے How to save the world اس میں گرین ہاؤس گیس پرابلمز، کلائمیٹ ماحولیات اور ان حوالوں سے ہم کیا کرسکتے ہیں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ موضوع آج دنیا بھر میں زیر بحث ہے ۔ ورلڈ گرین ہاؤس گیسوں کے لیول بالخصوص فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے بڑھنے سے گرم ہورہا ہے ۔ اس کا ایک ریسپانس یہ ہے کہ ہم اپنے رہنے کے طرز کو بدلیں دوسرا پاتھ رستہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرنا ہے اس بابت آخر میں مصنف نے گلوبل سکیل پراجیکٹس کے لیے بین الااقوامی سطح پر سوشل، لیگل ، اتھیکل اور پولیٹکل اگریمنٹس کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ اور ماحولیات کی صفائی کو بہتر بنانے کے ایشو کو انہوں نے ترجیح بنیادوں پر سورٹ آوٹ sort out ، حل کرنے پر زور دیاہے ایسی کتب کا مطالعہ عام ذہن میں بھی یہ سوالات اٹھاتا ہے کہ قدرت نے انسان کو کس حد تک اختیار دیا ہے دماغ کو وسعت دی کہ انسان نئی نئی کائنات کی تلاش میں ہے اور نہ جانے آگے کتنا جائے گا؟ جبکہ یہ بھی ادراک ہوتا ہے کہ سائینسی کتب کی سٹڈی سے ایک شخص چاہے تو اپنی دماغی اور ذہنی صلاحیتوں کو تقویت بخش سکتا ہے۔ سائینس بتاتی ہے کہ ایک شخص کی بہتر پرفارمنس کا انحصار اس کی دماغی صحت پر ہوتا ہے۔ آپ کی ذہنی صحت آپ کی سوچنے ، سمجھنے محسوس کرنے اور ریسپانس ظاہر کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر بعض مشقوں کے ذریعے آپ اپنا ذہن بہتر بنا سکتے ہیں اس کو منفی سوچوں سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اس کیلئے صبح سویرے کھلی فضا میں پیدل میلوں کی واک کرنا ضروری ہے۔ پھر سائنس نے زندگی کو کتنا سہل اور آسان بنا دیا ہے ۔ نئی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال ، میڈیسنز کے انقلاب اور سائنسی انداز فکر نے آج کے انسان کا سوچنے اور رہنے کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔