برٹش مسلمان دانشور نے مسجد ٹرسٹیز کیخلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا

February 20, 2020

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ایک برٹش مسلمان دانشور عبدالرزاق نے لندن ہائی کورٹ میں ایکسیٹر مسجد کے ٹرسٹیز کے خلاف واٹس اپ پر ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا، مسجد کے ٹرسٹی محمد نبراس حسن، جو ایکسیٹر مسجد کے سربراہ ہیں، نے ہائی کورٹ کی کوئنز بینچ ڈویژن میں اعتراف کیا کہ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے، انسداد دہشت گردی اور داعش کے جہادیوں سے متعلق معاملات کے ماہر طلحہ عبدالرزاق کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کئے تھے۔ عبدالرزاق کے خلاف 2015 کے موسم گرما میں بھی ایکسیٹر مسجد کے معاملات میں شفافیت کے فقدان پر آواز اٹھانے پر ان کے خلاف انتہاپسندی، تشدد اور فرقہ واریت کے اسی طرح کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ انھوں نے جنوری 2016 میں لندن ہائی کورٹ میں کلیم دائر کیا تھا۔ محمد نبراس حسن نے عبدالرزاق پر ایک واٹس اپ گروپ میں، جس کے کم وبیش 100 ارکان ہیں، دہشت گردی اور اخوان المسلمین کا رکن ہونے کا بھی الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اخوان بالواسطہ یا بلا واسطہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ عبدالرزاق نے اپنے دعوے میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ نہ تو دہشت گرد ہیں اور نہ اخوان المسلمین کے رکن ہیں۔ انھوں نے نبراس حسن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیاتھا لیکن نبراس حسن نے اس سے انکار کر کے ان پر آوازے کسے۔ انھیں یقین تھا کہ عبدالرزاق مقدمہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ ہتک عزت سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا لیکن عبدالرزاق نے مدعی کی حیثیت سے ہائی کورٹ میں نبراس حسن کے وکلا کے سامنے خود اپنے مقدمے کی پیروی کی۔ ایکسیٹر سٹی کی مسلم ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرزاق کے خلاف توہین کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ مسجد کے ٹرسٹیز منتخب نہیں ہیں اور بورڈ کے سیکرٹری اور ان کی فیملی اور دوستوں نے 1976 سے مسجد کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔ اس کے بعد ان کی جانب سے ٹرسٹیز کے ایک انتہا پسند عالم کے ساتھ تعلقات افشا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد سے یہ مہم تیز ہوگئی تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عبدالرزاق کے والد بھی اس زمانے میں مسجد کے ٹرسٹی تھے اور وہ شیخ صادق الغریانی سے ڈھائی لاکھ پونڈ نقد وصول کرنے کے معاملے کی چھان بین کررہے تھے اور یہ سوال کر رہے تھے کہ مشتبہ ذرائع سے نقد رقم کیوں وصول کی گئی۔ چند مہینوں کے اندر ہی کوئی وارننگ دیئے بغیر عبدالرزاق کے والد کو بورڈ سے علیحدہ کردیا گیا، عدالت میں پیش کئے گئے ڈاکومنٹ میں بتایا گیا تھا کہ غریانی نے لیبیا میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کی کھلے عام مدد کی تھی اور انتہا پسندی کی حمایت کی تھی اور ہوم آفس نے ان کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ لوکل کمیونٹی کے تعاون سے عبدالرزاق نے ایک آن لائن کمپین شروع کی، جس میں اس حوالے سے پائی جانی تشویش اور مسجد کا انتظام چلانے میں جمہوریت اور احتساب کے فقدان پر ٹرسٹیر سے جواب طلب کیا تھا، ٹرسٹیز نے نہ صرف یہ کہ جواب دینے سے انکار کردیا بلکہ غریانی سے رقم وصول کرنے کا اعتراف بھی کرلیا۔ عبدالرزاق نے 2018میں عدالت میں دعویٰ دائر کیا اور اکتوبر 2019 میں عبدالرزاق یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ نبراس حسن نے انھیں غیر مبہم انداز میں دہشت گرد قرار دیا او ر وہ چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث دہشت گرد تصور کریں۔ ہائی کورٹ سے مقدمہ جیتنے کے بعد عبدالرزاق نے ہتک عزت کے معروف وکیل مارک لیوس سے رابطہ کیا جو ان کا مقدمہ مضبوط ہونے کی وجہ سے کسی فیس کے بغیر ان کی جانب سے تصفیہ کرانے پر تیار ہوگئے۔ بدھ کو رائل کورٹ آف جسٹس میں نبراس حسن نے جھوٹے الزامات کی اشاعت سے پہنچنے والی تکلیف اور نقصان پرعبدالرزاق سے غیر مشروط معافی طلب کی اور کافی ہرجانہ دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے طلحہ عبدالرزاق نے کہا کہ اس مقدمے سے یہ واضح پیغام سامنے آیا ہے کہ آپ خواہ کتنے ہی بااثر اور متمول کیوں نہ ہوں اور دوسرا خواہ کتنا ہی معمولی اور غریب کیوں نہ ہو، آپ کبھی کسی کی توہین نہ کریں۔ میری دعا ہے کہ مسلم برادری اب بھائی چارے کے جذبے کے تحت متحد ہوجائے گی اور ان مسائل کا دیرپا حل تلاش کرے گی۔