مستنصر حسین تارڑ... اُردو ادب میں ایک معتبر نام !

March 01, 2020

بچپن کی یادوں کے دھندلکوںمیں ایک چھپاکا سا ہوتاہے اور پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخی صبح کی نشریات کا آغاز کرنے والے ’’چاچا جی ‘‘ کا مسکراتا چہرہ سامنے آتاہے۔ تمکنت، انکساری اور وضع داری کے پیکر، مستنصر حسین تارڑ عر ف چاچا جی کی باتیں بھی پُرخیال اور کمال کی ہوتی تھیں۔

اس کے بعد ہمیں وہ الیکشن نشریات میںرات دیر تک بیٹھے دکھائی دیتےاور ہم ان کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوتے تھے۔ تارڑ صاحب اردو ادب کو کئی شاہکار ناول بھی مرحمت فرما چکے ہیں۔ وہ اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے ہیں لیکن سفرناموں کے بغیر ان کا تعارف مکمل نہیںہوتا۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ بلا شبہ وہ اردو ادب میںسب سے زیادہ پڑھے جانے والے مقبول ترین سفر نامہ نگار ہیں۔

ابتدائی سفر

مستنصر حسین تارڑ یکم مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رحمت خان تارڑ گجرات کے ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی شخصیت کا اثر تارڑ صاحب نے بہت لیا۔ ان کا بچپن لاہور میں بیٹن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میںگزرا جہاں ایک جہاندیدہ ادیب سعادت حسن منٹو ان کے پڑوس میں قیا م پذیر تھے۔

لاہور میںانہوںنے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹر ک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور ایف اے کرنے کے بعد ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلے گئے، ساتھ ہی یورپ کے دیگر ممالک کی سیاحت بھی شروع کردی۔ پانچ سال تک یورپ میں ڈگری حاصل کرنے کے دوران فنون لطیفہ کو نئے زاویے سے سمجھااور پھر وطن لوٹ آئے۔

ٹیلی ویژن کا سفر

فنون لطیفہ میں دلچسپی کے باعث وطن واپسی پر پیٹی وی کا رُخ کیا اور بطور اداکار ’’پرانی باتوں ‘‘ میںجلوہ گر ہوئے۔ اس کے بعد کئی ڈراموں اور بطور میزبان کئی پروگراموںکو اپنی شخصیت سے سحر انگیز کیا۔1974ء میں’’آدھی رات کا سورج ‘‘ نامی ڈرامے سے بطور مصنف ڈامہ نگاری کا آغاز کیا اور کئی شاہکار ڈرامے ہموطنوں کو پیش کیے، جن میںشہیر، ہزاروں راستے، پرندے، سورج کے ساتھ ساتھ ، ایک حقیقت ایک افسانہ ، کیلاش اور فریب پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کو معتبر بناتے ہیں۔

ادب کا سفر

آجکل وہ معروف ہفتہ وار میگزین ’’اخبار ِ جہاں ‘‘ میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا، اس کے ایڈیشنز کی نصف سینچری ہوچکی ہے۔ ان کے کریڈٹ پر بہائو، راکھ، خس وخاشاک زمانے اور اے غزالِ شب جیسے شہر ہ آفاق ناول بھی ہیں۔ ان میںسے ’’راکھ ‘‘ سقوطِ ڈھاکہ او ر اس کے بعد کراچی میں رونما ہونےو الے حالات کے موضوع پر تھا، 1999ء میںاسے بہترین ناول کا ’وزیر اعظم ادبی ایوارڈ‘ دیا گیا۔ ’’بہائو‘‘ میں تارڑ صاحب کا سندھی، سنسکرت، براہوی اور سرائیکی زبان پر مشمتل اسلوب کا ایک الگ ہی رنگ نظر آتاہے۔

سفرناموں کا سفر

زمانہ طالب علمی میںیورپ کی خاک چھاننے کے بعد1957ء میں مستنصر حسین تارڑ کا شوقِ آوارگی انہیں روس میںہونے والے یوتھ فیسٹیول میںلے گیا،جہاںکے سفر کی روداد 1959ء میںشائع ہوئی۔ اس سفر کی روداد پرتارڑ صاحب نے ایک ناولٹ ’’فاختہ ‘‘بھی لکھا،یہیںسے تارڑ صاحب کے قلمی سفر کا آغاز ہوا۔1971ءمیں ان کا سفرنامہ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ شائع ہوا۔ بقول تارڑ صاحب سفرنامہ ایک محدود کینوس ہے، جس کے لیے ایک خاص سفر کی پیروی کرنا پڑتی ہے، اکثر و بیشتر مقامات ایک جیسے ہوتے ہیں، لہٰذا سفرنامے کو دلچسپ بنانے کیلئے اس میں فکشن شامل کرنا ضرور ی ہوجاتاہے۔ فکشن کے حوالے سے وہ کہتے ہیںکہ عام زندگی میںجب بھی کوئی شخص ایک جگہ دیکھتاہے اور پھر اسے کسی دوسرے کےسامنے بیان کرتاہے تو اس میں فکشن آہی جاتاہے اور ویسے بھی وہ کوئی رپورٹر یا منشی تو ہیں نہیں کہ جگہوں کے بارے میںسیدھی سادی معلومات لکھ دیں۔

’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ کے بعد مستنصرحسین تارڑ نے جو سفرنامے تحریر کیے ان میں ’’ اندلس میں اجنبی، خانہ بدوش، نانگا پربت، نیپال نگری، سفر شمال کے، سنو لیک، کالاش، پُتلی پیکنگ کی، شمشال بے مثال، سنہری الّو کا شہر، کیلاش داستان، ہنزہ داستان،خانہ بدوش، کے ٹو کہانی، ماسکو کی سفید راتیں، یاک سرائے، نیویارک کے سو رنگ، ہیلو ہالینڈ، الاسکا ہائی وے، لاہور سے یار قند، امریکا کے سو رنگ، آسٹریلیا آوارگی، راکا پوشی نگراو ر سندھ بہتارہا‘‘ شامل ہیں۔

ان سفرناموں میں انہوںنے اپنی آوارہ گردی کو بےمثال جملوں، ادب نواز پیرائےاور فکشن کی چاشنی سے لبریز کیا۔ آپ کو یہ سفرنامے پڑھتے ہوئے احساس ہوگا کہ آپ تارڑ صاحب کے ساتھ محوِ سفر ہیں۔ اسی طرح’’ غارِ حرا میں ایک رات ‘‘ پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ آپ بذات خود وہاںموجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آپ ان کی تحریر کی شگفتگی، مزاح اور سلیس زبان سے لطف اندوز ہوںگے اور ان کے بیان کردہ مقامات و مناظر سے بھرپور واقفیت حاصل کریں گے۔ ـ