افغان امن: خطے کی معیشت مستحکم ہونے کے امکانات

March 05, 2020

2018کے انتخابات کے نتیجہ میں وفاق اور صوبوں میں بننے والی حکومتوں کا اقتدار اٹھارہویں ماہ میں داخل ہو گیا ہے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین نے عوام کی خوشحالی کے لئے جس تبدیلی کا عندیہ دیا تھا وہ تو نہ آسکی تاہم الیکشن سے قبل پریڈ گرائونڈ میں منعقدہ جلسۂ عام میں جن سیاستدانوں کو جیل بھیجنے کی خواہش ظاہر کی تھی ان میں سے نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، آصف علی زرداری، فریال تالپور جیلوں کے مکین رہنے کے بعد ضمانتوں پر آگئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق، سید خورشید شاہ اور حمزہ شہباز نیب کی جکڑ میں موجود ہیں۔ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی وزیراعظم کئی ایسے لیڈروں کو ’’پس دیوار زنداں‘‘ بھیجنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جنہیں وہ قومی خزانہ لوٹنے کی پاداش میں نیب کا ایندھن بنانے کے خواہاں تھے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپنے ڈیڑھ سالہ اقتدار میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ’’تبدیلی‘‘ کے لئے کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکی جس کی وجہ سے اب تک ہونے والے تمام سروے حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

مقبولیت میں کمی کے باوجود عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اپوزیشن عملاً ابھی تک منتشر اور ڈرائنگ روم کی سیاست پر عمل پیرا ہے اور یوں بھی حکومت احتجاج کے نتیجے میں جانے والی نہیں۔ تبدیلی صرف پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گی صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں اب تو پاکستان کے عوام بھی برملا کہتے ہیں کہ ’’فیصلہ سازوں اور پالیسی سازوں کی مرضی کے بغیر سیاسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں‘‘ اپوزیشن خصوصاً پاکستان مسلم لیگ ن ’’قومی الیکشن‘‘ کو مسائل کا حل تو قرار دے رہی ہے مگر عملاً ابھی وہ الیکشن میں جانے کے لئے تیار نہیں، دعویٰ ہے کہ نواز شریف ، شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے خلاف نیب مقدمات کا تسلسل برقرار رہے گا اور آئندہ الیکشن تک نئی صف بندی کے لئے پتے لگائے جا رہے ہیں ن لیگ والے خوش فہمی کا شکار ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی سے انہیں سیاسی فائدہ پہنچے گا مگر ’’سیاسی گرو‘‘ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو ’’بویا ہوا کاٹنا پڑے گا‘‘ عدالتوں سے ملنے والی سزائیں ختم ہونا ایک مشکل کام ہے جس کے لئے طویل عرصے تک عدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اعلیٰ عدالت سے ضمانت تو مل گئی مگر نیب ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی عندیہ دے چکا ہے ریفرنس کا نتیجہ کیا نکلے گا انہیں اس سے غرض نہیں مگر سابق وزیراعظم ریفرنس کی وجہ سے خاصے مصروف رہیں گے احسن اقبال بھی ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر خوش ہیں مگر انہیں بھی عدالتوں میں مصروف رکھنے کی تیاریاں جاری ہیں کیونکہ پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد سابق حکمرانوں کی گرفتاریوں پر خوش و اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ چلو عمران خان کچھ تو کر رہے ہیں۔ آٹا چینی مہنگی ہے تو کیا ہوا، گیس پیٹرول تو سستا کردیا گیا ہے بجلی بھی سستی کرنے کا وعدہ کیا ہے ،ڈیڑھ سال میں کچھ نہیں کر سکے تو آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے اور شاید ’’تبدیلی ‘‘ میں کامیاب ہو ہی جائیں۔

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے نواز شریف کی لندن روانگی کو فکس میچ قرار دے کر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگلے ہفتے نواز شریف کی واپسی کے لئے برطانوی حکومت کو خط لکھیں گے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے لئے بعض میڈیا ہائوسز کے ساتھ مل کر یہ تاثر دیا گیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی سازش کے تمام کرداروں کو بے نقاب کریں گے، نواز شریف لندن میں علاج نہیں کروا رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی دلیر وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد نے معاون خصوصی اطلاعات کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ جن رپورٹس کی بنیاد پر نواز شریف کو علاج کے لئے لندن بھیجا گیا ہے درست تھیں میڈیکل رپورٹس پنجاب حکومت کی نگرانی میں بنیں۔

رپورٹس بنانے والے ڈاکٹروں پر مکمل اعتماد ہے، نواز شریف کب واپس آتے ہیں یہ تو حکومت کو بھی نہیں معلوم مگر لوگ کھلے عام کہتے ہیں کہ نواز شریف جیل جانے کے لئے تو وطن واپس نہیں آئیں گے۔ ان کا علاج اسی رفتار سے جاری رہے گا جبکہ احسن اقبال کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف بڑے خود دار سیاست دان ہیں حکمرانوں نے ان کی صحت کو ایشو بنایا تو وہ علاج مکملکرائے بغیر ہی وطن واپسی کیلئے چل پڑیں گے تو حکومت کے ہاتھ پائوں پھول جائیں گے۔ واضح رہے کہ حکومت پنجاب کے میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی لندن سے آنے والی میڈیکل رپورٹس کو ناکافی قرار دیا تھا جن پرحکومت پنجاب نے25جنوری کو ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی ۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کی واپسی کے لئے طالبان سے امریکہ کے معاہدے پر صرف ایک دن بعد ہی تحفظات سامنے آگئے اور افغان صدر اشرف غنی جنگ بندی کی اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے انہوں نے قیدیوں کی رہائی میں امریکی اتھارٹی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ افغان قیدیوں کی رہائی پیشگی شرط نہیں اس پر انٹرا افغان مذاکرات میں غور ہو سکتا ہے ایران نے بھی اس معاہدے کو پذیرائی نہیں بخشی ایرانی وزیر خارجہ کا موقف ہے کہ امریکہ اس معاہدے پر دستخط کا قانونی حق نہیں رکھتا۔ افغان صدر کے منحرف ہونے پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور طالبان معاہدے سے افغان قیادت کا امتحان شروع ہو گیا ہے امن عمل کو نقصان پہنچانے والوں پر نظر رکھنا ہوگی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن عمل سے خطے میں معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے امن کا عمل 14 ماہ میں مکمل ہونا ہے ناکامی کی صورت میں پاکستان کو ایک بار پھر افغان مہاجرین کو برداشت کرنا پڑے گا۔

افغان صدر اشرف غنی کیا اتنی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ امریکی نمائندے زلمے خلیل کے کئے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد میں رکاوٹ بنیں! اسے امریکہ خود ہی استعمال کر سکتا ہے ۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے تاریخی امن معاہدے کی اہم شرط سے پیچھے ہٹنا اور اسے اپنا حق خود ارادیت قرار دینا تاریخی معاہدے کو سبو تاژ کرنے کے مترادف ہے۔ 19 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے میں افغانستان کی سیاسی و عسکری قیادت کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے دس مارچ تک واضح ہو جائے گا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خبردار کر چکے ہیں کہ کچھ برا ہوا تو اتنی بڑی فوج لے کر واپس آئیں گے جو کسی نے نہیں دیکھی ہو گی اور معاہدے کا پاس نہ کرنے والوں کو مزہ چکھائیں گے۔

افغان صدر کی طرف سے بننے والی مذاکراتی ٹیم کو امن عمل کو خلوص سے آگے بڑھانا ہو گا لبرل ازم کی داعی افغان خواتین نے بھی طالبان امریکہ معاہدے کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا بھارت بھی امن عمل کے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں پیش پیش ہو گا لہٰذا امریکہ کو معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں بھی سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینٹ میں قائد حزب اختلاف سنیٹر راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ سیاست عمران خان کے بس کی بات نہیں سیاسی مخالفین کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں مزاج بچگانہ، طبیعت غیر سنجیدہ، وزیر اعظم بننے کے باوجود باوقار طریقے سے سیاست نہیں کر پا رہے حکومت کے نواز شریف کو واپس لانے کے بارے میں راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ ہر معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے پہلے علاج کی ضرورت محسوس کی اب فوری واپسی کے خواہاں ہیں۔