افغان امن معاہدے کا مستقبل

March 11, 2020

افغانستان میں امن کی اُمیدیں پیدا ہونے کے بعد ایک بار پھر نئے تعطل نے سر اٹھایا ہے۔ گوکہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ اگر طالبان نے پاسداری کی تو امریکا اور نیٹو افواج چودہ ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی پھر بھی طالبان نے افغان افواج پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔

آٹھ مارچ کو افغان طالبان نے کہاکہ وہ معاہدے کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں اور اسے توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ اعلان طالبان کے قطر میں دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹ میں کیا۔ سہیل شاہین طالبان کے سرکردہ رہنما ہیں اور طالبان کے دورِ حکومت میں وہ پاکستان میں نائب سفیر رہ چکے ہیں۔ سہیل شاہین پشتون ہیں ان کا تعلق صوبے پکتیا سے ہے۔ انہوں نے پاکستان میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی تھی اس لئے وہ پاکستان کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔2001ء کے واقعات کے بعد وہ حزب اسلامی کے زیرانتظام پشاور میں شمشاتو مہاجر کیمپ اور حزب ِ اسلامی کا اخبار بھی نکالتے رہے۔

یاد رہے کہ حزب ِ اسلامی کی بنیاد 1975ء میں گل بدین حکمت یار نے رکھی تھی اور اس کا بنیادی کام افغانستان میں ترقی پسند اور لبرل خیالات کو روکنا تھا اس میں زیادہ تر پشتون شامل تھے اور یہ اخوان المسلمین اور ابولاعلی ٰ مودودی کی جماعت اسلامی کے نظریات پر کاربند رہی ہے۔ حکمت یار جو اس وقت ستر سال کے ہیں، 1993-94میں ایک سال کے لئے افغانستان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ،اُس وقت برہان الدین ربانی صدر ِ افغانستان تھے۔

حزب ِ اسلامی سے 1979ء میں ایک گروپ مولوی یونس خالص کی قیادت میں ٹوٹ کر حزب ِ اسلامی خالص گروپ بنا چکا تھا جب کہ برہان الدین ربانی جو خود تاجک تھے، نجیب اللہ کے بعد 1992ء میں صدر ِ افغانستان بنے تھے اور 1996ء میں کابل پر طالبان کے قبضے تک صدر رہے تھے گو کہ انہیں بین الاقوامی طور پر 2001ء تک صدر تسلیم کیا جاتا رہا ،جب کہ صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات انہیں 1996ء کے بعد صدر تسلیم نہیں کرتے تھے اور طالبان کی حکومت کو قانونی حکمران مانتے تھے۔

افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت نے پچھلے چند سال میں قیام ِ امن کی جو کوششیں کیں اُن میں ایک یہ تھی کہ 2016میں حزب ِ اسلامی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس کے تحت حزب ِ اسلامی کو تشدد ترک کر کے افغان افواج میں شامل ہونا اور انہیں پاکستان کے کیمپوں سے نکل کر واپس افغانستان جا کر آباد ہونا تھا۔

اس معاہدے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ گل بدین حکمت یار بیس سال بعد واپس کابل آجائیں گے۔ اس معاہدے کی روشنی میں2017ء میں افغان درخواست پر اقوام ِ متحدہ نے حزب ِ اسلامی پر عائد پابندیاں اٹھالی تھیں اور پھر 2018ء میں سیکڑوں قیدی جن کا تعلق حزب ِ اسلامی سے تھا، افغان حکومت نے رہا کر دیئے تھے ۔مئی2017ء میں حکمت یار کابل واپس آگئے تھے۔ بیس برس پہلے انہیں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھاگنا پڑا تھا۔

اس معاہدے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ افغان طالبان بھی اسی مثال پر عمل کرتے ہوئے تشدد سے کنارا کشی اختیار کریں گے اور افغانستان کے آئین کو تسلیم کرلیں گے،مگر افسوس ایک طویل عرصے کے مذاکرات کے بعد جو معاہدہ ہوا وہ چند دن بھی نہ چل سکا۔ گوکہ سہیل شاہین اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ معاہدے پر عملدرآمد تسلی بخش طور پر آگے بڑھ رہا ہے لیکن امریکی حکام کے دعوے مختلف ہیں۔

اس دوران امریکی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ طالبان امریکا سے کئے گئے امن معاہدے کا پاس نہیں رکھنا چاہتے اور جلد ہی یہ معاہدہ بالکل ختم ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی امریکی صدر ٹرمپ نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان افغان حکومت کو شکست دے کر اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے بھی کہاکہ افغانستان کو اپنا خیال خود رکھنا ہو گا۔ اسی طرح کی باتیں وہ روس کے مقابلے میں یورپی ممالک کے بارے میں بھی کر چکے ہیں۔

1989ء میں سوویت افواج کے انخلاء کے بعد نجیب اللہ کی حکومت صرف تین سال چل سکی تھی اور 1992ء میں مجاہدین کے رہنما برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر بن گئے تھے اور امریکا صاحب بہادر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر افغانستان سے یہ کہہ کر نکلے تھے کہ اب ممالک کو اپنا خیال خود رکھنا ہو گا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔اب اگر پھر امریکا مکمل طور پر نکلے گا تو اس کا نتیجہ کابل پر طالبان کے قبضے کی شکل میں نکل سکتا ہے، جس کا نقصان نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کو ہو گا، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

پچھلے چند ماہ میں جہاں ایک طرف طالبان نے افغان حکومت کے اہل کاروں پر بے تحاشا حملے کئے وہیں امریکا نے بھی طالبان کے ٹھکانوں کو بری طرح نشانہ بنایا ہے اور خود صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے ہزاروں کی تعداد میں جنگجوئوں کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ٹرمپ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب افغانستان کے لوگوں کو یہ کام خود کرنا ہے یعنی یہ لوگ خود ہی آپس میں لڑ مریں اور خود امریکا جس نے تقریباً بیس سال پہلے افغانستان پر حملہ اور قبضہ کیا، اب ہنسی خوشی باہر نکل جانا چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ 29فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں دوحہ میں دونوں فریقوں نے وعدہ کیا تھا کہ قیدی رہا کئے جائیں گے، غیر ملکی فوجی نکلیں گے اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان مذاکرات کا آغاز کریں گے، جن میں عبوری حکومت کے قیام پر گفت و شنید بھی شامل ہوگی۔ جس کے بعد چودہ ماہ میں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی جن کی تعداد اس وقت بارہ ہزار ہے۔

گزشتہ دو عشروں میں عالمی اتحادی افواج کے ساتھ تین ہزار فوجی مارے جاچکے ہیں، جب کہ افغان اموات کا اندازہ ایک لاکھ تک لگایا جاتا ہے۔ اب معاہدے کے بعد سب سے زیادہ خوف کا شکار افغان خواتین ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ ایک بار پھر طالبان اقتدار میں آکر خواتین کو گھروں اور برقعوں میں بند کرنے کے اقدام کریں گے، جس سے خواتین کے حقوق کی پامالی ہو گی۔ یہ بات ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور میں افغانستان کو سیکڑوں سال پیچھے لے جانے کی کوشش کی، جس کا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑا اس دور کی واپسی ایک المیہ ہو گا۔ ایک اور اہم بات افغان حکومت کے اندرونی اختلافات ہیں۔

جن کے باعث صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ ایک طرف عبداللہ عبداللہ نے صدارتی انتخاب کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ،دوسری طرف طالبان بھی اشرف غنی کو افغانستان کا قانونی صدر نہیں تسلیم کرتے۔ اس معاملے میں ایک اور کردار امراللہ صالح کا ہے جو فروری 2020میں افغانستان کے نئے نائب صدر بنائے گئے ہیں اس سے قبل وہ افغانستان کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں اور افغان جاسوس ادارے کے سربراہ بھی، امر اللہ صالح تاجک ہیں اور احمد شاہ مسعود کے ساتھیوں میں شامل تھے۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ بھی خود کو منتخب صدر بنانے کا اعلان کر چکے ہیں گوکہ انہیں امریکی قابض افواج کی حمایت حاصل معلوم نہیں ہوئی۔ اب دونوں صدارت کے دعوے داروں نے اعلان کر دیا کہ وہ صدر کے حلف اٹھائیں گے، اس لئے صورت حال دلچسپ اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ ممکن ہے امریکی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کو فارغ کر کے نائب صدر امراللہ صالح کو صدر بنا دے ،مگر کیا یہ سب افغان عوام اور طالبان کو قابل قبول ہو گا۔

اس معاملے میں پاکستان نے طالبان سے ہمدردی کا برملا اظہار کیا ہے اور اس ہمدردی کی ہم نے بھاری قیمت چکانی ہے۔ طالبان ایک قرون ِ وسطیٰ کی شدت پسند ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں اور اس کا مظاہرہ وہ بار بار کر کے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ اس صورتحال میں طالبان کا افغانستان پر قبضہ سب کے لئے نقصان دہ ہوگا۔