پختونخواہ کے سرکاری و نجی ہسپتالوں کا نظام بہتر کرنے کا مطالبہ

March 12, 2020

تحریک انصاف حکومت کا دعوی ہے کہ شہریوں کی زندگیوں میں تبدیلی کے لئے صحت اور تعلیم کے شعبے ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں اور عمران خان کی توجہ بھی عوام کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی پر مرکوز ہے جس میں صحت انصاف کارڈ کا اجراء انقلابی قدم قرار دیا جاتا ہے جس سے غریب اورنادار افراد کو سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں صحت کی بہتریں طبی سہولیات مفت میسر آرہی ہیں۔مہنگائی اور غربت کے باعث سرکاری اور نجی ہسپتالوں میںعلاج عوام کے لئے ایک خواب بن چکا ہے ادویات کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں۔

ملک میں روزگا ر اور کاروبار کا بھی بر احال ہے ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی پرویز خٹک حکومت نے صحت کارڈ کا صوبے میں اجراء کیا تھا جس کو چاراضلاع سے پورے صوبے تک توسیع دی گئی جبکہ اب انضمام شدہ علاقے بھی اس سکیم میں شامل ہوچکے ہیں جن سے قبائل بھی مستفید ہورہے ہیں ۔عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد صحت کارڈ کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھانے کا احسن فیصلہ کیا جس کی ستائش کی جارہی ہے لیکن بعض ہسپتالوں میں بلوں کی عدم اوربروقت ادائیگی کے باعث مریضوں کو بے جا تنگ کیا جارہا ہے جس کا حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔

تحریک انصاف کا دعوی ہے صحت انصاف کارڈ کی بدولت انھیں پورے ملک میں مینڈیٹ ملالیکن صوبے میں صحت سہولیات کے ساتھ ساتھ عوام کو موذی امراض سے بچانے کے لئے بھی حکومتوں کو اقدامات اٹھانے چاہیں تاکہ بیماریوں کا قبل ازوقت تدارک کیا جاسکے ۔خیبرپختونخوا میں معیاری صحت سہولیات کے لئے ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹر وسٹاف کے ساتھ ساتھ جدید آلات اور مشینیں بھی نصب کی جارہی ہیںلیکن تحریک انصاف کی حکومت نے ایک معاملے کی جانب توجہ نہیں دی جس کے باعث صوبے میں متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔مریضوں کی تعداد بڑھنے کے باعث ہسپتالوں میں رش بھی بڑھ رہا ہے جس کے لئے فوری اقداما ت ناگزیز ہیں۔صوبے میں ایک مافیا سرگرم ہے جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے ہسپتالوں کا خطرناک اور زہریلا فضلہ فروخت کیا جارہا ہے جس سے مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں جبکہ بعض افراد ان کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر فر وخت کررہے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اور نجی ہسپتالوں کےزہریلے اورمتعدی طبی فضلےنےخیبرپختونخواکے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیاہے۔

ہسپتالوں کے جراثیم آلودہ طبی فضلہ کو غیر معیاری اور ناقص انسینریٹرز INCINERATORS کے ذریعے تلف اور ٹھکانےلگانے سے لاکھوں افراد وبائی امراض کا شکار ہو نے لگے ہیں ۔ صوبے کے ہسپتالوں میں موجود انسینریٹرزغیر معیاری اور خراب ہیں یا جزوی طورپرکام کررہے ہیں۔ کسی بھی ہسپتال نےماحولیاتی تحفظ ایجنسی خیبرپختونخوا سےنصب شدہ انسینریٹرز مشینوں کے معیار کی منظوری لی ہے اورنہ ہی کسی کے پاس ای پی اے کا کوئی این او سی ہے ۔ ای پی اے نے اس امرکی تصدیق کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے ہسپتال فضلے کو ٹھکانے لگانے میں قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیںجس کے باعث موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔دنیا بھر میں وبائی طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے سے قبل اس کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے تاکہ اس سے لوگ متاثر نہ ہوں ۔

خیبر پختونخوا ماحولیاتی تحفظ ایجنسی نے 392 ہسپتالوں کا دورہ کیا اور تمام 392 ہسپتالوں کووبائی طبی فضلے کو غیرمعیاری انداز میں تلف کرنے پر نوٹس جاری کئےگئے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لئے قائم ٹریبونل میں 276 کے خلاف کارروائی کا اغاز کیا گیا جسمیں سے72 مقدمات کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے جبکہ 204 ہسپتالوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اب تک 47 لاکھ 95 ہزار روپے جرمانہ بھی ہو چکا ہے۔صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نےبھی اس امر کی تصدیق کی کہ 90 کے قریب ہسپتالوں میں انسینریٹرز نصب ہیں لیکن کوئی بھی ای پی اے سے منظورشدہ نہیں تاہم اس کےبرعکس بعض ایم ٹی ائی اور نجی ہسپتالوں نے اپنا زہریلا اور متعدی طبی فضلا ٹھکانے لگانے کے لئے نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کررکھے ہیں جہاں اس کو معیاری انداز میں تلف کیا جاتا ہے ۔صوبائی وزیر نے اعتراف کیا کہ حکومت صحت کے شعبے میں کافی بہتری لائی ہے لیکن حکومت وبائی طبی فضلہ کو تلف کرنے کے عمل سے ہرگز مطمین نہیں ہے۔

اس وقت صوبے میں زیادہ تر انسینریٹرز خراب ہیں یا جزوی طورپر کام کررہے ہیں جس کے باعث طبی فضلہ کو عالمی معیار کے مطابق تلف نہیں کیا جارہا ۔ سرکاری و نجی ہسپتالوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ایک جانب حکومت شہریوں کو صحت انصاف کارڈز اور ہسپتالوں میں جدید سہولیات کے لئے متحرک ہے دوسری جانب معمولی غفلت کے باعث شہری مختلف وبائی امراض کا شکارہورہے ہیں۔ہسپتالوں کا طبی فضلہ مناسب انداز سے تلف نہ کرنے سے ہیپاٹائٹس ٗاسہال، ایچ آئی وی ایڈز اور سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں لہذا حکومت اور نجی اداروں کو متعدی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے جدید مشینیں لگانی چاہیں۔ دوسری جانب بعض ہسپتالوں سے فضلہ چوری کرکے فروخت کرنے کا دھندا بھی عروج پر ہے ۔

سرکاری ہسپتالوں کے عملے نے طبی فضلے کو کمائی کا ذریعے بھی بنا رکھا ہے ۔بعض ہسپتالوںنے قرب وجوار کے چھوٹے ہسپتالوں سے فضلہ ٹھکانے لگانے کےمعاہدہ کررکھے ہیں جبکہ ان کے پاس فضلہ ٹھکانے لگانے کا بندوبست ہی نہیں ۔سرکاری ہسپتالوں نے مقامی طو پر تیار کردہ انسینریٹرزلگا رکھے ہیں جو عالمی معیار کے مطابق فضلے کو تلف نہیں کرتے ۔بعض ہسپتالوںمیں انسینریٹرز خراب ہیںاورنہ ہی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی نےکسی ہسپتال کو این او سی جاری کیا ہے ۔