میرا پیارا کراچی

March 12, 2020

یسریٰ جبین

اس شہر میں ملنے والا انڈے والا برگر واقعی آئیڈیل ہوتا ہے

اس دفعہ جب میں کراچی گئی تو پوری کوشش کی کہ کراچی کی چھوٹی سی چھوٹی بات بھی یاد کر لوں۔اس مرتبہ کراچی کا سفر کافی یادگار رہا کیونکہ میں نے اسلام آباد سے کراچی تک کا سفر بس میں طے کیا۔یہ میرا پہلا بس کا سفر تھا۔ رات کے وقت سردی میں ڈائیوو کے تقریباً ہر اڈے پر میں اترتی اور ٹہلتی۔ آس پاس کی جگہیں بھی دیکھتی۔ بس کے یہ اڈے کسی ہندی فلم کے ولن کے تہہ خانے سے کم نہ تھے۔ وہی پیلے بلب کی روشنی۔ پہیے، گریس اور دیگر لوہے کا سامان۔ مسلسل بارش، ٹپکتی چھت اور گیلی زمین۔ بس ایک ولن اور اس کے غنڈوں کی کمی رہ گئی تھی۔

جب صبح ہوئی تو ہم سکھر پہنچے۔ میں سکھر کبھی نہیں گئی تھی لہٰذا سکھر کے ڈائیوو کے اڈے پر اتر کر ہی خوش ہو گئی اور صبح کی چائے پی۔ ٹک شاپ سے کھجور کا حلوہ بھی لیا، جو دکان میں کھڑے لڑکے کے مطابق وہاں کی سوغات ہے۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ تھا۔ بہرحال میں گھر والوں کے لیے وہ حلوہ لے گئی اور اللہ اللہ کر کے یہ 18 گھنٹوں کا سفر اپنے اختتام پہ پہنچا۔ میں کراچی پہنچ گئی۔کراچی پہنچ کر میرا یہاں کی مشہور ’سائبیریا کی ہواؤں‘ نے استقبال کیا۔ ٹھنڈی ہوا، کلاسک دھول مٹی، ٹریفک کا شور اور دھواں۔ سہراب گوٹھ پر واقع ڈائیوو کے اڈے پر جب اتری تو جسم ایسا اکڑا ہوا تھا ۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے اپنے ’اردو سپیکنگ گھرانے کی شناخت کھانا‘ کھایا: شامی کباب اور سبزی کے ساتھ دہی اور تازہ روٹی۔

محکمہ موسمیات کچھ بھی کہہ لے لیکن ہم کراچی والوں کو ابھی بھی یقین ہے کہ اس دفعہ کراچی میں بڑی کڑاکے دار سردی پڑی ہے۔ اتنی ٹھنڈ ہم نے کبھی نہیں محسوس کی۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو نومبر کی خنکی میں سویٹر پہن کر باہر نکلتے ہیں، لیکن اس دفعہ تو حد ہی ہو گئی۔ درجہ حرارت نو ڈگری تک جا گرا۔ کراچی میں سردی کسی تہوار سے کم نہیں۔ لوگ اس قدر پر جوش ہو کر اس سردی کو انجوائے کرتے ہیں کہ کوئی انتہا نہیں۔ رات کو ڈھابوں پہ الگ قسم کا رش ہوتا ہے۔ کوئلے پر تندوری چائے کا اہتمام کرتے ہیں۔سردیوں میں مچھلی کی بھی خوب ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کیماڑی فش مارکیٹ جائیں اور وہاں نت نئی مچھلیاں اور ان کے کڑھائی سالن کھائیں۔

کراچی کی سردی کی بات کی جائے اور شادیوں کا ذکر نہ ہو، یہ ہو سکتا ہے بھلا؟ دسمبر سے جنوری تک روزانہ کے حساب سے ایک شادی کا بلاوا ہوتا ہے۔ کراچی میں سردیوں کی ہی شادی کا مزا ہے۔کھانے میں سب فرائڈ پران اور مچھلی ڈھونڈتے ہیں۔ ایسپریسو کافی پر لمبی لائن ہوتی ہے۔ کرنچ والی قلفی اور آئس کریم کا اہتمام اور ساتھ میں ڈھیر سارے کھوے والا تازہ تازہ گاجر کا حلوہ۔ کہیں کہیں خوب شیرے والے گلاب جامن بھی رکھے جاتے ہیں۔

اتنے عرصے بعد کراچی گئی تھی تو انڈے والے برگر کی الگ سے تڑپ تھی۔ ناظم آباد میں واقع ایک بن کباب والا ہے جو 60 روپے میں بن کباب بیچتا ہے۔ کراچی میں ملنے والا انڈے والا برگر واقعی آئیڈیل ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ منہ میں زبردست طریقے سے محسوس ہوتا ہے۔ اتنی اچھی فلنگ کے ساتھ برگر صرف ساٹھ روپے کا ملا تو میرے تو وارے نیارے ہو گئے۔

کراچی میں ہمارے قائد کا مزار ہے لیکن اپنا شہر کون گھومتا ہے؟ میں پہلی اور آخری دفعہ قائد اعظم کے مزار 12 سال کی عمر میں گئی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک وہاں قدم نہیں رکھا، لیکن اس دفعہ جب میں وہاں سے گزری تو قائد اعظم کے مزار کا رات کے وقت حسین منظر دیکھنے کو ملا۔ میں نے اس کی ڈھیر ساری تصاویر کھینچیں اور اوبر والے بھائی صاحب کا ڈھیروں شکریہ کیا۔ ان کی اس مہربانی نے میرا دل موم کر دیا۔ بس یہی کراچی والوں کی سخاوت ہے۔

کراچی جائیں اور ڈھابے پر چائے نہ پیئیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا۔ میں نے دوستوں کے ساتھ ہی گلستان جوہر میں ایک اور پٹھان کے ہوٹل سے صبح چھ بجے چائے پی۔ کراچی میں ڈھابوں کا کلچر کچھ اس طرح ہے کہ اب وہاں کوئی آپ کو گھور کر نہیں دیکھتا۔ بس ایک چھوٹا آتا ہے، چائے دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ آس پاس کہ کم از کم 50 فیصد مرد حضرات بھی اپنے کام سے کام رکھ کر اپنی باتوں میں مگن رہتے ہیں۔ اب ڈھابوں پر خواتین کو پہلے کے مقابلے گھور کر اتنا ہراساں نہیں کیا جاتا جتنا پہلے ہوتا تھا۔

میں کراچی کو اتنا یاد کرتی ہوں کہ بس ہر معمولی سے معمولی لمحے کی بھی تصویر لے لی۔ میرے لیے ایسے لمحے بہت انمول ہیں، جیسے کہ میرے ماموں کا امرود خریدنا۔ سوک سینٹر کے پاس کاریگر کا نمبر پلیٹ بنانا۔ راشد منہاس روڈ پر سیلن والے فلیٹ اور اس پر چھایا ہوا کراچی کا نیلا آسمان۔ زینب مارکیٹ میں کپڑوں کے سٹال۔ ناظم آباد کی وہ پرسکون گلی، جہاں کے درختوں کے سائے میں سے گزرو تو لگے جیسے میامی پہنچ گئے ہیں۔ خیر چار دنوں کی گہما گہمی میں بس اتنا ہی کر پائی ورنہ کراچی سے میرا پیار ان چند تصویروں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔