سائنسی خبرنامہ !

March 14, 2020

فیضان خان

کشش ثقل ایک یونیورسل قوت

پیارے بچو!عرصہ دراز سے انسان کو یہ بات معلوم تھی کہ بلندی سے گرنے والی چیزیں زمین کی جانب کھنچی چلی آتی ہیں، تاہم اسے یہ علم نہیں تھا کہ آسمان میں معلق چاند زمین پر کیوں نہیں گرتا اور چاند ستاروں کی طرح ہم آسمان پر کیوں نہیں پہنچ جاتے۔

1666 میں برطانوی سائنس دان آئزک نیوٹن نے بتایا کہ ان سب مظاہر کی وجہ کشش ثقل ہے، جس کا تعلق جسم کی کمیت سے ہوتا ہے۔ جو جسم جتنا بڑا ہو گا اس میں یہ کشش بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ بڑے اجسام میں یہ قوت باآسانی محسوس کی جا سکتی ہے ،جبکہ چھوٹے اجسام میں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

جیسے جیسے آپ بلندی کی جانب بڑھتے ہیںکششِ ثقل جوں جوں کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر کسی طرح ایک سادہ پنڈولم کو چارہزار فٹ کی بلندی پر لے جا کر ساکت رکھا جائے تو اس میں متحرک سادہ موسیقائی حرکت میں 16 سیکنڈ کا فرق آ سکتا ہے۔ ناسا کبھی بھی خلا میں پرندوں کو نہ لے جا سکا کیوں کہ پرندوں کو اڑنے کے لئے بھی کششِ ثقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک نیوٹران ستارے کی کشش روشنی کو موڑ کر گھما دیتی ہے ، اس کی کشش شدید حد تک زیادہ ہوتی ہے۔

خلا میں زمین اور سورج کے راستے میں ایک ایسی جگہ بھی پائی جاتی ہے، جہاں زمین اور سورج کی کشش کا ایسا تناسب قائم ہوتا ہے کہ دونوں کی کشش برابر ہوجاتی ہے۔ اس ریجن میں اگر آپ کوئی چیز رکھ دیں تو وہ بجائے سورج یا زمین کے گرد گردش کرنے کے، اُس ریجن کے گرد گردش کرنے لگ جائے گا اور اس سے باہر نہ نکل سکے گا جب تک کہ اسے اس ریجن کی کُل کشش کی قوت کے متناسب قوت فراہم نہ کی جائے اور یہ قوت کوئی اتنی زیادہ نہیں۔

سورج کی کشش ثقل نظام شمسی کو باندھے رکھتی ہے۔ فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ کشش بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔

زمین کے جو حصے چاند کے قریب ہوتے ہیں، ان پر چاند کی کشش ثقل کا اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں سمندر کا پانی اوپر اٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح جو حصے چاند سے دور ہوں وہاں سطح سمندر کا زور نیچے ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت کو مدوجزر کہتے ہیں۔ چونکہ زمین گھوم رہی ہے، اس لیے ہر چوبیس گھنٹے میں ایک بار زمین کا ہرحصہ چاند سے قریب اور دور ہوتا ہے۔ یعنی سمندر ہر چوبیس گھنٹے میں دومرتبہ مدوجزر سے گزرتا ہے۔

ہماری زمین

زمین کا اوپری حصہ کئی سخت طبقات یا ٹیکٹانکس پلیٹوں میں تقسیم ہے جو کہ جیولوجیکل تاریخ کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام کو کھسک رہی ہیں۔ 29.2 فی صد حصے پر زمین اور 70.8 فی صد حصے پر پانی موجود ہے۔

زمین پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 56.7 °سینٹی گریڈ اوسط 15 ° سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت منفی 89.2 ° سینٹی گریڈ ہے۔رقبہ کے لحاظ سے سطح زمین پر تقریباً 71 فی صدنمکین پانی کے سمندر ہیں، باقی 29فی صد میں براعظم اور جزائراور میٹھے پانی کی جھيلیں وغیرہ شامل ہیں۔براعظموں اور جزیروں پر موجود دریائی،نہری نظام اور پانی کے دوسرے ذخائر میں شامل ہوتے ہیں

زمین پر مختلف موسموں کی تشکیل اپنے گردشی محور کی سطح میں 23.4° ڈگری جھکاؤ کی وجہ سے ممکن ہوتی ہیں۔

زمین کی گھومنے کی اوسطاً رفتار 29.78 کلومیٹر فی سیکنڈ اور 107200 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اپنے محور میں چکر کاٹ رہی ہے ۔ایک مکمل چکر کو ہم ایک دن کہتے ہیں، جبکہ زمین ہمارے سورج کے مدار میں گردش 365.256363004 دن میں چکر مکمل کرتی ہے ،جسے ہم سال کہتے۔

زمین سے سورج تک فاصلہ 149,600,000کلومیٹر،سورج سے زمین تک روشنی پہنچنے میں آٹھ منٹ لگتے ہیں۔زمین سے چاند تک کا فاصلہ 384,000 کلومیٹر ہے۔