مینارِ پاکستان کی کہانی

March 22, 2020

اکرام الحق چوہدری، لاہور

مینارِ پاکستان، پاکستان کی ایک اہم قومی عمارت ہے۔ اس مینار کو لاہور میں عین اُسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے، جہاں23مارچ 1940ء کو بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی ’’قراردادِ پاکستان‘‘ منظور ہوئی، جس کے نتیجے میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک، پاکستان معرض وجود میں آیا۔ قبل ازیں اس جگہ کو اُس وقت منٹو پارک کہا جاتا تھا، جو سلطنتِ برطانیہ کے زیرِانتظام تھا۔ اب یہ اقبال پارک کے نام سے معروف ہے۔ قیامِ پاکستان کے حوالے سے جب اس تاریخی مقام کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے منصوبہ بنایا گیا، تو مختلف آراء سامنے آئیں کہ اس جگہ کوئی ’’یادگار‘‘ تعمیر کی جائے، مگر اسے علامت اور عمارت کے طور پر کیا صُورت دی جائے۔

آیا، اس تاریخی مقام پر کوئی عظیم الشان باغ بنایا جائے، یا پھرشان دار مسجد، کُتب خانہ، عجائب گھر، درس گاہ یا مینار بنایا جائے۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد بالآخر ایک عظیم الشان مینار کی تعمیر کا فیصلہ ہوااور 1960ء میں اُس وقت کے صدرِمملکت، فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کی سفارشات کی روشنی میںڈیزائن کی منظوری دی گئی۔ بعدازاں، معروف دانش وَر مختار مسعود کی زیرصدارت مجلسِ تعمیر کے اجلاس میں غور ہوا کہ ’’یادگار‘‘ وہ نشانِ خیر ہوتا ہے، جو مرنے کے بعد باقی رہے، جب کہ یادگار کا عام تصوّر موت اور فنا ہی ہے، تو قراردادِ پاکستان، جو ایک زندہ جاوید حقیقت ہے، اس سے اس کا کیا تعلق۔ اس لیے منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کرکے ’’مینارِپاکستان‘‘رکھ دیا گیا۔ مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ اہلیانِ لاہور آج بھی اسے ’’یادگار‘‘ کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔

تعمیراتی اعتبار سے اسلامک، مغل اور جدید فنِ تعمیر کے حسین امتزاج، اس عظیم الشّان مینارکا نقشہ، مایۂ ناز ترک ماہرِتعمیرات، نصرالدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اورآٹھ سال کی مدّت میں 31 اکتوبر 1968ءکو کل 75لاکھ روپے کی لاگت سے اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ نصر الدین مرات خان نے مینارِ پاکستان کے اردگرد ماحول کو خُوب صُورت بنانے اوراس کی اہمیت کو چار چاند لگانے کے لیے مینار کے ارد گرد کچھ عمارات کی تعمیرکا خاکہ بھی پیش کیا، مگر نامساعد حالات نے ان کے خوابوں کو تعبیر سے ہم کنار نہ ہونے دیا۔ حکومتِ پاکستان نے مرات خان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا۔

واضح رہے کہ مینارِ پاکستان، ہائپر بولاڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے، اس ڈیزائن میں عمارت کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیش تر سامان پاکستانی ہے۔ سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا۔ لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیے گئے اس مینار کی بلندی 196 فٹ 6 انچ ہے، جب کہ ٹاپ پر ساڑھے سولہ فٹ اسٹین لیس اسٹیل کا گنبد نصب کیا گیا ہے، جس سے روشنی منعکس ہو کرہر سُو کرنیں بکھیرتی ہے۔مینار میں 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں، پہلی گیلری 30فٹ کی اونچائی پر ہے۔ جس کے بعد بالائی منزل پر جانے کے لیے پہلی منزل 95سیڑھیوں کے بعد آتی ہے۔ ٹاپ فلور پر جانے کے لیے سیڑھیوں کے علاوہ برقی لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔ مینار کی تعمیر میں پاکستان کے ابتدائی ادوار میں پیش آنے والی مشکلات کی عکّاسی انتہائی تیکنیکی مہارت سے کی گئی ہے۔

مینار کی بنیاد پرپانچ تختے نصب ہیں، جو اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ پہلا تختہ، کھردرا اور ناتراشیدہ ہے، جو اس بات کی عکّاسی کرتا ہے کہ پاکستان آزادی کے وقت کن دگرگوں حالات کا شکار تھا۔ دوسرے تختے میں پتھروں کو تراش کر ایک ترتیب سے رکھا گیا ہے، تیسرے تختے میں پتھروں میں ملائمت پیدا کی گئی ہے، جب کہ چوتھے تختے پر سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا علامات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ کس طرح پاکستان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ پانچویں تختے میں دو ہلالی چاند کے درمیان ستارے کے پانچ کونے،اسلام کے پانچ ارکان کو ظاہر کرتے ہیں۔

جون 1984ء میں ایل ڈی اے نے مینار پاکستان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا، جس کے بعد مینار کے گرد و نواح کو مزید خُوب صُورت بنانے کےلیے کئی منصوبوں پر عمل کیا گیا۔ پارک میں جھیل کی لمبائی سات سو فٹ تک مزید بڑھا دی گئی۔ جس کے بعد جھیل کی لمبائی چار ہزار فٹ اور چوڑائی ایک سو نوے فٹ ہوگئی۔ بجلی کا بیش تر نظام دس فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔ مینارِ پاکستان کے نچلے بیرونی حصّےپر سنگِ مرمر کی7فٹ لمبی اور 2فٹ چوڑی 19تختیاں نصب ہیں، جن پرخطِ کوفی میں آیاتِ قرآنی اور خطِ ثلث میں اسمائے حسنہ کے علاوہ پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ، قومی ترانہ، قائد اعظم کی تقاریر سے اقتباسات، علامہ اقبال کی نظم، ’’خودی کا سرِنہاں لااِلہ الّااللہ‘‘ اور قرار دادِ پاکستان کا مکمل متن اردو، بنگالی اور انگریزی زبانوں میں کندہ ہے۔ صدر دروازے پر ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’مینارِ پاکستان‘‘ کی تختیاں آویزاں ہیں۔ یہ تمام خطّاطی حافظ یوسف سدیدی، محمد صدیق الماس،صوفی خورشید عالم، ابن پروین رقم، اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے۔

مینارِکے ارد گرد 18ایکڑ رقبے پر محیط خوب صورت اقبال پارک بنایا گیاہے۔ جس میں سبزہ زار،فوارے، راہ داریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔ یہیں احاطے میں ایک طرف قومی ترانے کے خالق، حفیظ جالندھری بھی آسودئہ خاک ہیں۔ 2015ء میں حکومتِ پنجاب نےاقبال پارک کو 125ایکڑ رقبے تک وسعت دیتے ہوئے 981ملین کی خطیر رقم سے پارک کی تزئین و آرایش کا آغاز کیا۔اور سبزہ زار،فوّارے، راہ داریوں اور جھیل کی توسیع کے علاوہ پوئیٹ ریسٹورنٹ اور نیشنل ہسٹری میوزیم کی تعمیر کے بعد تاریخی عالم گیری مسجد، شاہی قلعہ اور علامہ اقبال کے مزار کو بھی پارک کی حدود میں شامل کردیا۔ اور پھر ’’گریٹر اقبال پارک‘‘ کا نام دے کر محکمۂ پارک اینڈ ہارٹی کلچرل کو اس کا انتظام و انصرام سونپ دیا گیا۔