پُر وقار، حسین اور ہمہ جہت فنکارہ ’’آسیہ‘‘

March 17, 2020

70ء کی دہائی میں متعارف ہونے والی فن کارہ فردوس المعروف ’’آسیہ‘‘ کا نام اور مقام اس دہائی میں متعارف ہونے والی فن کاراؤں میں ’’بابرہ شریف‘‘ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔’’آسیہ‘‘ فنی پختگی اور کرداوں میں حقیقت نگاری کا وہ حوالہ ہیں، جو فلم ویورز فلم رائٹرز کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہوگا۔ عظیم رائٹر ڈائریکٹر ریاض شاہد نے انہیں اپنے شاہ کار پروجیکٹ ’’غرناطہ‘‘ کے لیے کہانی کے ہیرو یوسف خان کی ہیروئن کے طور پرکاسٹ کیا، لیکن شباب کیرانوی نے ’’انسان اور آدمی‘‘ کی سیکنڈ ہیروئن کے طور پر انہیں کاسٹ کرکے انسان اور آدمی کو غرناطہ سے قبل مکمل کرکے ریلیز کردیا۔

یُوں انسان اور آدمی 1970ء ان کی پہلی ریلیز قرار پائی۔ آسیہ کے لیے اس فلم میں پرفارمنس کا بہت زیادہ مارجن نہیں تھا، لیکن ان کا دل کش سراپا اور ان پر پکچرائز میڈم نور جہاں کے گائے گیتوں میں آسیہ کی پرفارمنس عوامی توجہ حاصل کر گئی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انسان اور آدمی کی ریلیز کے کچھ عرصے بعد منور رشید نے اپنی جرنی مووی روڈ ٹو سوات میں ایک اور آسیہ نامی فن کارہ کو متعارف کروادیا، مگر یہ آسیہ روڈ ٹو سوات کے بعد پھر کسی فلم میں نظر نہ آئیں، جب کہ فردوس المعروف آسیہ نے 70ء کی پُوری دہائی پر محیط ہو کر اپنے فنی معرکوں کی وہ شان دار اننگز کھیلی۔ ریاض شاہد کی ’’غرناطہ‘‘ ریلیز کے اعتبار سے آسیہ کی چوتھی فلم تھی۔ غرناطہ کا ہر کردار اپنی جگہ کامل تھا ، لیکن کردار نگاری کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلاشبہ آغا طالش اور یوسف خان کے بعد آسیہ ہی کی پرفارمنس تھی، جو دلوں میں نقش ہوگئی۔

ہدایت کار رنگیلا کی ’’دل اور دنیا‘‘ 1971ء میں پہلی بار انہیں ڈبل رول اور فلم کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا۔ فلم کے پہلے ہاف میں آسیہ نے ایک گل فروش اندھی لڑکی کے روپ میں اپنی دل گداز پرفارمنس سے فلم بینوں کی تمام تر توجہ، ہمدردی اور پسندیدگی سمیٹ لی ۔ ’’دل اور دنیا‘‘ کی بلاک بسٹر پلاٹینم جوبلی کام یابی نے آسیہ کو باکس آفس پر ایک مضبوط اسٹینڈ فراہم کردیا۔ 1972ء کی ریلیز ظفرشباب کی ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ میں آسیہ کو ایک بار پھر بہت پاور فل رول ایک خانہ بدوش رقاصہ کاملا، جسے رنگیلا کی محبت اور محبت گلی کوچوں سے اٹھاکر سنیما اسکرین کی بڑی ہیروئن بنادیتی ہے، لیکن وہ اپنی احسان فراموش فطرت کے سبب اسے ٹھکرادیتی ہے اور پھر تقدیر کا ایک ہی وار اسے معذور کرکے غربت اور مفلسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔

ہیر رانجھا کی خالق ٹیم فلم ساز اعجاز درانی، رائٹر احمد راہی اور ہدایت کار مسعود پرویز کےاشتراک میں جب ایک فلم پلان کی گئی تو سسی کے کردار کے لیے حسین و جمیل اور سروقد فن کارہ سنگیتا کا انتخاب عمل میں آیا، جب کہ کہانی کا تیسرا اہم ترین کردار خانہ بدوش رقاصہ جو ’’پنوں‘‘ کی جنون کی حد تک دیوانی ہے، اس کے لیے آسیہ کا چنائو کیا گیا۔ اس فلم میں ان کے کردار کی نوعیت مکمل منفی تھی۔ یہ وہ کردار تھا، جو آسیہ سے قبل آشاپوسلے نے فلم ’’سسی‘‘ اور ان کے بعد وینا ملک نے کیا، لیکن جو پرفارمنس آسیہ نے اس کردار میں کی، وہ سب پر بھاری ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پرفارمنس کے اعتبار سے آسیہ فلم ’’پنوں دی سسی‘‘ کا سب سے پاور فل کردار بن کر ابھریں۔ آسیہ کے کیریئر کے ابتدائی برسوں میں رنگیلا نے بہ حیثیت ہدایت کار کے ان کا کیریئر بنانے میں بڑی معاونت کی۔ دل اور دنیا کے بعد جب رنگیلا نے اپنا پہلا پنجابی پروجیکٹ ’’دو رنگیلے‘‘ شروع کیا تو فرسٹ ہیروئن کے طور پر آسیہ ہی کو منتخب کیا۔ ہدایت کار راکھن کی نہایت خوب صورت اور سوزوگداز کی حامل تصویر ’’سہرے کے پھول‘‘ کو باکس آفس پر محض 25؍ ہفتے چلی، لیکن آسیہ کی کردار نگاری کے تناظر میں اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ الطاف حسین کی عام پنجابی فلموں سے مختلف تصویر 4؍ خون دے پیاسے میں آسیہ نے پہلی بار ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا اور کمال مہارت سے ادا کیا۔

عدنان فلمز کی 1973ءکی ریلیز ’’بے ایمان‘‘ میں آسیہ ڈبل رول کے ساتھ سامنے آئیں۔ رنگیلا اور قوی ان کے ہیرو تھے۔ دونوں ہی کرداروں میں آسیہ نے متاثر کن کارکردگی دکھائی مگر،ان پر فلم بند گیت ’’دل کو جلائے میرا سوہنا ماہی‘‘ پر ان کی رقص پرفارمنس فلم ’’بے ایمان‘‘ کا اہم ترین حوالہ بن گئی۔ 1974ء میں آسیہ نے بہ طور پروڈیوسر طبع آزمائی کرتے ہوئے ہدایت کار راکھن سے ’’پیار ہی پیار‘‘ بنوائی، لیکن اعلی میوزک کی حامل فلم ہونے کے باوجود یہ ناکام رہی۔

ہدایت کار خلیفہ سعید کی ’’غلام‘‘ میں وہ اقبال حسن کی ہیروئن بنیں۔ غلام کی گولڈن جوبلی ہٹ کام یابی کے فوراًبعد ہدایت کار افتخار کی ’’جیرا بلیڈ‘‘بھی ایک نمایاں ہٹ ثابت ہوئی، جس میں آسیہ کا پیئر اقبال حسن کے بھائی تنظیم حسن کےساتھ بنایا گیاتھا۔ 1974ء کو ہم آسیہ کے فنی کیریئر کا اہم ترین سال کہہ سکتے ہیں کہ اس سال ان کی کردار نگاری سے آراستہ نصف درجن سے زائد فلموں نے باکس آفس پر خُوب رنگ جمایا۔ 1974ء کی آسیہ کے کریڈٹ پر نمایاں کام یاب فلمیں تھیں۔1977ء کی بہترین پنجابی اداکارہ کے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

1978ء میں آسیہ کی جو قابل ذکر فلمیں سامنے آئیں۔ ان میں رنگیلا کی ’’بے گناہ‘‘ جو دیا اور طوفان کا ری میک تھی۔ جان محمد کی ’’بہت خوب‘‘ ایس سلیمان کی ’’پرنس‘‘ اور ایم اکرم کی بائیکاٹ شامل ہیں۔ 1979ء میں آسیہ کی مصروفیت کا تسلسل برقرار رہا، ان کی پنجابی فلمیں کثرت سے آرہی تھیں، جن میں قابل ذکر کام یاب مسعود بٹ کی چالان، یونس ملک کی وحشی گجر اور شہر آفاق مولا جٹ، جب کہ حسن عسکری کی شاہ کار تخلیق آگ (اردو) بھی شامل تھیں۔ یونس ملک کی ’’مولاجٹ‘‘ کو بھلا کون بھلا سکتا ہے اور حسن عسکری کی ’’آگ‘‘ کی کرسچن لیڈی ٹیچر کا کردار تو آسیہ کی فنی زندگی کے ان یادگار کرداروں میں نمایاں ہے، جو آسیہ کے ذکر کے ساتھ یادوں اور تصورات کی اسکرین پر اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ متحرک ہوجاتے ہیں۔

اس کردار پر انہیں خصوصی نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 1980ء میں آسیہ کی متعدد پنجابی فلمیں اور ایک اردو فلم ’’حسینہ مان جائےگی‘‘ منظر عام پر آئیں۔آسیہ کی کردار نگاری کی حامل فلموں میں یہ ان کی آخری اردو فلم تھی۔ پھر اچانک ایک ناخوش گوار واقعہ کسی فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کے ساتھ پیش آیا، جس سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے کئی فلموں کے معاہدے بند کردیئے اور شادی رچا کر ملک سے باہر چلی گئیں۔ پھر انہوں نے پلٹ کر شوبز کی طرف نہیں دیکھا۔ بہت سے ماہ و سال گزرنے کے بعد اچانک 9؍ مارچ 2013ء کو ان کے انتقال کی افسوسناک خبر سامنے آئی، موت کی وجہ کینسر بنا۔ وہ اپنےناقابل فراموش کرداروں کی وساطت سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔