’مِرگی‘ کے اسباب، تشخیص اور علاج

March 26, 2020

مِرگی ایک دماغی بیماری ہے جو کہ عام ترین شدید اعصابی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً5کروڑ افراد مِرگی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جب کسی کو یہ بیماری ہوجائے تو پھر اسے مِرگی کے دورے پڑسکتے ہیں۔ کسی بھی شخص کو زندگی میںایک آدھ مرتبہ مِرگی کا دورہ پڑ سکتا ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ اسے ہمیشہ مِرگی ہی ہو۔ عمومی طور پر مِرگی کی تشخیص اس وقت کی جاتی ہے، جب ایک سے زیادہ دورے پڑیں اور ڈاکٹر یہ سمجھتا ہو کہ مزید دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ مِرگی کسی بھی عمر میںشروع ہو سکتی ہے۔

اس کی کئی اقسام ہیں، کچھ اقسام تھوڑے عرصے تک رہتی ہیں اور کچھ اقسام زندگی بھر رہ سکتی ہیں۔ لوگوںکومِرگی کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر سال فروری کے دوسرے ہفتے میںپیر کے روز ’’مِرگی کا عالمی دن‘‘ جبکہ 26مارچ کو ’’پرپل ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ پرپل ڈے کا اہتمام کرنے کیلئے لوگ اس رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی اس بیماری کی آگاہی کے لیے#EpilepsyAwarenessDayاور #PurpleDayجیسے ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض کے بارے میں بات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ – آپ کے ارد گرد مِرگی میں مبتلا یا اس میں مبتلا لوگوں کو جاننے والے افراد، آپ کے خیال سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

اسباب

مِرگی کی بیماری دما غ میں برقی انتشار پیدا ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ ہر انسان کے دماغ میں برقی کرنٹ کارفرما ہوتا ہے، جس کے ذریعے دماغ کا ایک حصہ دوسرے حصے سے منسلک رہ کر اپنا فعل انجام دیتا ہے۔ بعض انسانوں کے دماغ میں کسی خاص وجہ سے دماغی کرنٹ کی پیداوار کا نظام وقفے وقفے سے بگڑ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ مرگی کے دورے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک دورہ اس وقت پڑتا ہے، جب دماغ میں الیکٹریکل سرگرمی کا شدید جھٹکا لگتا ہے۔ یہ دماغ کے عمومی طریقہ کار میں عارضی خلل پیدا کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے دماغ کے پیغامات آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔ مِرگی کے دوروں کی کئی اقسام ہیں۔

چند اقسام میں مریض اس بارے میں چوکنا اور آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے جبکہ دیگر اقسام میں وہ ہوش و حواس کھو دیتے ہیں۔ انھیں غیر معمولی احساسات، خیالات یا حرکات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے یا ہو سکتا ہے کہ ان کا جسم اکڑ جائے، وہ نیچے گر جائیں اور انھیں جھٹکے لگیں۔

ڈاکٹروں کی جانب سے ہی مِرگی ہونے کی واضح وجہ بتائی جاسکتی ہے، تاہم اس مرض میں مبتلا آدھے لوگوں میں ڈاکٹر مِرگی کا سبب نہیں جانتے۔ مِرگی کی ممکنہ وجوہات میں • فالج، • دماغی انفیکشن جیسے کہ سرسام، • شدید دماغی چوٹ اور • دورانِ پیدائش مسائل مثلاً نومولود کو کم آکسیجن لینا شامل ہیں۔ کچھ لوگوں میں مِرگی کی وجہ موروثی ہوسکتی ہے۔ سائنسدان اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مِرگی موروثی طور پر کیسے منتقل ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹرز مِرگی سے متاثرہ کسی بھی شخص (یا اس کے نگہداشت کنندگان) کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر جتنا ممکن ہوسکے مطالعہ کریں۔

تشخیص

اگر ڈاکٹر سمجھتا ہے کہ کسی شخص کو مِرگی ہے، تو وہ اس کی تشخیص اور علاج میں تجربہ رکھنے والے کسی ماہرڈاکٹر سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ عمومی طور پر وہ ڈاکٹر ایک نیورولوجسٹ ہوتا ہے۔ مریض اپنے دوروں کے بارے میں جو کچھ بتاتا ہے، اسی بنیاد پر ماہرڈاکٹر کی جانب سے تشخیص کی جاتی ہے۔ عام طور پر وہ چند ٹیسٹ کروانے کا کہتے ہیں، جن میں خون کا ٹیسٹ، ایک ای ای جی (دماغ کی لہروں کو ر یکارڈ کرنا) اور دماغ کا ایک اسکین شامل ہوتا ہے۔

یہ ٹیسٹ، ماہرڈاکٹر کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں کہ آیا اس شخص کو مِرگی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی نوعیت اور وجہ کیا ہے۔ لیکن ایسا کوئی بھی واحد ٹیسٹ موجود نہیں ہے، جس سے اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کسی کو مِرگی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹرز، متاثرہ افراد اور ان کے نگہداشت کنندگان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سوالات پوچھنے سے نہ گھبرائیں، بے شک کوئی سوال کتنا ہی معمولی یا احمقانہ ہو، پھر بھی پوچھیں۔

مِرگی کا علاج

مِرگی میں مبتلا10میں سے7مریضوں کے دورے درست علاج سے پوری طرح قابو میں آ جاتے ہیں۔ مِرگی کا بنیادی علاج مِرگی کی ادویات ہیں۔ عموماً ان دوائیوں کو اینٹی ایپیلپٹک ڈرگز یا اے ای ڈیز کہا جاتا ہے۔ یہ دوائیاں مِرگی کو ٹھیک نہیں کرتیں، مگر دوروں کو روکنے یا کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ماہر ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ مریض کو مِرگی کی ادویات کے بارے میں بتائیں کہ وہ کیسے کام کرتی ہیں اور ان کے ممکنہ ضمنی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔

ہر شخص مختلف ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص قسم کی دوا انہیں اچھی محسوس نہیں ہو رہی۔ اگر کسی بھی مریض کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، تو ڈاکٹر دیکھے گا کہ کیا کوئی دوسری دوا اس مریض کے لیے بہتر ہوسکتی ہے۔ مِرگی کا علاج کرنے کے دیگر طریقے بھی موجود ہیں مگر وہ ہر کسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ان میں مِرگی کے لیے مختلف اقسام کی سرجری اور بعض اوقات بچوں کے لیے استعمال ہونے والی خصوصی غذا شامل ہیں۔