نغمہ نگار مسرور انور کی 24ویں برسی آج منائی جائیگی

April 01, 2020

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی جیسے سینکڑوں لازوال گیتوں سے پاکستانی فلمی صنعت کو منور کرنے والے معروف شاعر اور کہانی کار مسرور انور کو دنیا سے گزرے 24 برس بیت گئے ۔ مسرور انور 5 جنوری 1944 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے ۔ 1962 میں انھوں نے اپنی پہلی فلم بنجارن کے لئے گیت لکھے تاہم انہیں اصل شہرت وحید مراد کی فلم ہیرا اور پتھرکے گیتوں سے ملی جس کے بعد مسرور انور، احمد رشدی اور سہیل رعنا کی ایک ٹیم سامنے آئی جس نے متعدد سپر ہٹ گیتوں کو تخلیق کیا ۔ 1965ء کی جنگ کے موقع پر مسرور انور کے ولولہ انگیز گیتوں نے پوری قوم کا خون گرما دیا، مہدی حسن کی آواز میں اپنی جاں نذر کروں جیسا گیت تخلیق ہوا تو سوہنی دھرتی جیسے ملی نغمے کو کون بھول سکتا ہے ۔ مسرور انور کی زندگی میں 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ارمان کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کا ہر گیت سپر ہٹ ثابت ہوا، جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یا کوکو کورینہ جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے ۔ اس ٹیم نے دوراہا کے گیت ہاں اسی موڑ پر کو لازوال بنایا تو فلم احسان کے گیت ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے نے بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا ۔ مسرور انور اور نثار بزمی کی جوڑی بھی بہت مقبول ہوئی ۔ مثال کے طور پر فلم لاکھوں میں ایک کا گیت چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، فلم صاعقہ کا اک ستم اور میری جاں ابھی ہے، فلم عندلیب کا کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، فلم انجمن کا گیت اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں ۔ تاہم فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہونے لگے تاہم کئی فلموں میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا، جن میں فلم مشکل کا گیت دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ بہت ہٹ ہوا ۔ دوستوں میں قہقہے اور مسکراہٹیں بانٹنے والے منفرد شاعر،نغمہ نگار، اسکرپٹ رائٹر مکالمہ نگار مسرور انور یکم اپریل 1996کو مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے ۔