ہر گھڑی رحمت بَھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں....

May 03, 2020

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: محمّد سعید شیخ اینڈفیملی

اہتمام و عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

آہ!اِمسال یہ کیسا رمضان المبارک آیا ہے کہ اللہ کے اِس پیارے مہمان کا استقبال اِس کے شایانِ شان ہے، نہ ضیافت و مہمان داری۔ خود اللہ کے گھر کے دروازے پوری طرح وا ہیں، نہ وہاں میزبان ہی آنکھیں فرشِ راہ کیے نظر آرہے ہیں۔ وہ مساجد و مدارس کی چہل پہل، رونقیں، سحر و افطار کی رحمت و برکت سے لبریز پُرنور ساعتیں، دروس و خطبات، باجماعت تراویح کے عظیم اجتماعات… کچھ بھی تو نہیںہے۔ افغان شاعر، میر جان صبوری کے فارسی کلام کے مثل کہ ؎ شہرخالی، جادّہ خالی، کُوچہ خالی، خانہ خالی.....جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی.....کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایان، عندلیبان.....باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی (شہر خالی، رستہ خالی، کوچہ خالی، گھر خالی.....جام خالی، میز خالی، ساغر و پیمانہ خالی.....ہمارے دوست و بُلبلیں، دستہ دستہ کوچ کرگئے.....باغ خالی، باغیچہ خالی، شاخیں خالی، گھونسلہ خالی) وائے از دنیا کہ یار از یارمی ترسد..... غنچہ ہائے تشنہ از گلزارمی ترسد.....عاشق از آوازئہ دلدارمی ترسد.....پنجہ خنیاگران از تارمی ترسد.....شہ سوار از جادئہ ھموار می ترسد.....این طبیب از دیدن بیمار می ترسد (وائے دنیا کہ جہاں دوست، دوست سے ڈر رہا ہے.....جہاں غنچہ ہائے تشنہ باغ ہی سے ڈر رہا ہے.....جہاں عاشق اپنے دلدار کی آواز ہی سے ڈر رہا ہے.....جہاںموسیقاروں کے ہاتھ تارِساز سے ڈر رہے ہیں.....شہ سوار سہل و ہم وار رستے سے ڈر رہا ہے.....اور طبیب بیمار کو دیکھنے سے ڈر رہا ہے) اندر، باہر سب ہی کچھ تو خالی ہوگیا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ چہار سُو بس اِک ڈر اور خوف ہی کا راج ہے۔

کبھی تصوّر بھی نہ کیا تھا کہ زندگی میں کوئی ماہِ صیام، عیدالفطر ایسی بھی آئے گی۔ اور ہم نے تو کیا، ہمارے بزرگوں نے بھی کب ایسا رمضان المبارک دیکھا۔ آنکھیں، دل ہی نہیں، روح تک اشک بار ہے، خانہ خدا کی بے رونقی و ویرانی دیکھ کر۔ اللہ اللہ ماہِ صیام میںکعبتہ اللہ کے مناظر اور شان و شوکت کا کیا عالم ہوتا تھا۔ کب سوچا تھا کہ اِس ایک چھوٹی سی زندگی میںیہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ اِک مسلمان سے اگر مسجد میںداخلے ہی کا حق چِھن جائے، تو پھر باقی رہ ہی کیا گیا۔ گیارہ مہینوں کے اِس سردار مہینے کی تو آہٹ، چاپ ہی سے سارا ماحول نورانی ہوجاتا ہے۔ ہر طرف نُور کی ایک چادر سی تَن جاتی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، یہی دیکھا کہ اِدھر شیاطین قید ہوئے، گویا ہر طرف ابوابِ خیر کُھل گئے۔ تو پھر اس بار یہ ربّ ذوالجلال کا جلال، ناراضی، قہرِخداوندی ہی ہے ناں کہ ماہِ صیام حاصل ہوکر بھی پوری طرح حاصل نہیںہوپایا۔ لیکن بخدا ابھی بھی یہ پوری سزا نہیںہے، یہ تو محض ایک اشارہ ہے کہ ’’بندیا!اجے وی ویلا اے، باز آجا‘‘۔

مالکِ کون و مکاں کے اپنے مہینے میںتو اُس کا رحم و کرم اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اُس غفور الرحیم کا اپنا قول، وعدہ ہے کہ ’’یہ میرا مہینہ ہے اور اِس کا اجر مَیںخُود دوں گا۔‘‘ تو اُس نے اپنی طرف آنے والے رستوں میںمشکلات، رکاوٹیں ضرور کھڑی کی ہیں، اور وہ بھی ہماری حد سے بڑھتی نافرمانیوں، بداعمالیوں پر سرزنش کی خاطر، اظہارِ ناراضی کےطور پر، مگر منزل تک پہنچنے کا وہ اِک سب سے آسان، ہم وار رستہ، ’’توبہ استغفار‘‘ کا دَر ہنوز کُھلا ہے۔ بس منانے والا سَچّا، سُچّا دل چاہیے۔

بے لوث چاہت و محبت درکار ہے۔ جس کو روزہ دار کے منہ کی بُو، مشک و عنبر معلوم ہوتی ہے، اُس کے لیے روزہ دار کے دل سے نکلی دُعا، آہ کیا معنی رکھتی ہوگی، ہر مسلمان کو سوچنا، غور کرنا چاہیے۔ رمضان تو نزولِ قرآن کا مہینہ، روزوں کا مہینہ، غزوئہ بدر، فتح مکّہ کا مہینہ، ضبطِ نفس، ہم دردی و غم خواری، جودو سخا، صبر و شُکر اور عفو و درگزر کا مہینہ ہے۔

یہ وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اِک یہی تو وہ مہینہ ہے، جس کے طفیل ہم اپنے بقیہ گیارہ ماہ کے اعمالِ بد کے باوجود بھی بہرطور ربّ کریم کی بے بہا رحمتوں، عنایتوں، مہربانیوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ سال بھر کا میل کچیل، آلائشیں اِس ایک ماہ میں دُھل جاتیں، تو پھر سے پاک صاف، نئے نکور ہوکر اُس کی بارگاہ میں سر جُھکانے، اُس سے رحم و کرم مانگنے کے قابل ہوجاتے، مگر امسال تو اُس نے جیسے دھتکار ہی دیا ہے کہ اُس خالق و مالکِ دو جہاں کو بھلا ہماری عبادتوں، ریاضتوں کی کیا ضرورت ہے، بقول خواجہ میردرد ؎ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو.....ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔ جب انسان میں’’انسانیت‘‘ ہی نہ رہے، تو پھر بھلا اُسے ’’اشرف المخلوقات‘‘ کہلانے کا بھی کیا حق رہ جاتا ہے۔

سو، اس وَبا، عالمی آفت میں مضمر اصل پیغام یہی ہے کہ ’’انسان کو بالاخرانسان بننا ہوگا۔‘‘ ویسا ہی انسان، جیسا اور جس مقصد کے لیے اُسے تخلیق کیا گیا۔ فرمانِ الٰہی ہے، ’’پھر یاد کرو اُس موقعے کو، جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ مَیں سَڑی ہوئی مٹّی کے سُوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میںاُسے پورا بنا چُکوں اور اُس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میںگرجانا، چناں چہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔‘‘ (سورۃ الحجر، آیت نمبر 28تا 31)تو جس انسان کو تمام تر مخلوقات سے افضل قرار دے کر، فرشتوں کو اُس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حُکم دے دیا گیا، تو کیا اُس انسان کے اس قدر گرجانے پر اُس کے خالق و مالک، دو جہانوں کے رازق کی یہ خفگی و برہمی درست نہیں۔

ماں خفا، ناراض بھی ہو، تو اُس سے اولاد کی بھوک پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ کن انکھیوں سے دیکھتی رہتی ہے کہ کسی طور وہ دو لقمے پیٹ میں اُتار لے، تو پھر ہی کہیں جا کے اُس کے سینے میںبھی ٹھنڈ پڑتی ہے۔ ماہِ صیام ستّر مائوں کی ممتا سے کہیںزیادہ محبّت کرنے والے ربّ کا مہینہ ہے۔ اُسے اپنے بندے کا اپنے لیے بھوکا پیاسا رہنا اتنا پسند ہے کہ اُس نے روزے کے اجر و ثواب کو لامحدود کرکے اپنی الفت و رحمت سے مشروط کردیا ہے۔ تو پھر بھلا ربّ کو راضی کرنے کا اِس ماہ سے بہتر موقع اور کون سا ہوسکتا ہے۔ جیسے ہر بچّہ جانتا ہے کہ اُسے اپنی ماں کو کیسے راضی کرنا ہے، ویسے ہی ہم بھی اپنے اللہ کی ناراضی و خفگی، رضا و خوش نودی سے بخوبی واقف ہیں۔

اُسے اپنے بندے کی عاجزی و انکساری، توبہ استغفار، صبر و شُکر اور حقوق العباد کی ادائی بہت پسند ہے، تو کیا یہ چند صفات اپنا کے ہم اپنے پالن ہار کا جلال، جمال میںنہیں بدل سکتے۔ کوشش تو کرکے دیکھیے، اگر آپ کی خلوصِ دل سے کی گئی کوشش سے پوری کائنات کا عذاب ٹل جائے، دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے، کاروبارِ حیات پھررواں دواں ہو، تو کیا یہ کوئی منہگا سودا ہے۔ اور پھر اپنے ربّ اور خود سے بھی ملاقات کا اتنا طویل اور اس سے بہتر وقت بھلا پھر کب ملے گا۔ موقع، محل، ماحول، تنہائی، فرصت سب ہی کچھ تو میسّر ہے۔ خدارا!اب بھی سنبھل جائیں، سنور جائیں، رجوع کرلیں۔

’’سحر و افطاردسترخوان‘‘ سے مزیّن یہ بزم تو محض اِک یاد دہانی ہے۔ اصل مقصد آپ کو قادرِ مطلق، ربّ کعبہ، مالک شرق و غرب کی لامتناہی نعمتوں کے تہہ دل سےشُکرانے اور ان نِعم میںسے ضرورت مندوں کا حصّہ نکالنے کی ترغیب دینا ہے۔ ذرا اس اِک عمل ہی سے آغازِ نیکی و بھلائی کرکے تو دیکھیں۔