کورونا وائرس اور ادویہ ساز ادارے

April 27, 2020

دنیا کورونا کی وبا سے بری طرح گھائل ہے۔ ہر طرف ایک عجب انارکی کی صورتحال ہے۔ کیا دولت مند ممالک اور کیا غریب اور پسماندہ تیسری دنیا، سب کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا سوال جس کا جواب تا حال نہیں مل سکا ہے۔ دنیا بھر کے لیڈران اور سائنسدان بظاہر سر جوڑے اس ہنوز لاینحل سوال کا جواب ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اصل سوال کیا ہے۔ کیایہ صرف ایک وبا ہے؟ یا اس وبائی مرض کے پیچھے اور بھی خاص مقاصد کام کررہے ہیں۔ یہاں ہم نظریۂ سازش کی طرف نہیں جا رہے ہیں کہ یہ وائرس چین نے پھیلایا ہے یاامریکانے، بلکہ ہم حقائق کو کسی اور زاویئے سے دیکھ رہے ہیں۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں انسانی ذہن ہر چیزکے پیچھے مالی فوائد کے حصول کو اوّلیت دیتا ہے۔ جہاں اس مہلک وباسے انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے وہیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہےکہ اس سے بہت سے بڑے ادارے اجتماع یا انفرادی حیثیت میں مالی منفعت حاصل کر رہے ہیں۔ خواہ وہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے دستانے ہوں، ماسک ہوں یا ہاتھوں کو صاف رکھنے کے لیےجراثیم کش مواد۔ اسی طرح کورونا کے لیےٹیسٹنگ کٹس، یعنی اب آپ کو صرف شک کی بناء پر بھی کورونا کا ٹیسٹ کروانا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح وینٹیلیٹرز جو اسپتالوں میں بہت کم مریضوں کے لیے کسی وقت ضروری ہوسکتی تھی اب اس کاممکنہ استعمال بے انتہا حد تک بڑھ چکا ہے۔ صرف مارچ کے مہینےمیں چائنا نے تیس لاکھ ٹیسٹنگ کٹس دنیا بھر میں بر آمد کی۔ اسی طرح امریکی کار بنانے والی کمپنی فورڈ کو اب وینٹیلیٹرز بنانے پہ معمور کر دیا گیا ہے، تاکہ وباء کے دوران متوسط اور غریب ممالک کو فراہم کیا جاسکے۔

شائد عام حالات کے مقابلے میں قیمت کچھ کم ضرور ہوگی لیکن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تو اس سے مالی فائدہ اٹھا رہا ہوگا۔ آئیے اس بات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں کہ کورونا کی وباء سے کس کس کو کیا کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ جب اس وباء نے پہلے پہل زور پکڑا تو سب کے ذہن میں پہلا سوال یہی آیا کہ اس مرض کا علاج کیا ہے؟ نیزیہ کہ کیا کوئی ویکسین اب تک وجود میں آئی ہے جو اس کاتوڑ کر سکے؟ اس سوال کا فوری جواب نفی میں تھا اور دنیا میں لوگوں کے ہوش اس بات سے ہی اُڑ گئے کہ یہ ایک ایسا وائرس ہے، جس پر اثر کرنے والی کوئی ویکسین ابھی ایجاد ہی نہیں ہوئی۔ ادویہ سازی سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایک نئی دوا ایجاد کرنے میں اندازاً دس سے بارہ سال یا کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ کچھ عرصے تک تو نظریۂ سازش اسی نہج پہ کام کرتی رہی کہ یہ سب کچھ امریکا کی کارستانی ہے، تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کو لگام دیا جا سکے۔ دوسری طرف امریکا نے “چینی وائرس” جیسی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے صاف صاف چین پر الزام لگایا کہ یہ سب چین کی شرارت ہے۔

ایک لحاظ سے ہر دو الزامات میں سے کسی ایک کا درست ہونا اس نقطۂ نظر سے ایک اچھی خبر ہوتی کہ اگر یہ وائرس سچ مچ کسی ایک ملک نے ایجاد کیا ہے تو یقیناً اس ملک کے پاس اینٹی وائرس یعنی اس کی ویکسین بھی تیار ہوگی۔ اس بات کو مزید تقویت اس وقت ملی جب صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میںchloroquineکے حوالے سے یہ خوشخبری سنائی کہ اسanti malarialدوا میں کورونا کے خلاف مدافعت بھی موجود ہے،مگر پھر دوسری لابی نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن (USFDA )کے سابق افسران نے یہ الزام لگایا کہ کسی باقاعدہ ریسرچ کے بغیر اس دوا کااستعمال کورونا کے لیے کی جانے والی ریسرچ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوگی اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ایسا سراسر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

یوں صدر ٹرمپ کی یہ خوشخبری محض ہوا میں تیر ثابت کر دی گئی۔ اور اس کے اوپر مزید ٹھوس شواہد تلاش کرنے کی کوشش نہ کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر جاپان، سوئٹزرلینڈ اور کچھ اور ممالک کے ڈاکٹرز نےکورونا کے مریضوں میںchloroquineاور Azithromycin کے اشتراک سے کورونا وائرس میں ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا تھاتو کیا وجہ ہے کہ اس طریقۂ علاج کی مزید حوصلہ افزائی نہیں کی گئی جب کہ مریض مسلسل مرتے رہے۔ کیا ایک ایسی صورت حال میں جب آپ کے پاس جان بچانے کے لیے کوئی اور راستہ نہ رہا ہو تو اس موقع پر ایک موہوم اُمید کا سہارا تلاش کرکے استعمال کرنا خلافِ قانون سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ کیا دونوں پارٹیوں کا اس موافقت اور مخالفت کا مقصد محض سیاسی یا تجارتی ہو سکتا ہے؟ مستقبل کے موّرخ کو یہ بات سمجھنے اور ثابت کرنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف امریکا ہی کی ایک حیاتیاتی دوا ساز کمپنی Gilead Scientific نے یہ دعویٰ کیا کہ SARS اور Ebola وائرس کے خلاف استعمال کی جانے والی ان کی ایجاد کردہ دواRemdesivirکورونا کے خلاف بھی کارآمد ثابت ہوگی۔ اس لیے اس کی FDA سے منظوری کے عمل کو تیز کیا جائے۔ چونکہRemdesivirکا موڈ آف ایکشن ایسا ہے کہ اس کاکسی بھی دوسرے وائرس کے خلاف موّثر ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ آسان الفاظ میںیوں سمجھ لیجئے کہ ہر جاندار کے جسم کے خلیےمیں ایک چیز Ribonucleic Acid کے نام سے ہوتی ہے۔ جسے ہم مختصراً RNA بھی کہتے ہیں۔ یہ زندگی کی اساس بھی ہوتی ہے۔

یہ RNA ایک زنجیر کی شکل میںاپنی تعمیر کرتی رہتی ہے چاہے اس کی زندگی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ وائرس کے اندر بھی ایسی ہی ایک RNA کی زنجیر ہوتی ہے۔ اگر اس زنجیر کی مزید تعمیر کسی طرح سے روک دی جائے تو وائرس کا موّثر رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ Remdesivirکا مالیکیول وائرس کے اندر موجود اس اینزائم کے ساتھ مداخلت کرتا ہے جو وائرس کے RNA کی زنجیر کی تعمیر کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس طرح وائرس کے اندر اس کے RNA chain کی تعمیر کا سلسلہ رک جاتا کے اور یوں وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند خبر تھی جس کے ساتھ ہی FDA نے اپنے طور پر فوری فیصلہ کرتے ہوئے اسے ایک ایسی دوا قرار دیا جسے فارماسوٹیکل قوانین کی اصطلاح میں Orphan Drug کہا جاتا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ دوا سچ مچ یتیم ہوتی ہے بلکہ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس دوا کو ایک مخصوص مدت تک، جو اس سلسلے میں سات سال مقرر کی گئی تھی، کوئی اور کمپنی نہیں بنا سکتی ہے۔ ملاحظہ ہو اس شدید ابتلا کے دوران تجارتی مقاصد اور مالی منفعت کا تصور اور ان کاقانونی تحفظ۔

ایسی صورت میں دوا کی مالک کمپنی کو اپنی مرضی کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار سات سالوں تک رہے گا اور Generic companies اسے کم قیمت پہ بنا کر فروخت نہیںکر سکیں گی۔ یہ سراسر مالی منفعت کے حصول کی دوڑ ہے۔ عام حالات میںیہ ایک انتہائی قابل قبول اور نارمل قدم ہے جب تحقیق پر برسوں پیسہ پانی کی طرح بہانے کے بعد کامیابی حاصل ہونے پر دواساز کمپنی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اسکا پیٹنٹ بیس سال تک کوئی اور نہ بنا سکے اور یوں وہ اس ’’امتیازی خصوصیت‘‘ (exclusivity) کے حامل رہتے ہوئے اپنے لگائی رقم سے بلا مبالغہ سیکڑوں گنا زیادہ کمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،مگر اس وقت یہ ایک خودغرضانہ عمل تھا۔

وہ تو جب دنیا بھر سے ان پہ لعن طعن کی گئییہاں تک کہ حال ہی میں صدارتی انتخاب کی دوڑ سے پیچھے ہٹ جانے والے امیدوار برنی سینڈر نے بھی FDA کے اس فیصلے کی مذمت کی تو Gilead scientific نے خود ہی FDA سے اس خصوصیت سے علیٰحدگی کی درخواست کردی۔ اب تک Gilead اس دوا کی ایک ملین ڈوز تیار کر چکا ہے،مگر یہ ویکسین کتنی زود اثر ہے ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مالی منفعت کا مقابلہ اب بھی جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کسی بھی ویکسین کی عدم موجودگی میں اس بیماری سے کیونکر نمٹ سکتی تھی۔

ایک طریقۂ علاج جو کہ ممکن ہوسکتا تھا وہ تھا Passive immunization کا طریقہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک کے جسم میں پیدا ہونے والی قوتِ مدافعت کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں وائرس کے خلاف استعمال کیا جائے۔ ایک صحت مند شخص کے خون میں سے پلازمہ کو الگ کیا جاتا ہے ،جس میں ایسے اینٹی باڈیز( antibodies )موجود ہوتے ہیں جو کسی خاص وائرس یا جرثومے سے لڑ کر اس کےخلاف موّثر قوت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز دوسرے شخص کے خون میں ویکسین کی طرح شامل کئے جاتے ہیں جو اسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ 1995ءمیں جس وقت ایبولا کی وبا افریقا میں پھیل چکی تھی اور جب کہ کوئی ویکسین وجود میں نہیں آئی تھی اس وقت آٹھ افراد کا اسی مصنوعی ایمیونائزیشن کے ذریعے علاج کیا گیا تھا جن میں سے صرف ایک کا انتقال ہوا تھا جب کہ اس مقابلے میں ایبولا سے ہونے والے اموات کی شرح 80فی صد تھی۔ passive immunization میں صرف ایک قباحت ہے۔

وہ یہ کہ مریض لمبی مدت تک وائرس سے محفوظ نہیں رہ پاتا ہے اور اس کے دوبارہ اسی وائرس سے زیر ہونے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ وہ اس لیےکہ اس طریقے سے متعارف ہونے والے اینٹی باڈیز اپنی یادداشت میں اس وائرس کو محفوظ نہیں رکھ پاتے اور اسی لئے اگر وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو اینٹی باڈیز اس کے خلاف دفاع میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ ایک فوری جان بچانے کا طریقہ ہوسکتا ہے جب تک کوئی باقاعدہ ویکسین میّسر نہ آ جائے ،جس سے active immunization کو ممکن بنایا جا سکے۔ بعد میں صحتیاب ہوجانے والے مریض کو اصل ویکسین لگا کر زندگی بھر کے لیے اسے اس وبا سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب passive immunity کا تصور موجود ہے تو پھر دنیا COVID 19 کے خلاف اسے استعمال کرنے میں دیر کیوں لگا رہی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اس طریقے سے حاصل ہونے والے اینٹی باڈیز کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر اب تک دنیا بھر میں تقریباً چارلاکھ افراد اس وائرس سے لڑ کر صحت یاب ہو چکے ہیں۔

ایسے لوگ اپنے خون کو عطیہ کرسکتے ہیں۔ کہیں اس تساہل کی وجہ بھی وہی مالی منفعت تو نہیں جو کسی نئے ویکسین کے وجود میں آنے سے دواساز صنعت کو حاصل ہونے کی امید ہے؟