سیرتِ طیّبہؐ کے معاشی و اقتصادی پہلو پر کام وقت کی اہم ضرورت ہے

June 07, 2020

بات چیت: منور راجپوت

بھارت سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمّد یاسین مظہر صدیقی معروف سیرت نگار اور محقّق ہیں۔ندوۃ العلماء ، جامعہ ملّیہ اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے تعلیم پائی۔ عملی زندگی کا آغاز علی گڑھ یونی ورسٹی سے بطور ریسرچ اسکالر کیا، پروفیسر مقرّر ہوئے، ڈائریکٹر شعبہ علومِ اسلامیہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یونی ورسٹی کے ذیلی ادارے’’ شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل‘‘ کے سربراہ بنائے گئے۔

ان کی اصل شناخت سیرت طیّبہؐ پر گراں قدر تحقیقی کام ہے۔ ان کے سیرتِ طیبہؐ پر اردو، انگریزی اور عربی میں کئی سو سے زاید مقالات شایع ہوچُکے ہیں۔ 40 سے زاید کُتب کے مصنّف ہیں، جن میں تیرہ سو صفحات پر مشتمل’’ مصادر سیرتِ نبویؐ ‘‘ بھی شامل ہے۔انھیں سیرت النبیؐ پرخدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی شخصیت پر ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی سطح پر کام ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں دورۂ پاکستان کے دوران ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے، تو ہماری ان سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں سیرتِ طیّبہؐ پر تحقیقی کام، اس سے متعلقہ رجحانات اور امکانات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی، جو قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان اور تعلیمی مدارج کے حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: مَیں 26 دسمبر 1944 ء کو اُتر پردیش کے تاریخی قصبے، گولا میں پیدا ہوا۔ہمارا خاندان تجارت کے پیشے سے وابستہ تھا، پڑھنے لکھنے کا کوئی خاص رواج نہیں تھا، البتہ میرے والد، مولوی انعام علی نے کچھ تعلیم حاصل کی، وہ اپنے والد سے دُور نہیں رہ سکتے تھے، اِس لیے خواہش کے باوجود مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے، تاہم اُنھوں نے اپنی اِس خواہش یا خلش کا یوں مداوا کیا کہ نذر مانی کہ’’ بیٹا ہوا تو اُسے عالمِ دین بناؤں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں میری شکل میں بیٹا دے دیا۔ آج جو کچھ بھی ہوں، اُن ہی کی وجہ سے ہوں کہ اُنھوں نے میری تعلیم وتربیت پر بھرپور توجّہ دی اور شہہ زادوں کی طرح رکھا۔مولانا سعید احمد خیر آبادی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جو بعدازاں 1950 ء میں پاکستان ہجرت کر گئے۔ جب کہ قرآنِ پاک مولانا غلام محمّد قاسمی سے پڑھا، جنھوں نے سولہ برس کی عُمر میں ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ پھر مولانا سعید احمد کے مشورے سے مجھے ندوۃ العلماء، لکھنؤ بھیج دیا گیا۔جہاں مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا منظور نعمانی، مولانا اسحاق سندیلوی، محمّد رابع حسنی ندوی، مولانا عبد الحفیظ بلیاوی جیسے علماء سے استفادہ کیا۔ والد کا سائیکل کا کاروبار تھا اور خاصے مال دار تھے، جب 1959 ء میں ندوۃ العلماء، لکھنؤ سے تعلیم مکمل کی، تو اُنھوں نے سوچا، یاسین میاں کے تو ہاتھ نرم و نازک ہیں، اُن سے کہاں ہتھوڑے اُٹھائے جائیں گے، سو اُنھوں نے مجھے میڈیکل اسٹور کھلوا دیا۔

اس دَوران میری شادی بھی کردی گئی کہ ہمارے ہاں چھوٹی عُمر ہی میں یہ ذمّے داری نمٹانے کا رواج تھا۔ باباجان نے مجھے میڈیکل اسٹور تو کھلوا دیا، لیکن مجھے اس سے قطعاً دِل چسپی نہیں تھی۔ جب اُنھوں نے وجہ پوچھی، تو مَیں نے کہا’’ اگر دُکان داری ہی کروانی تھی، تو پھر اِتنا پڑھانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ اس پر اُنھوں نے کہا’’ تو پھر کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ مَیں نے کہا’’ جدید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ اب علماء محض قدیم علوم سے جدید زمانے کے لوگوں کی اصلاح نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسلام کی درست تعلیمات پیش کی جاسکتی ہیں۔‘‘ان کی اجازت سے لکھنؤ چلا گیا اور یونی ورسٹی سے فاضل ادب کا امتحان دیا۔چوں کہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی خواہش پر جامعہ ملّیہ میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو عصری علوم پڑھانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، تو وہاں سے ہائیر سیکنڈری کیا اور ٹاپ کرنے کی وجہ سے بی اے کے لیے اسکالرشپ بھی مل گئی۔1965 ء میں انگلش لٹریچر، تاریخ اور پولیٹیکل سائنس کے مضامین کے ساتھ بی اے کیا۔جامعہ ملّیہ کا بی ایڈ اُس زمانے میں بلکہ آج بھی بھارت بھر میں سب سے بہتر تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا مَیں نے داخلہ ٹیسٹ دیا، تو پھر ٹاپ کیا، جس پر پانچ ہزار روپے کی اسکالرشپ ملی۔ بعدازاں، علی گڑھ یونی ورسٹی سے تاریخ میں ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ اسی دَوران مجھے وہاں بطور ریسرچ اسکالر ملازمت مل گئی۔ 1983ء میں شعبہ علومِ اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا گیا اور 1991ء میں پروفیسر مقرّر ہوگیا۔

میزبان ڈاکٹر حافظ محمد ثانی اور دیگر کے ساتھ گروپ فوٹو

س: آپ کی شخصیت پر کن اساتذہ کے زیادہ اثرات ہیں؟

ج: ہر استاذ ہی کی مہربانی ہے، تاہم مَیں سب سے زیادہ مولانا اسحاق سندیلوی، مولانا ابو العرفان خاں ندوی اور مولانا عبدالحفیظ بلیاوی سے متاثر ہوا۔

س: سیرتِ طیّبہؐ پر لکھنے کا رجحان کیسے ہوا؟

ج: ابتدا میں انڈین ہسٹری ہی پر لکھا کرتا تھا۔ خاص طور پر امیر خسرو وغیرہ پر کوئی بیس پچیس مضامین لکھ ڈالے تھے، جو سب انگریزی میں تھے کہ اُردو میں لکھنے کو غیر علمی تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس پر بابا جان اکثر کہا کرتے کہ’’ بیٹا! مَیں نے تمھیں اس لیے نہیں پڑھایا کہ بادشاہوں کے قصیدے لکھو، لکھنا ہے، تو حضورﷺ کی سیرتِ پاک پر لکھو۔‘‘ایک تو اس سے میرا ذہن اس طرف مائل ہوا۔ پھر اسی دَوران1975 ء میں بھوپال(بھارت) میں ایک سیمینار کے لیے مَیں نے حضرت عثمانؓ کے گورنزر اور عمّال پر ایک مضمون لکھا۔جب ان کی فہرست بنائی، تو پتا چلا کہ اُن میں آدھے سے زیادہ تو حضرت عُمرؓ کے زمانے کے ہیں۔

پھر مزید غور کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ اور نبی اکرمﷺ کے زمانے کے تھے، تو سوچا کہ کیوں نہ اس موضوع پر کام آپﷺ کے دَور ہی سے شروع کیا جائے۔ یہ مقالہ بعدازاں’’ Organization of Government Under The Holy Prophet ‘‘ کے نام سےکتابی شکل میں پہلے ادبیات دہلی اور پھر لاہور سے چَھپا۔ پھر اس کا اردو ایڈیشن’’ عہدِ نبویؐ میں حکومت و ریاست‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ اس میں عہدِ رسالتؐ میں ریاست کے تدریجی ارتقاء پر مفصّل بحث کرتے ہوئے شہری نظم ونسق، فوجی، مالی اور مذہبی معاملات زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ یوں سیرتِ طیّبہؐ پر لکھنے کا آغاز ہوگیا۔

س: اب تک آپ کی کتنی کُتب شایع ہو چُکی ہیں؟

ج: صرف سیرتِ طیّبہؐ پر 40 کتب شایع ہو چُکی ہیں، جن میں سے کئی ایک کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی چَھپے ہیں۔ یہ کتابیں صرف بھارت ہی نہیں، بلکہ دیگر ممالک میں بھی چَھپ رہی ہیں۔

س: کسی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا؟

ج: ہاں، پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق اور صدر پرویز مشرف نے قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈز سے نوازا۔ کئی بار’’ نقوش ایوارڈز‘‘ ملے، تین بار’’ عبدالجبار شاکر سیرت ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اسی طرح بھارت میں’’ شاہ ولی اللہ ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔

س: آپ کی پی ایچ ڈی کا موضوع کیا تھا؟

ج: وہ بہت مختلف موضوع اور سیرتِ طیّبہ سے بالکل ہٹ کر تھا۔یعنی ’’ Historical material in the Ijaz e Khusravi of Amir Khusro‘‘ فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب’’ اعجازِ خسروی‘‘ خالصتاً دلّی سلطنت پر ہے اور اس کا اندازِ بیان بے حد مشکل ہے، لیکن اس میں بہت سا تاریخی مواد موجود ہے، جس کی مَیں نے کھوج لگائی۔

س: پاکستان اور بھارت میں سیرت نگاری کا کیا معیار ہے؟

ج: پاکستان اور بھارت میں سیرت النبیؐ پر باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ وقیع اور قیمتی کام ہوا ہے۔ اردو سیرت نگاری نے اتنی جہات پیدا کرلی ہیں، جو عربی اور انگریزی میں آج تک نہ ہو پائیں۔مولانا سیّد سلیمان ندویؒ نے اس کام کا آغاز کیا، جسے ڈاکٹر محمّد حمید اللہ نے آگے بڑھایا اور اسے مزید وسعت دی۔ اُنھوں نے سیرت کے ہر پہلو پر لکھا۔ پھر مولانا ادریس کاندھلوی، نواب صدیق حسن خان اور قاضی سلیمان منصور پوری کی کتب بہت اہم ہیں۔ خاص طور پر قاضی صاحب کی کتاب’’ رحمۃ للعالمینﷺ ‘‘ تو بہت ہی عمدہ کتاب ہے کہ اس میں صحیح ترین روایات کا انتخاب کیا گیا ہے۔

س: برّ ِ صغیر پاک و ہند میں سیرت نگاری کا مستقبل آپ کیسا دیکھتے ہیں؟

ج: مستقبل تو بہت تاب ناک ہے اور یہ بات مَیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان اور بھارت، یعنی دونوں ممالک میں سیرتِ طیّبہؐ پر بہت اہم کام ہو رہا ہے۔ نئے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔

س: کیا کوئی ایسا پہلو بھی ہے، جس پر ابھی تک کام نہیں ہوا یا بہت کم ہوا ہے؟

ج: ہاں، سیرتِ طیّبہؐ کے معاشی اور اقتصادی پہلو پر ابھی بھی کام کی کافی گنجائش ہے اور ایسا کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ اسلام میں صرف فقر وفاقہ کی زندگی ہے، حالاں کہ یہ بات درست نہیں۔اصل میں علماء سمجھتے ہیں کہ مال کوئی بہت ہی بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے دورِ اوّل میں صرف فقر ہی فقر تھا۔

میرے استاد، پروفیسر حبیب صاحب، جو ماہرِ تاریخ تھے، کہا کرتے تھے’’ اسلام تو فقر کا مذہب ہو ہی نہیں سکتا کہ مال کے بغیر تو اس کے ارکان بھی ادا نہیں ہوسکتے۔ چلیے نماز پڑھنے میں تو پیسے خرچ نہیں ہوتے، مگر مساجد تو بنانی ہوں گی، تو اس کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اسی طرح حج اور زکٰوۃ کا تو مال ہی سے تعلق ہے۔‘‘ دراصل سیرت نگاروں کو اس معاملے میں تسامح ہوا ہے۔مَیں نے اپنی کتاب’’ معاشِ نبویؐ ‘‘ میں اس پر تفصیل سے بات کی ہے۔

س: مستشرقین نے حیاتِ طیبہؐ پر جو اعتراضات وارد کیے ہیں، کیا ہمارے سیرت نگاروں نے اُس کا مدلّل جواب دیا ہے؟

ج: جی بالکل۔علّامہ شبلی نعمانیؒ نے نہ صرف یہ کہ اعتراضات کا مدلّل جواب دیا، بلکہ یہ بھی بتایا کہ مستشرقین نے کہاں کہاں غلطیاں کیں۔ اسی طرح ڈاکٹر حمید اللہ کا بھی اِس ضمن میں بہت وقیع کام ہے۔

س: بچّوں کو نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہؐ سے درست طور پر آگاہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

ج: ہمیں سیرتِ طیّبہؐ پر چھوٹے چھوٹے کتابچے لکھنے چاہئیں، جو بچّوں کی تدریسی ضرورت پوری کرسکیں۔ ہم بڑی بڑی اور تحقیقی کتب لکھتے ہیں، جو یونی ورسٹی سطح کی ہوتی ہیں اور جنھیں بچّے نہیں سمجھ پاتے۔ تاہم، اچھی بات یہ ہے کہ اس سمت میں کام ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکا میں’’ محمّدﷺ فار چلڈرن‘‘ کے نام سے نصابی کتب تیار کی گئی ہیں، جو مجھے بھی رائے کے لیے بھجوائی گئیں۔ نیز، ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیرت پر کام کرنے والے پرانے مواد پر تو اچھی نظر رکھتے ہیں، مگر جدید تحقیق سے واقف نہیں۔

س: جامعات کے نصاب میں عصری تقاضوں کے پیشِ نظر سیرتِ طیّبہؐ کے کن مضامین کو شامل کیا جانا چاہیے اور یہ کہ کیا مدارس کے نصاب میں شامل سیرت کا حصّہ کافی ہے؟

ج: جہاں تک مدارس کی بات ہے، تو اُن کے نصاب میں شامل سیرتِ طیّبہؐ کا حصّہ کافی کم ہے، مگر پھر بھی کافی کتب پڑھائی جاتی ہیں، جن کے ذریعے طلبہ بہت کچھ جان لیتے ہیں۔ تاہم، تجزیے کی صلاحیت پروان نہیں چڑھ پاتی۔یہاں سیرتِ طیّبہؐ کو اسلامک اسٹڈیز کے ایک حصّے کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے اہم پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں، اس لیے سیرت اسٹڈیز ہونی چاہئیں۔

نیز، ہمیں تدریسی اور تحریری انداز بھی بدلنا ہوگا۔ آپ دس پندرہ کُتب اُٹھالیں، سب میں تھوڑے بہت فرق سے صرف یہی ملے گا کہ آپﷺ کی ولادت کہاں ہوئی؟ کہاں پروان چڑھے؟ وغیرہ، مگر اب جو لوگ تجزیہ کر رہے ہیں، وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں اگر مکّے میں کسی بچّے کی تعلیم وتربیت ہوتی، تو کیسی ہوتی؟ وہاں کا تعلیمی اور علمی ماحول کیسا تھا؟ سماجی اور معاشرتی روایات کیا تھیں؟ نبی کریمﷺ کے اُمّی رہنے کی وجہ کیا تھی؟ قرآن پاک میں اُمّی کا تصوّر کیا ہے؟عام طور پر لوگ پوچھتے ہیں کہ’’ ایک اُمّی کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟‘‘ حالاں کہ اُمّی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپﷺ علم سے دُور تھے، بلکہ دنیا میں آپﷺ کا کوئی استاد نہیں تھا اور آپﷺ نے وحی کے ذریعے تعلیم پائی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیرتِ طیّبہؐ کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر تجزیے کی بنیاد پر پڑھنا اور لکھنا ہوگا۔

س: بہت سے سیرت نگار مشکل زبان کا انتخاب کرتے ہیں، اِس طرزِ سیرت نگاری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: بالکل ایسا ہی ہے۔ زبان عام فہم اور سیدھی سادی ہونی چاہیے۔ عربی اور فارسی کے الفاظ کا بلاضرورت استعمال مناسب نہیں۔ پھر یہ کہ تجزیاتی مطالعے کی بنیاد پر کتبِ سیرت سامنے آنی چاہئیں۔ نیز، اردو کے ساتھ مقامی اور انگریزی زبان میں بھی کتبِ سیرت کی اشد ضرورت ہے کہ اس کے بغیر جدید دور کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔

س: سیرت نگاری میں خواتین کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: مَیں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے لیے’’ جدید دور میں خواتین کی سیرت نگاری‘‘ کے عنوان سے 50 صفحات کا مقالہ لکھا تھا۔ پاکستان میں اس حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے، بلکہ بعض خواتین کا کام تو انتہائی شان دار ہے۔ اُنھوں نے علمی اور تحقیقی کتب کے ساتھ عام تقاضوں سے ہم آہنگ کتب بھی لکھی ہیں۔

س: کیا جامعات میں سیرتِ طیّبہؐ پر ہونے والا کام تحقیق کے معیار پر پورا اُترتا ہے؟

ج: اچھائی، برائی ہر جگہ ہوتی ہے۔ عام طور پر شخصیات پر مبنی تحقیق معیاری نہیں ہے، تاہم بعض افراد نے جدید انداز اختیار کرتے ہوئے شخصیات پر بھی معیاری کام کیا ہے۔ گو کہ بھارت میں بھی تحقیقی کام ہو رہا ہے، مگر پاکستان اس میدان میں آگے ہے اور اس کا سبب وہ سہولتیں ہیں، جو یہاں دست یاب ہیں۔ یہاں کی جامعات میں سیرت چیئرز ہیں، کانفرنسز اور سیمینارز ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت بھی اِس طرح کے کئی کاموں کی سرپرستی کرتی ہے۔ سیرت پر کُتب چھاپنے کے لیے بڑے پبلشرز ہیں اور قارئین بھی۔

س: پاکستان اور بھارت کی سیرت نگاری میں کوئی فرق ہے؟

ج: زمین آسمان کا فرق ہے۔ جدید تقاضوں کے مطابق جو تحقیقات ہو رہی ہیں، وہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں کہیں معیاری اور بلند تر ہیں۔ یہاں سے بھجوائے گئے متعدّد پی ایچ ڈی کے مقالات کا جائزہ لے چُکا ہوں، وہ بھی بلاشبہ خاصے بلند پایہ تھے۔ حالیہ دنوں میں فیصل آباد کی ایک خاتون نے مکّی روایاتِ سیرت پر انتہائی معیاری کام کیا ہے۔

س: حضرت شاہ ولی اللہؒ پر بھی آپ کا کافی کام ہے؟

ج: جب علی گڑھ یونی ورسٹی نے’’ شاہ ولی اللہؒ سیل‘‘ قائم کیا، تو مجھے اس کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ ہم نے اس علمی مرکز کا افتتاح شاہ صاحبؒ کی کتاب،’’ حجتہ اللہ البالغہ‘‘ کے ایک باب کے ترجمے اور تشریح پر مشتمل کتابچے’’ شاہ ولی اللہؒ کا فلسفۂ سیرت‘‘ کی اشاعت سے کیا۔ نیز، شاہ صاحبؒ کی اسی کتاب پر تین روزہ انٹرنیشنل سیمینار بھی منعقد کروایا۔شاہ صاحبؒ کی خدماتِ حدیث وفقہ وغیرہ پر ہم کئی کتب اور رسائل شایع کرچُکے ہیں۔

س: علماء کے حلقے میں شاہ صاحبؒ کی کیا انفرادیت ہے؟

ج: شاہ صاحبؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ جتنے اسلامی علوم و فنون ہیں، جیسے قرآن، حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ، سماجیات، تعلیم وتربیت، نصابِ تعلیم غرض ہر موضوع پر اُن کی کتب موجود ہیں۔اُنھوں نے قرآنِ کریم کا جو فارسی زبان میں ترجمہ کیا، اس کی تو مثال ہی نہیں ملتی۔ بہت سادہ اور خُوب صُورت زبان ہے، پڑھتے ہی دِل میں اُتر جاتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ جو شخص قرآن پاک سمجھنا چاہتا ہو، اُسے اس ترجمے اور مختصر حواشی سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔

س: مسلمانوں کی بیداری میں شاہ صاحبؒ کا کیا کردار رہا؟

ج:اُنہوں نے انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ عوام کو قرآن پاک کی طرف متوجّہ کیا، اس مقصد کے لیے اُس دور کی زبان یعنی فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔ اُنھوں نے اِس خطّے میں علومِ حدیث کی اشاعت کی۔ نیز، فقہی اختلافات میں میانہ روی اختیار کرنے کے حوالے سے بھی کتب لکھیں، جن سے مسلمانوں میں اتحاد کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ تاریخ پر کتب لکھ کر مسلمانوں کے سامنے اُن کا شان دار ماضی رکھا، تو مستقبل کی راہ کی نشان دہی بھی کی۔شاہ صاحبؒ کا فلسفہ تین سو برس گزرنے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل ہے۔

س: شاہ صاحبؒ کے فلسفے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟

ج: شاہ صاحبؒ کتاب اللہ کو بنیادی کتاب قرار دیتے ہوئے عوام کو اس کی طرف رجوع کرنے پر بے حد زور دیتے ہیں۔ اُن کے ہاں کتبِ احادیث، بالخصوص موطا امام مالکؒ سے بھی رہنمائی پر زور دیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے فقہی اختلافات دُور کرنے کے لیے جو کتب لکھیں، اگر اُنھیں پڑھ لیا جائے، تو سارے تنازعات ہی ختم ہوجائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سنّت میں تنوّع ہے اور اختلاف کی وجہ سے تمام سنّتیں محفوظ ہوگئیں۔ وہ ایسے کہ ایک امام نے ایک سنّت لی، تو دوسرے نے دوسری، اب جس پر بھی عمل ہوگا، وہ سنّت ہی پر عمل کہلائے گا۔

س: کہا جاتا ہے کہ وہ اس خطّے کے آخری محدّث اور مذہبی عالم ہیں، جن پر تمام سنّی مسالک کا اتفاق ہے؟

ج: ان پر متفّق تو سب ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اُن کے فلسفے پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ قرآنِ کریم کا پورا متن پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی کہیں موطا امام مالکؒ کی تدریس ہوتی ہے۔ اگر کہیں یہ کتاب پڑھائی جاتی بھی ہے، تو مسعودی کی بجائے امام محمّد کی مرتبہ موطا کو ترجیح دی جاتی ہے، جو فقۂ حنفی کی ایک کتاب ہے۔اب تو پاک وہند میں موطا کو صحاح ستّہ ہی میں شامل نہیں کیا جاتا، جب کہ شاہ صاحبؒ اُسے حدیث کی بنیادی کتاب قرار دیتے ہیں۔پھر یہ کہ اُنھوں نے اختلافی مسائل کے حل کے لیے جو لائحۂ عمل دیا، اُسے بھی بھلا دیا گیا، سب اختلافات میں گِھرے ہوئے ہیں۔نیز، اُن کا’’ ارتفاقات‘‘ کے عنوان سے سماجی نظام کا تصوّر بہت زبردست ہے۔ معاشی اور تمدّنی نظام کیسا ہونا چاہیے، اُنھوں نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے، مگر اس پر کہاں عمل ہو رہا ہے؟

س: اُمّتِ مسلمہ کو درپیش موجودہ چیلنجز میں سیرتِ طیّبہؐ کیا رہنمائی فراہم کرتی ہے؟

ج: ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی کریمﷺ کے مشرکین، یہودیوں اور عیسائیوں سے کس نوعیت کے تعلقات تھے۔ اس تجزیاتی مطالعے کی بنیاد ہی پر ہم اپنی پالیسیز طے کر پائیں گے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیرتِ طیبہؐ میں ہر دور کے تقاضوں، مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے بھرپور راہ نمائی ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوّت آفاقی، عالم گیر اور ابدی ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور ان کی روشنی میں اپنے مسائل اور چیلنجز کا حل تلاش کریں کہ یہی فلاح و کام یابی کا راستہ ہے۔