دو برطانوی ناول نگار جےآرآرٹولکن ۔ جے کے رولنگ

June 24, 2020

ادبی دنیا میں ہمیشہ سے یہ طے ہے کہ دو طرح کا ادب تخلیق ہوتا ہے، ایک وہ جس کو ہم ادبِ عالیہ کہتے ہیں۔ اس کا شمار کلاسیکی ادب میں ہوتا ہے، اس کو لکھنے اور پڑھنے والے باشعور، زیرک اور عمدہ ذوق کے مالک ہوتے ہیں۔ انہیں کہانی کے ساتھ ساتھ کرداروں کی زبان و بیان اور ان کے لب و لہجے سے بھی واسطہ ہوتا ہے، وہ چاہتے ہیں، کہانی میں تہذیب و تمدن کی جھلک ہو اور اسے تہہ در تہہ بیان بھی کیا جائے، اسی لیے یہ ادب ِعالیہ کہلاتا ہے۔

دوسرا ادب وہ ہے، جس کو مقبول ادب یا پاپولر فکشن کہا جاتا ہے۔ اس ادب میں کہانی کا گہرائی سے مشروط ہونا لازمی نہیںہے۔ یہ ادب دیگر پابندیوں میں آزاد ہونے کے علاوہ صرف ایک ہدف حاصل کرتا ہے، وہ ہے زیادہ فروخت ہونا یا بہت زیادہ شہرت حاصل کرلینا، چاہے کہانی سطحی اور کرداروں کا رویہ کتنا ہی غیر اہم اور غیر ادبی کیوں نہ ہو، اس کے لیے شہرت ہی کامیابی کا واحد پیمانہ ہے۔ اسی لیے ادبی دنیا میں یہ بحث اب تک ہوتی آئی ہے کہ پاپولر فکشن ادب کا حصہ ہے بھی یا نہیںاور یہ بڑے ادب میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں، یہ بڑے پیمانے پر فروخت ہونے اور پڑھا جانے والا ادب ہے۔

عہدِ حاضر میں دو ایسے برطانوی ناول نگار ہیں، جن کی کتابیں فروخت ہونے کا ریکارڈ سب سے بلند ہے اور دونوں کے ناولوں پر بننے والی فلموں نے بھی باکس آفس پر کئی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ ان دونوں کے نام’’جے آر آر ٹولکن ‘‘ اور’’جے کے رولنگ‘‘ہیں۔ ان دونوں کے درمیان شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے علاوہ کئی باتیں مشترک ہیں، اس لیے ان کا تذکرہ یہاں باہم کیا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے، دونوں کے تخلیقی ادوار بالکل مختلف ہیں، مگر دونوں کی تخلیقی اصناف مساوی ہیں، جن کی وجہ سے اکثر دونوں کے تخلیقی کام کو ساتھ رکھ کر بھی دیکھا جاتا ہے۔

نئی صدی کے آغاز پر، جب ان دونوں ادیبوں کے ناولوں پر فلمیں بن کرریلیز ہوئیں، تو ان کی شہرت کو ایک دم پر لگ گئے۔ پاپولر فکشن کے طور پر دونوں کی کتابیں فروخت کے لیے بازار میں آئیں، تو پھر فروخت ہی ہوتی چلی گئیں۔ دونوں کے ناولوں پر جو فلموں کی سیریز بنی، وہ بھی ان کے ناولوں کی طرح مقبولیت سمیٹتی رہی۔ دونوں کی فلمی شہرت کی ابتدا کا سال 2001 ہے، جب ان دونوں کے ناولوں پر پہلی پہلی فلم ریلیز ہوئی، تو اس کے بعد سے ان کی مقبولیت کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا، ہرچند کہ دونوں کی تصنیفات اور ادبی ادوار میں نمایاں فرق ہے، لیکن سینما کے پردے پر دونوں کی شہرت ایک ساتھ شروع ہوئی۔ برطانوی داستانی ادب میں ان دونوں کا تذکرہ کیے بغیر ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکے گی۔

’’جے آر آر ٹولکن‘‘ 1892 میں پیدا ہوئے اور 1973 میں وفات پائی۔ وہ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، ناقد، مدرس اور فوجی بھی تھے۔ ان کی فوجی و ادبی خدمات پر انہیں برطانیہ کے کئی بڑے شاہی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے جنگِ عظیم اول میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ بہت ساری تخلیقات کو اپنی زندگی میں کبھی کتابی شکل نہ پائے، البتہ باقاعدگی سے لکھتے رہے، ان کی رحلت کے بعد، ان کے بیٹے’’کرسٹوفر‘‘ نے ان کی تمام تحریروں کو ملا کر کتابی شکل میں شائع کروایا۔ ان میں سے سب سے مشہور ناول’’دی فیلو شپ آف دی رِنگ‘‘ کی اشاعت تین جلدوں میں ہوئی، پھر انہی تینوں جلدوں پر تین فلمیں بنیں۔ انہیں’’جدید تصوراتی ادب کا باپ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ آج ان کا شمار برطانیہ سمیت دنیا کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے تصوراتی اور داستانی ادب میں نمایاں کام کیا اور ان کی شہرت مقامی ہونے کے علاوہ بین الاقوامی بھی ہے۔

ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف’’دی فیلو شپ آف دی رِنگ‘‘کی اشاعت 1954 میں پہلی مرتبہ ہوئی۔ قارئین اس کو’’دی لارڈ آف دی رِنگز‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اسی مصنف کے ایک اور ناول’’دی ہوبیٹ‘‘ کا تسلسل ہے، جو 1937 میں شائع ہوا تھا۔ تین مختلف جلدوں میں لکھے گئے اس ناول میں، ایک حصے کا نام’’دی لارڈ آف دی رِنگز‘‘ ہے، اس کو بہت شہرت ملی، پہلی مرتبہ اس کی 150 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ مختلف جلدوں میں اور نت نئے ایڈیشنز کی صورت میں شائع ہونے کے بعد، اس ناول کے تمام حصے ایک جلد میں بھی شائع ہوچکے ہیں، ان سب کی فروخت بھی کروڑوں کاپیوں کی صورت میں ہوچکی ہے اور اب بھی ان کی فروخت کا عمل جاری ہے۔

اس ناول کے دنیا کی 38 زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں، جبکہ تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ڈرامائی تشکیل دی جاچکی ہے۔ اس پر 2001 سے 2003 تک تین برسوں میں تین فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں، جن کے اسکرپٹس مختلف اسکرپٹ رائٹرز نے لکھے جبکہ فلم سازوں، ہدایت کاروں اور فنکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد کا تعلق ان فلموں سے ہے، جن کی تفصیل کے لیے الگ تحریر درکار ہوگی۔ ان تینوں فلموں کو ملا کر اکادمی ایوارڈز کے لیے 30 بار مختلف شعبوں میں نامزدگیاں ہوئیں، جن میں سے 17 اکادمی ایوارڈز جیت لیے۔ باکس آفس پر مالی کامیابی اور فلم بینوں کی ان فلموں کی سیریز کے لیے پسندیدگی اس کے علاوہ ہے۔

’’جے کے رولنگ‘‘ 1965 میں پیدا ہوئیں۔ وہ ناول نگار ہونے کے علاوہ فلم اور ٹیلی وژن پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر بھی ہیں۔ بہت قلیل عرصے میں عالمگیر شہرت حاصل کرچکی ہیں۔ یہ کئی اصنافِ ادب میں تخلیقی اظہار کرتی ہیں، لیکن ان کی وجہ ٔ شہرت ’’ہیری پوٹر‘‘ کی سیریز ہے۔ یہ تصوراتی اور داستانی انداز کا پاپولر ادب ہے، جس کی اب تک تمام کتابوں کی فروخت ملا کر 500 ملین کاپیوں سے زیادہ ہے، یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔

یہ عام سی ملازمت پیشہ خاتون کی زندگی بسر کر رہی تھیںاور ایک بار جب یہ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہی تھیں، تب ان کے ذہن میں’’ہیری پوٹر‘‘ کی کہانی کا خاکہ ابھرا۔ کئی برس اس کی شکل و صورت بنانے میں لگے، ساتھ ساتھ گھریلو زندگی اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا بھی رہا، حتمی طور پر 1997 میں ان کا پہلا ناول’’ہیری پوٹر اینڈ فلاسفرز اسٹون‘‘ شائع ہوا۔ اس کی شہرت نے انہیں مزید لکھنے پر آمادہ کیا، تو پھر اس کے مزید چھ حصے لکھے۔ بچوں کا یہ ادب تخلیق کرنے کے علاوہ پانچ کتابیں بڑوں کے لیے بھی لکھ چکی ہیں۔ اب ان کا شمار دنیا کی پہلی کھرب پتی ادیبہ میں ہوتا ہے۔ ان کے تمام ناول ایک طرف، لیکن’’ہیری پوٹر‘‘ کی سیریز کو جو مقبولیت حاصل ہوئی، اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

’’ہیری پوٹر‘‘ سیریز میں ہیری پوٹر کا کردار ایک ایسے طلسماتی لڑکے کا ہے، جس کی جادوگری نے اپنی ایک الگ دنیا آباد کر رکھی ہے۔ اس میں کئی کردار اس کے دوست اور کئی دشمن ہیں، یہ کم عمر لڑکا انتہائی زیرک دکھایا گیا ہے، جس کا مقابلہ اپنے سے بڑے اور طاقتور کرداروں سے ہے۔ بظاہر عام سی کہانی ہے، لیکن اس کی شہرت نے اس کو پاپولر ادب میں شامل کر دیا، پھر اس پر بننے والی فلموں نے اس کی شہرت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ 2001 سے لے کر 2011 تک’’ہیری پوٹر‘‘ کی اس سیریز پر 8 فلمیں بن چکی ہیں۔ تین مرکزی کرداروں کو اس سیریز کی تمام فلموں میں ایک جیسے ہی اداکاروں نے ادا کیا، باقی کرداروں میں فنکار تبدیل ہوتے رہے، وہ تین فنکار یا مرکزی کردار، ڈینیل ریڈکلف، روپریٹ گرنٹ اور ایماواٹسن ہیں۔

اس فلم سیریز کی سات فلموں میں سے چھ کے اسکرپٹس’’اسٹیو کلووز‘‘ نے لکھے، جبکہ ایک فلم کا اسکرپٹ’’مائیکل گولڈن برگ‘‘ نے لکھا ہے۔ ان فلموں کا شمار اربوں کھربوں کمانے والی فلم سیریز میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت اور کامیابی کی کہانی بیان کرنے کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہوگا۔ البتہ اس فلم سیریز کی کل ملا کر 12 مرتبہ اکادمی ایوارڈز کے لیے مختلف شعبوں میں نامزدگی ہوئی، لیکن کسی بھی شعبے میں یہ فلم ایوارڈ حاصل نہ کرسکی، جو فلم بینوں کے لیے حیرت انگیز بات ہے، ممکن ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو، جب اس سلسلے کی پہلی فلم بننے جا رہی تھی، تو اس وقت ہالی ووڈ کے معروف اور رجحان ساز فلم ساز’’اسٹیون اسپیل برگ‘‘ سے بھی ادیبہ کی گفت و شنید ہوئی کہ وہ پہلی فلم کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیں، لیکن پھر جے کے رولنگ اور اسٹیون اسپیل برگ کے مابین اختلاف رائے ہوا اور انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی، وہ ایک اثر و رسوخ رکھنے والے فلم ساز ہیں، شاید اکادمی ایوارڈز کے حصول میں وہ کہیں آڑے آئے ہوں، لیکن یہ بات قرین قیاس ہے، البتہ اس فلم سیریز نے اور کئی عالمی ایوارڈز اپنے نام کرنے کے علاوہ کئی نئے فلمی ریکارڈز بھی قائم کیے۔

اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو’’جے آر آر ٹولکن‘‘ کا ناول’’دی فیلو شپ آف دی رِنگ‘‘ اور اس پر بننے والی فلموں نے اہل ادب اور فلمی ناقدین کی توجہ زیادہ حاصل کی، ہر چند کہ اس ناول پر مبنی تین فلمیں بنیں، لیکن اکادمی ایوارڈز سمیت دنیا بھر کے اہم اعزازات سمیٹے اور ادبی لحاظ سے بھی زیادہ شہرت حاصل کی، البتہ مالی اعتبار سے’’جے کے رولنگ‘‘ کے ناول’’ہیری پوٹر‘‘ سیریز زیادہ کامیاب رہی، اس پر بننے والی فلموں نے بھی خوب کمایا۔ یہ فلمیں تعداد میں بھی زیادہ تھیں، لیکن اس کے باوجودادبی دنیا میں معیاری ادب اور سینما کے جہان میںوہ مقام حاصل نہ کرسکیں، جو ’’جے آرآر ٹولکن‘‘کے ناول اور اس پر بننے والی فلموں کو حاصل ہوا۔ اس کے باجود دونوں ناول نگار عصر ِحاضر کے مقبول برطانوی ناول نگار کہلائیں گے۔