کچی شراب کی فیکٹریاں

June 21, 2020

منشیات کے چلن نے نوجوان نسل کو جس اندھے کنویں میں دھکیلا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ وہ نوجوان جنہیں قوم کی خدمت کرنی تھی نشے کے عادی ہوکر ملک و قوم پر بوجھ بن گئے ہیں ۔سندھ بھر کی طرح نواب شاہ میں بھی منشیات نے نوجوانوں کو اپنے جال میں جکڑ کر انہیں ناکارہ بنا دیا ہےجب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ اداروں کی ناک کے نیچے ہونے والے اس قبیح کاروبار جس کے خاتمے کی نوید دو چار مہینے کے بعد پولیس افسران اور محکمہ ایکسائز کے کرتا دھرتاؤ ں کےیخ کمروں میں پرتکلف چائے کے ساتھ صحافیوں سے گپ شپ نما پریس کانفرنس میں سنائی دیتی ہے لیکن عملی طور پر اس کے خاتمے کے لئے جو کہ ہماری نوجوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی ہے۔

کافی عرصے تک اس بارے میں کوششیں کی جاتی رہیں کہ نواب شاہ ضلع سے منشیات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کردیا جائے ، اس سلسلہ میں پولیس نے اپنی سی کوششیں کرلیںاور سابق ایس ایس پی نواب شاہ، تنویر تنیو نے منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجے میں کچی شراب بنانے والے اڈّوں اور چرس ، افیون بیچنے والوں کے خلاف بھرپور کاروائی کی گئی۔ ایک سو سے زائد افراد پر جو کہ اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھے ، ان کے خلا ف مقدمات قائم کئے گئے لیکن ایک منصوبے کے تحت منظم طریقے سے چلنے والے اس کاروبار کے کرتا دھرتا جنہیں صوبےکی انتہائی بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ پولیس کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ کاروبار جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔

کچھ عرصے قبل نواب شاہ میں زہریلی شراب پینے کے باعث ہلاکتوں کا دردناک سانحہ پیش آیا تھا، جہاں کچی شراب پی کر ایک درجن سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس کے باوجود یہ کاروبار اب بھی جاری ہےاورمنی شراب فیکٹریوں میں لگی بھٹیاں شراب کشید کرنے میں مصروف ہیں۔ پولیس کی انتہائی کوششوں کے باوجود ان فیکٹریوں کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس افسران کی تبدیلی کے باوجود اس کاروبار کے کرنے والوں کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کچی شراب جسے حرف عام میں ’’ ٹھرا‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے گاہکوں کی تعداد کا اصل پتہ دن ڈھلنے کے بعد اس وقت لگتا ہے جب منشیات کے عادی افراد،شہر کی نشیبی بستیوں،کچی آبادیوں اور گاؤں گوٹھوں میں نشے میں دھت ہوکر پرواز کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ مناظر عام فرد تو دیکھ سکتا ہے لیکن ہمارے قانون کے رکھوالوں کو شاید نظر نہیں آتے ۔

دوسری جانب، دیگر منشیات جن میں چرس اور افیون شامل ہیں، ان کی فروخت میں بھی نسبتاً کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن اس لعنت کے مکمل خاتمے کی صورت نظر نہیں آتی، البتہ ہر دو چار ماہ بعد محکمہ ایکسائز کی جانب سے کارکردگی دکھانے کے لیے،پریس کانفرنس منعقد کرکے بتایا جاتا ہے کہ ٹرک پر چھاپہ مار کرکروڑوں روپے مالیت کی چرس پکڑی گئی ہے۔ اپنی کارگزاری کی رپورٹ پیش کرنے کے لیےبا قاعدہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہےجس کے اختتام پر صحافیوں کی خدمت کی جاتی ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں سے آنے والی اس منشیات کو جو کہ سکرنڈ کے قریب قومی شاہراہ پر ایکسائز پولیس کے ناکہ پر پکڑنے کا دعوی کیا جاتا ہے، اٹک کے پل سمیت صوبہ خبیر پختونخواہ کے چپہ چپہ پر کھڑی فورسزکے سامنے سے گزر کر آتی ہیں۔

پنجاب پولیس جس کی کارکردگی خیبر پختونخواہ پولیس سے کم درجہ کی نہیں ہے انہیں بھی منشیات سے لداٹرک نظر نہیں آتا اور مذکورہ ٹرک پنجاب کی سرحد عبور کرنے کے بعد سندھ میں داخل ہوکر سکھر کے پل سے بھی باآسانی گزر جاتا ہے ، جو بعدازاں سکرنڈ میں پکڑا جاتا ہے ۔ اس بارے میں باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ دس ٹرک گزار کر ایک ٹرک میں سے چند من منشیات پکڑ کر کارکردگی دکھانے کا کاروبار برسوں سے جاری تھا اور اب بھی جاری ہے اس سلسلے میں افسوس ناک صورت حال یہ ہےکہ اینٹی نارکوٹکس فورس، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی روک تھام کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، جس کے باعث ناخواندہ، مزدوطبقے کے علاوہ یونی ورسٹی اورکالجوں کے طلباء کے ساتھ ساتھ اعلی طبقے کے افراد بھی اس لت میں مبتلا ہورہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔

کچی شراب ،چرس اور افیون کی تباہ کاریوں کے بعد ایک اور زہر جو کہ ناصرف نوجوان لڑکوں، بزرگوں کی زندگیوں میں زہر گھول رہا ہےبلکہ بچیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور وہ ہےبھارت سے اسمگل شدہ گٹکااور مین پوری ہے جو افغانستا ن کے راستے اسمگل ہوکر آتا ہےاور اس کی مرکزی منڈی مبینہ طور سےنواب شاہ میں بتائی جاتی ہے، جہاں کوئٹہ سے نواب شاہ چلنے والی ٹرانسپورٹ کے ذریعے اس زہر کو نواب شاہ میںلایا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے تھر کے دور دراز علاقوں کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس زہر کے استعمال سے ہماری نوجوان نسل کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہی ہے ۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حیدرآباد ،سانگھڑ،نوشہروفیروز، میرپور خاص، مٹیاری و دیگر اضلاع کے موجودہ پولیس افسران نے اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے کہ منشیات کے کاروبار کی بیخ کنی کردیں لیکن اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لعنت کے خلاف بھرپور طریقے سے آپریشن کیا جائے اوراس برائی کے مکمل خاتمے تک اسے جاری رہنا چاہیے۔نواب شاہ کے کینسر اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ منہ اور چھاتی کے کینسر کے مریضوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس میں نوجوانوں کے علاوہ بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں۔

میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر سلیم فیض نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چرس، افیون اور کچی شراب کے علاوہ گٹکا بھی منشیات کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے استعمال سے انسان کا دماغ سن اور صلاحیتیں آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور اس طرح ان اشیاء کا عادی انسان ایک کارآمد کے بجائے ایک ناکارہ انسان کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔