اسکول میں ’پرسنل فائنانس‘ کی تعلیم کی اہمیت

June 28, 2020

صحت مند، خوشحال اور محفوظ زندگی گزارنے کے لیے مالیاتی امور کا علم ہونا بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس کے لیے عموماً ’پرسنل فائنانس‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بجٹ کس طرح بنایا جائے، بچتیں کس طرح کی جائیں، سرمایہ کاری کے بنیادی اصول کیا ہیں اور قرضہ جات کس طرح ہماری زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، وغیرہ۔ یہ وہ بنیادی نظریے ہیں، جن کا علم رکھنا یا ان سے لاعلم رہنا کسی بھی شخص کی زندگی میں خوشحالی یا غربت کا تعین کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات انتہائی اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ بچوں کو ابتدا ہی سے (بالخصوص ثانوی تعلیم کے دوران) ہی ’پرسنل فائنانس‘ کی تعلیم و تربیت فراہم کی جائے۔ ا س حوالے سے مندرجہ ذیل باتیں اہمیت کی حامل ہیں:

ہر چیز پیسے سے جُڑی ہے

ہمارے معاشرے میں کئی بچوں کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد جبکہ کئی بچوں کو دوران تعلیم ہی اپنے مالیاتی وسائل کا خود بندوبست کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی اور ذاتی اخراجات پورے کرسکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کئی بچوں کو صرف 12سال کی کم عمری میںہی مالیاتی امور کو اپنے ہاتھوں میں لینا پڑتا ہے، ایسے میںاس وقت سے لے کر ریٹائرمنٹ کی عمر تک وہ جو فیصلے لیں گے، وہ ان کے مالیاتی امور سے متعلق علم اور پیسوں کی دیکھ بھال کی مہارت پر براہِ راست اثرانداز ہوں گے۔

چاہے انھیں کیریئر سے متعلق کوئی فیصلہ کرنا ہو، شادی کرنا ہو یا دیگر اخراجات ہوں، مالیاتی امور سے متعلق آپ کی سوجھ بوجھ ان تمام فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے بلکہ صرف اہم اور بڑے فیصلے ہی کیوں، مالیات کا ہماری روزمرہ زندگی میں بھی بنیادی کردار رہتا ہے۔ ہم باہر کھانا کھاتے ہیں، سفر کرتے ہیں، خریداری کرتے ہیں اور اس دوران قیمتوں میں کمی کے لیے بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، غرض یہ کہ ہم روزمرہ امور کی انجام دہی میں ہر قدم پر ضروری مالیاتی فیصلے کررہے ہوتے ہیں۔ مالیاتی امور میں تجربے اور علم کی کمی کے باعث ہمارے اکثر نوجوان درست فیصلے لینے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں۔

سروے کیا کہتے ہیں؟

کئی نوجوان افراد محسوس کرتے ہیں کہ عملی زندگی میں تیزی سے ترقی کرنے کے لیے انھیں ہائی اسکول کی سطح پر مالیاتی امور کی بنیادی تعلیم ضرور دی جانی چاہیے۔ امریکا میں ہونے والے ایک سروے میں 63فیصد ہائی اسکول طالب علموں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ’پرسنل فائنانس ایجوکیشن‘ کو ان کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ سروے کے نتائج کے مطابق 30فیصد بچوں کا خیال ہے کہ مالیاتی امور کی تعلیم کا آغاز پرائمری سطح سے شروع ہوجانا چاہیے، 33فیصد کے مطابق ثانوی اسکول، 32فیصد کے مطابق ہائی اسکول جبکہ صرف 5فیصد طالب علموں کے مطابق مالیاتی امور کی تعلیم کالج کی سطح پر دی جانی چاہیے۔

سروے کے نتائج سے قطع نظر یہ کہ تعلیمی نصاب میں ’مالیاتی امور‘ کو کس سطح پر شامل کرنا چاہیے، سروے میں اکثر امریکی اس بات کے حامی ہیں کہ ’پرسنل فائنانس ایجوکیشن‘ کو ’پولیٹیکل ایجنڈا‘ میں شامل ہونا چاہیے۔ سروے میں شامل 77فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اسکول کی تعلیم میں مالیاتی معاملات کو شامل کرنے کے لیے سیاستدانوں کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہیے جبکہ 67فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن میں ایسے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیں گے جو اسکولوں کے نصاب میں ’پرسنل فائنانس ایجوکیشن‘ کو لازمی قرار دے۔

تکلیف دہ نتائج

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ آج کے دور میں ’مالی وسائل‘ بالغ افراد کی زندگیوں میں تناؤ کی اہم وجہ ہیں۔ اس دباؤ کو ہرکوئی محسوس کرسکتا ہے، یہاں تک کہ امیرترین افراد نے بھی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر مالی وسائل کم ہونے کا درد محسوس کیا ہے۔ قرض یا پھر بچتوں کا نہ ہونا، دونوں ہی صورتوں میں ایک شخص کو زندگی میں قابلِ ذکر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کا اثر صرف روزمرہ کے معمولات پر ہی نہیں بلکہ مالیاتی مسائل خراب صحت، ڈپریشن اور دیوالیہ پن کی وجہ بھی بنتے ہیں۔

امریکا کا مرکزی ’فیڈرل ریزرو‘ بینک ہر سال ’رپورٹ آن دی اکنامک ویل بِینگ آف یو ایس ہاؤس ہولڈز‘ نامی سروے کرتا ہے۔ اس سروے کا ایک سوال یہ ہوتا ہے: ’اگر آپ کو 400ڈالر کے غیرمتوقع یا ایمرجنسی اخراجات کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ادائیگی کس طرح کریں گے؟‘ پاکستانی کرنسی میں یہ 65ہزار روپے سے زائد بنتے ہیں۔ بچتوں کے بغیر نوکری سے برخاست کیا جانا یا طبی ایمرجنسی کئی افراد کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اگر زمانہ طالب علمی سے طلبا میں ’ایمرجنسی فنڈ‘ کی اہمیت اجاگر کی جائے تو وہ زندگی کے مشکل وقت کے لیے خود کو بہتر طور پر تیار کرسکتے ہیں۔

زیادہ صحت مند زندگی

سروے کے مطابق 51فیصد Millennialsکا کہنا ہے کہ ’پرسنل فائنانس‘ کی کم علمی ان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مالیاتی تعلیم کے فوائد سے انکار ممکن نہیں:

٭ مالیاتی امور کی تعلیم بچتوں کو فروغ دیتی ہے۔ ذرا تصور کریں، آپ کا اسکول یا کالج جانے والا بچہ ابھی سے مستقبل کے لیے پیسے بچانے کا آغاز کردے۔ ذرا تصور کریں، اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا۔

٭ بجٹ سازی آپ کو ذمہ دار بناتی ہے۔ جب ایک مہینے میں آپ ایک محدود آمدنی حاصل کرتے ہیں تو لامحالہ آپ کو اپنے اخراجات پر نظر رکھنا پڑتی ہے، اس طرح آپ کو پیسے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کہاں خرچ کیا جانا ہے اور کہاں نہیں۔