گزشتہ دنوں کراچی میں پیش آنے والے طیّارے کے الم ناک حادثے کے بعدجو تحقیقات شروع ہوئیں انہوں نے نئے پنڈورا بکس کھولے۔اس ضمن میں ایئر ٹریفک کنٹرولرز،سی اے اے اور پائلٹس کے کردار بھی موضوعِ بحث ہیں۔اور اب تو پائلٹس کے لائسنسز پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔تیکنیکی معاملات پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ذیل میں ہم نے ان میں سے بعض سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنا اور کمرشل پائلٹ کی حیثیت سے ملازمت (بالخصوص پی آئی اے میں) صرف طبقہ اشرافیہ کے لوگوں کے بس کی بات ہے۔ پی آئی اے کے ایک سابق پائلٹ کے بہ قول یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ پہلے کی طرح آج بھی ہوا بازی کی تربیت بہت منہگی ہے۔پی آئی اے میں پائلٹ کی حیثیت سے ملازمت حاصل کرنے کے لیے پہلے بھی بہت سفارش کی ضرورت ہوتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔کسی زمانے میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنے پر 500روپے فی گھنٹہ کے حساب سے خرچ ہوتے تھے۔ لیکن آج یہ رقم بہت بڑھ چکی ہے ۔ کُل 200گھنٹے کی تربیت لازم ہوتی ہے۔ پیسہ ہو تو یہ تربیت چھ ماہ میں مکمل ہوجاتی ہے۔ بعض افراد پیسے کی کمی کی وجہ سے وقفوں میں یہ تربیت کئی برس میں مکمل کرتے ہیں۔
پائلٹس، دباو اور صحت
پالپا کے ایک عہدے دار کے مطابق پی آئی اے میں ہر طرح کے جہاز اڑانے والے پائلٹ کی ڈیوٹی دس گھنٹے مقرر ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات اور دبئی کی ایئرلائنز میں رات کے اوقات میں پائلٹ کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے اور دن کے اوقات میں بارہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ برطانوی ایئرلائن میں پچپن برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد پائلٹ کی ڈیوٹی کے اوقات میں کمی کردی جاتی ہے۔ یہاںساٹھ برس کی عمرکو پہنچنے کے بعد پائلٹس کو کنٹریکٹ پر ملازم رکھا جاتا ہے اور ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ 2010 میں وزارت دفاع میں پی آئی اے کی انتظامیہ اور پالپا کے عہدے داران کے اجلاس میں سیکریٹری دفاع نے پالپا کی اس بات کی توثیق کی تھی کہ حفاظت کو آمدن پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ نومبر 2009ء میں پالپا اور پی آئی اے کے درمیان چودہ سال بعد ورکنگ ایگری منٹ پر دست خط ہونے تھے۔
اپریل 2010ء تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو پالپا نے انتظامیہ سے تعاون کم کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس سے قبل پائلٹس دس،بارہ گھنٹے تک فرائض انجام دیتے تھے تاکہ انتظامیہ کی مشکلات کم ہوسکیں۔ قواعدو ضوابط کے مطابق ہر پائلٹ کو ایک پروازکے بعد دگنا آرام ملنا چاہیے۔ پرواز سے بارہ گھنٹے قبل اسے اطلاع ملنی چاہیے اور دس دن کی چھٹی ملنی چاہیے۔ پہلے پائلٹس ان نکات پر انتظامیہ سے تعاون کرلیتے تھے، لیکن پھر انہوں نے حفاظتی نقطۂ نظر سے تعاون کی سطح کم کر نے کے بارے میں سوچا۔
اس کے پس منظر میں بعض خطرناک واقعات تھے۔اس وقت پی آئی اے کے دو پائلٹس کو قلب و شریان کے عارضے کی وجہ سے اسسٹنٹ (اسپرنگ) لگے اور وہ چھ تا نو ماہ کے لیے گرائونڈ کردیے گئے تھے۔ چار تا پانچ سینیئرپائلٹس طبی وجوہ کی بناء پر گرائونڈ ہوگئے تھے۔ یہ سب تنائو اور تھکن کی وجہ سے ہورہاتھا۔ بعض پائلٹس ضرورت کے تحت زیادہ کام کررہے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ سفرکرنے والے 300 مسافروں کا کیا قصور ہے؟
کہا جاتا ہے کہ پائلٹس اپنے مفاد کے لیے گوسلو کی پالیسی اختیارکرتے ہیں اور جب انتظامیہ سے معاملات طے ہوجاتے ہیں تو انہیں مسافروں کی جانوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔پالپا کے عہدے دار اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہم مسافروں کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔چند برس قبل پی آئی اے کی برمنگھم سے اسلام آباد آنے والی فلائٹ پر فرسٹ آفیسر کی طبیعت خراب ہوگئی تھی، وہ پرواز کے دوران لیٹے رہے۔ اسلام آباد پہنچنے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ مارگلہ کی پہاڑی پر جو حادثہ پیش آیا، اس سے چند یوم قبل پالپا نے پی آئی اے کی انتظامیہ کو حفاظتی نقطۂ نظر سے متنبہ کیا تھا۔2010کی بات ہے کہ مسافروں کی حفاظت کے نقطۂ نظرسے ایک فرسٹ آفیسر نے لندن جانے والی فلائٹ پر فرائض انجام دینے سے انکار کردیا تھا۔
پالپا کے مطابق اسے مسافروں کی حفاظت کا بہت خیال رہتا ہے، لیکن ملتان میں فوکر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے اور اس الم ناک حادثے کے ذمے داروں کو سزا دلانے کے لیے پالپا نے بھرپور انداز میں آواز بلند نہیں کی تھی۔ اس بارے میں ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہم نے تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لانے کے لیے آواز بلند کی تھی، لیکن اس وقت ہماری تنظیم ادارے میں معطل تھی اور انتظامیہ ہماری بات نہیں سنتی تھی۔ وہ حادثہ گرمیوں میں پیش آیا تھا۔ اس بدقسمت طیارے پر مقررہ حد سے زیادہ آم کی پیٹیاں لاد دی گئی تھیں۔ گرمی کی وجہ سے انسان کی کارکردگی میں فرق آجاتا ہے۔
اس طیارے کا کپتان تھکا ہوا تھا کیوں کہ اس نے پرواز کے بعد مقررہ وقت تک آرام نہیں کیا تھا۔ اسے یہ کہہ کر طیارہ اڑانے کے لیے طلب کیا گیا تھا کہ دوسرا پائلٹ دست یاب نہیں ہے۔ پھر یہ کہ فرسٹ آفیسر نیا تھا۔ ہم سانحہ مارگلہ اور سانحہ کراچی کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں۔ لیکن جامع تحقیقات کے بغیر فوراً کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے اور غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہم تو کریو کو بھی اچھی تربیت اور عزت دینے کی بات کرتے ہیں۔
جہاز اُڑانے والوں کو تمباکو نوشی نہیں کرنی چاہیے اور کسرت کرتے رہنا چاہیے، لیکن ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوتے دیکھی گئی ہے۔پائلٹ کی فٹنیس اور مہارت کس طرح جانچی جاتی ہے؟یہ سوال پی آئی کے ایک پائلٹ سے کیا گیا تو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے ہر پائلٹ کا ہر چھ ماہ بعد مکمل طبی معائنہ اور فلائنگ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ ترقی کے لیے بھی پائلٹس کو مقررہ معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے۔ کسی طیارے کی مکمل کمان سنبھالنے کے لیے ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس اور مؤثر طبی سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض کپتان تمباکو نوشی کرتے ہیں اور باقاعدگی سے کسرت نہیں کرتے، تاہم ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مراعات
کمرشل پائلٹ کی تنخواہ اور اسے ملنے والی مراعات کے بارے میں بتایا گیا کہ 1986ء میں فوکر طیارے پر فرسٹ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والوں کی ابتدائی ماہانہ تنخواہ 5000 روپے تھی اور کل ملا کر اسے ماہانہ6000روپے ملتے تھے۔ اس وقت بوئنگ طیارے کے مکمل کپتان کو تقریباً 50,000روپے تنخواہ ملتی تھی۔ آج کل کپتان کو ماہانہ 4لاکھ روپے سے زاید تنخواہ اور اندرون ملک پروازپر تقریبا دوسو روپ ے فی گھنٹہ اور بین الاقوامی پرواز پرڈیڑھ تا دو سو ڈالرز فی یوم کے حساب سے آئوٹ اسٹیشن الائونس ملتا ہے۔پینتیس سال کی ملازمت والے پائلٹ کو ماہانہ پانچ لاکھ روپے سے زاید تنخواہ اور الائونسز کی مد میں تقریباً چھ سوڈالرز ماہانہ ملتے ہیں۔ چھوٹے طیارے کے پائلٹ کو ماہانہ دو لاکھ روپے سے زایدملتے ہیں۔ ہر کپتان کو اس کی مہینے بھر کی پروازوں کا شیڈول مل جاتا ہے۔
سیکڑوں مسافروں سے بھرے ہوئے طیارے کے کاک پٹ میں بیٹھ کرکیسا لگتا ہے؟اس سوال کے جواب میں ایک پائلٹ کا کہنا تھا کہ کاک پٹ کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے کام میں پوری طرح مہارت حاصل ہوتو ڈر نہیں لگتا۔ تاہم، کسی بھی پروفیشنل کی طرح پائلٹ کو بھی حد سے زیادہ خود اعتماد نہیں ہونا چاہیے اور سیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
شان دار ماضی، خستہ حال
پی آئی اے کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا اور آج وہ تباہی کا شکار ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟اس بارے میں کہا گیا کہ اس کی وجہ نان پروفیشنل لوگوں کو اعلیٰ عہدے دینا ہے۔1967ء میں یہ ادارہ دنیا میں پہلے نمبر پر تھا۔ پھرکافی عرصے تک دس بہترین ایئر لائنز میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ان دنوں ایئرمارشل نور خان اور پھر سہگل صاحب چیئرمین تھے، جو کارکنوں سے محبت کرتے تھے اور ان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ حق دارکو اس کا حق ملے اور لوگوں کو میرٹ پر آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تو ایک بار پھر یہ ادارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے۔
ایک خطرناک پہلو
بتایا گیا کہ پی آئی اے کے بعض پائلٹس پی آئی اے اوربعض نجی ایئر لائنز کے پائلٹس کو تربیت دے رہے ہیں۔ بہ ظاہر یہ کوئی اہم بات نہیں لگتی، لیکن شہری ہوابازی کے شعبےسے وابستہ افراد کےلیےیہ بہت خطرناک عمل ہے، کیوں کہ پی آئی اے اور ان ایئرلائنز کے طیارے علٰیحدہ اقسام کے ہیں، لہٰذا کسی وقت تربیت دینے والا کوئی غلطی کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کا ذہن دو طیاروں کی ٹیکنالوجیز اور کنٹرولزکے درمیان تقسیم ہوتا ہے ۔ وہ تربیت کے دوران علیٰحدہ علٰیحدہ نکتوں کو خلط ملط کرسکتا ہے۔ تربیت پانے والے اگر پرواز کے دوران اس کی کسی خلط ملط بات پر عمل کریں گے تو بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔
ٹرانزیشن ٹریننگ
مارگلہ کی پہاڑیوں پر پیش آنے والے طیّارے کے حادثے کے بعد بعض تیکنیکی ماہرین کا یہ نقطہ نظر سامنے آیا تھا کہ وہ حادثہ ممکنہ طورپر ونڈشیئر کی وجہ سے پیش آیا تھا ۔ اس بارے میں ایک پائلٹ کا کہنا تھا کہ ونڈ شیئر دراصل ہواکی سمت اور رفتار میں اچانک تبدیلی آنے کا نام ہے۔ مائیکرو برسٹ بنیادی طور پر جہاز کو زمین کی طرف دھکیلنے والی ہوا کو کہتے ہیں۔ ان دونوں صورت حال سے نمٹنے کے لیے پائلٹس کو سیمولیٹرز کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن پائلٹ کی ٹرانزیشن یا ری کرنٹ ٹریننگ میں یہ شامل ہے یا نہیں، سی اے اے کے حکام کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے ۔
یہ تربیت ایک قسم کا جہاز اڑانے کے بعد دوسری قسم کا جہاز اڑانے کے خواہش مند پائلٹس کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ وہ دونوں جہازوں میں فرق کو سمجھ سکیں اور نئے جہاز کے ماحول میں ذہنی طور پر خود کو ایڈجسٹ کرسکیں۔ مختلف حلقوں کا سوال ہے کہ سی اے اے لوگوں کو شفاف انداز میں یہ بتائے کہ اس کورس کے خدوخال کون طے کرتا ہے۔ سی اے اے اگر اس کورس کی منظوری دیتا ہے تو کیا اس کے پاس ایسا عملہ ہے جو اس کام کا مناسب تجربہ رکھتا ہو۔
طویل عرصے سے جہازوں کی ٹیکنالوجی میں روز بہ روز بہتری آرہی ہے اور بہت سے جہاز بہت سے ہنگامی حالات سے خود کار نظام کے تحت خود نمٹ لیتے ہیں۔ مثلاً بوئنگ 777 اور ایئر بس۔ لیکن یہاں تربیت کے دوران پائلٹس سے کہا جاتا ہے کہ وہ سیمولیٹر پر ہنگامی لینڈنگ کرکے دکھائیں،جب کہ خود بوئنگ کمپنی کہتی ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ کمپنی نے جہاز میں ایسے حالات کے لیے بیک اپ کا انتظام کر رکھا ہے۔
لائسنسنگ کا طریقہ
پائلٹ کی تربیت اور لائسنسنگ پر اٹھنے والے سوالات کے ضمن میں بتایا گیا کہ کوئی نئی قسم کا جہاز اڑانے کے لیے تجربے کار کپتان کو بھی پہلے گرائونڈ ٹریننگ، پھر ٹیسٹ، پھر سیمولیٹر ٹریننگ اور پھر سی اے اے کے انسپکٹر کے چیک کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد اسے اس جہاز پر ٹرینی کیپٹن کا درجہ ملتا ہے، جس کے بعد اسے پچاس گھنٹے اڑان بھرنا ہوتی ہے اور چھ ٹیک آف اور لینڈنگ کرنا ہوتی ہے، تب کہیں جاکر اسے مکمل کپتان کا درجہ ملتا ہے، وہ بھی انسٹرکٹر کے اطمینان کے بعد۔ پھر یہ کہ ہر ایئرلائن کا اپنا طریقہ اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔
جونیئر اور سینئر
فلائٹ اسٹینڈرڈز کے مطابق تجربے کار کپتان کے ساتھ تھوڑا جونیئر فرسٹ آفیسرکام چلا سکتا ہے، لیکن جونیئر کپتان کے ساتھ سینئر فرسٹ آفیسر ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جونیئر کپتان کو رات کی پروازیں نہیں دینی چاہیں اور کٹھمنڈو جیسے خطرناک ایئرپورٹ پر جہاز اتارنے کا موقع شروع میں نہیں دینا چاہیے، لیکن یہاں لوگ یہ باتیں بھول چکے ہیں۔ سی اے اے اور پی آئی اے کے بعض حکام ایسے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے آئے روز اصول و ضوابط تبدیل کرتے رہتے ہیں اور بعض ایسے اصول و ضوابط بنا دیے گئے ہیں جو عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔
مثلاً پہلے اے ایل او تھری الفا تھا ،لیکن پھر اسے تبدیل کرکے اے ایل او 5کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی کیا ضرورت تھی؟ اس تبدیلی کے بعد سنگل سیٹ کیبن کریو کی ڈیوٹی بارہ گھنٹے کردی گئی ۔یہ زیادہ وقت ہے۔ایسا کبھی کبھار ہوسکتا ہے لیکن اسے معمول نہیں بنانا چاہیے۔ پی آئی اے نے جب یہ وقت بڑھایا تو سی اے اے نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لہٰذا پاکستان کی ہر ایئر لائن میں یہ ہی اوقات نافذ کردیے گئے جو خطرناک بات ہے۔پالپانے انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئرلائن پائلٹس کو 2010ء اور 2011ء میں اس بارے میں خطوط لکھے تھے، لیکن یہاں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔
کپتان اور فرسٹ آفیسر کے تعلقات کے ضمن میں ایک کپتان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کپتان فرسٹ آفیسر کو پرواز کے دوران دبائو میں نہیں لاسکتا۔چند برس قبل پی آئی اے کا طیارہ دمام ایئرپورٹ پر لینڈنگ کرنے والا تھا، لیکن اس کا فرسٹ آفیسر کپتان کے اپروچ بنانے کے عمل سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا، لہٰذا اس نے کنٹرول ٹاور کو مطلع کرکے جہاز کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر جہاز کو اوپر اٹھا دیا تھا۔پھر اس نے جہاز کو فضا میں چکر دینے کے بعد مناسب طریقے سے اپروچ بنائی اور کنٹرول کو مطلع کرکے جہاز کا کنٹرول کپتان کے حوالے کردیا تھا، جنہوں نے محفوظ طریقے سے جہاز کو ایئرپورٹ پر اتارا تھا۔ وہ ایئربس 310 تھی۔
گراؤنڈ پراکسی میٹری وارننگ سسٹم
بعض تیکنیکی ماہرین کے بہ قول مارگلہ کا سانحہ ممکنہ طور پر ونڈشیئر کی وجہ سے پیش آیا ،کیوں کہ نہ بدقسمت جہاز میں اور نہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ونڈشیئر کا پتا لگانے کے آلات نصب تھے۔ یہ آلات پائلٹس اور گرائونڈ کنٹرولرز کو بروقت ونڈ شیئر کی اطلاع دیتے ہیں۔ ونڈشیئر دراصل ایک موسمیاتی مظہر ہے جس میں ہوا کے بہاؤ میں تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں، عموماً یہ دبائو نیچے کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ کی تیاری کرنے والا طیارہ اپنی رفتار اور بلندی کھو دیتا ہے۔اگریہ ثابت ہوجاتا تو وہ پاکستان میں ونڈ شیئر کی وجہ سے پیش آنے والا پہلا فضائی حادثہ ہوتا۔
گرائونڈ پراکسی میٹری وارننگ سسٹم ونڈشیئر کے بارے میں بھی اطلاع دیتا ہے۔ پی آئی اے کے طیاروں میں انہانسڈ پراکسی میٹری سسٹم نصب ہیں۔ لیکن کیا بھوجا کے طیارے میں ونڈ شیئر کی اطلاع دینے والا نظام نہیں تھا۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ اس کا انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم خراب تھا اور وہ ویری ہائی اونلی ڈائریکشنل رینج کے ذریعے اپروچ بنا رہا تھا۔ یہ آئی ایل ایس سے کم تر درجے کا نظام ہے۔
ایئر بس اوربوئنگ 737
کمرشل طیاروں کی ساخت، ان کے نظام اور صلاحیتوں سے پوری طرح واقف افراد کے مطابق بوئنگ 737 کوئی ناقص یا کم زور طیارہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سیکڑوں ایئرلائنز اس کے ماڈل نمبر 200، 300اور 400 بڑی تعداد میں آج بھی استعمال کررہی ہیں۔ امریکا میں اندرون ملک سفر کی خدمات فراہم کرنے والی ایئرلائنز ایسے سیکڑوں طیاروں کی مالک ہیں۔ تیکنیکی لحاظ سے قابل بھروسا ہونے اور فلائٹ سیفٹی کے ضمن میں اس طیارے کا ریکارڈ غیر معمولی ہے، لہٰذا اس کے ستّائیس برس پرانے ہونے کوکسی حادثے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ایئر بس اس سے بھی زیادہ محفوظ اور قابلِ بھروسا طیّارہ تصوّر کیا جاتا ہے۔
سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز،پاکستان،کے ایک عہدے دارکے مطابق دنیا بھر میں مسافر بردار طیاروں کے جتنے بھی حادثات ہوتے ہیں، ان کے بارے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان میں سےنوّے فی صد انسانی غلطیوں اوردس فی صد خراب موسم کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل حادثے کا شکار ہونے والا جہاز کافی پرانا تھا ،جس میں پرانی طرز کے آلات نصب تھے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خراب موسم کا شکار ہوا۔ تاہم مارگلہ ہلز والا حادثہ شاید انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا۔ گرائونڈ لیول پر بھی انسانوں سے غلطیاں ہوسکتی ہیں۔
ایک اسکریو یا نٹ نہ لگنے کی وجہ سے پورا طیارہ تباہ ہوسکتا ہے۔ حالیہ حادثے میں طیارہ نسبتاً کم بلندی پر تھا۔ایسی حالت میں آٹو تھروٹل انجن کو پوری رفتار سے چلانے کے لیے آن ہوجاتے ہیں، لیکن شاید یہ بدقسمت طیارہ زمین سے بہت کم بلندی پر آچکا تھا اور اسے ریکوری کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ کسی طیارے کے محض پرانا ہونے کو حادثے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر قواعد و ضوابط کے مطابق اس کی دیکھ بھال کی جائے تو وہ ایئروردی رہ سکتا ہے۔ تاہم پرانے طیاروں کی دیکھ بھال پر اخراجات وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔
طیّارے کے ضروری چیکس
کسی طیارے کے ایئروردی ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرنا سی اے اے کی بنیادی ذمے داری ہے اور وہ اس کے لیے ہر سال معائنہ کرنے کے بعد سر ٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ تاہم سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد طیارے کو اڑان کے قابل رکھنے کی ذمے داری متعلقہ ایئرلائن کی ہوتی ہے۔ یہ ذمے داری ہر ایئرلائن کے انجینئرزعالمی ضابطوں اور قاعدوں کے مطابق ضروری چیکس کرکے ادا کرتے ہیں۔ ہر طیارہ ساز کمپنی یہ بتاتی ہے کہ کتنے گھنٹے اڑان بھرنے کے بعد کون سا چیک، انسپکشن اور ترمیم و تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن ایسی اطلاعات ہیں کہ بعض نجی ایئرلائنز کاغذوں میں بعض اندراجات کردیتی ہیں مگر عملاً وہ کام نہیں ہوتا۔
یہ حرکت اس وقت نظروں میں آتی ہے جب کوئی گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔ طیارے کی انجینئرنگ کے کاموں سے وابستہ کوئی بھی فرد جان بوجھ کر کبھی کوئی غلطی یا کوتاہی نہیں کرتا، کیوں کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے یعنی انسانی جانوں سے کھیلنا۔ اگر اس کا جان بوجھ کر ایسا کرنا ثابت ہوجائے تو نہ صرف اسے سزا ہوسکتی ہے بلکہ اس کا لائسنس بھی منسوخ ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں جب کسی سویلین طیارے کا حادثہ ہوتا ہے تو ایئرکرافٹ انجینئرز کی راتوں کی نیند اڑجاتی ہے۔
بتایا گیا کہ بعض نجی ایئرلائنز طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام ایسے اداروں سے کراتی ہیں جو نسبتاً کم معاوضہ لیتے ہیں، لیکن پھر وہ کام بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔ یہاں ایک نجی ایئر لائن کا چند برس قبل حادثے کاشکار ہونے والا جہاز جنوبی افریقا کے ادارے سے ویٹ لیز پر لیا گیا تھا ، لہٰذا اس کی دیکھ بھال اور مرمت کی ذمے داری لیز دینے والے ادارے کی تھی۔ ڈرائی لیز میں یہ ذمے داری آپریٹر کی ہوتی ہے۔
نجی ایئرلائنز طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کے بعض بڑے کام پی آئی اے اور بیرونی ممالک کے اداروں سے کراتی ہیں۔ چھوٹے موٹے کام کے لیے ان کے اپنے انجینئرز ہوتے ہیں۔ ہیوی مینٹی نینس کاکام سی چیک سے شروع ہوجاتا ہے، جسے مکمل ہونے میں دو تا تین ہفتے لگتے ہیں۔ طیاروں کے اے تا ڈی چیکس ہوتے، جن میں ڈی چیک سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اگرایئر بس کو ڈی چیک سے گزارا جائے تو اسے مکمل ہونے میں ڈیڑھ تا دو ماہ لگتے ہیں۔
ایک ایئر کرافٹ انجینئرکے بہ قول سویلین طیاروں کے لینڈنگ گیئرز کا نہ کھلنا یا ان کے انجن سے کبھی شعلہ نکلنا دنیا بھر میں کوئی زیادہ تشویش ناک بات نہیں سمجھی جاتی۔ جہازکے انجن میں دورانِ پرواز مسلسل آگ جلتی رہتی ہے ، کبھی انجن میں زیادہ ایندھن آجانے یا طیارے کی رفتار بڑھانے سے شعلہ نظر آجاتا ہے۔
لینڈنگ گیئر کھولنے کے لیے الیکٹرانک آلات کے ذریعے ہائیڈرالک نظام کو پیغام دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ان میں سے کوئی ایک نظام کام نہیں کرتا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ لینڈنگ گیئر کو مینول طریقے سے بھی کھولا جاسکتا ہے۔ سویلین طیارے بہت سے اور کئی سطح کے حفاظتی انتظامات کے ساتھ بنائے جاتے ہیں۔ ان میں دو سے تین متبادل نظام ہوتے ہیں۔ جہازکے اچانک انسپیکشن سے بھی بعض خرابیاں یا نقائض پکڑ میں نہیں آتے۔