اٹھارہویں ترمیم: پختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں ڈٹ گئیں

July 02, 2020

سیاسی جماعتوں نے اٹھارہویں ترمیم اورصوبوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے متحد ہو کر مشترکہ طور پر مزاحمت کرنے اور احتجاج کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اے این پی، قومی وطن پارٹی، پیپلز پارٹی اور پختونخوا جمہوری اتحاد کی پانچ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگر اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑا گیا اور فرد واحد کی حکمرانی کے لئے صوبوں کے حقوق چھینے گئے تو اس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن سڑکوں پر ہوں گے۔ دما دم مست قلندر ہو گا اور عوام دشمن حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ وزیراعظم کی طرف سے اٹھارہویں ترمیم پر نظر ثانی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے اور صوبوں کے اختیارات کم کرنے کے ریمارکس کے خلاف ہونے والے اجلاس سے اے این پی کے بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر الحاج غلام احمد بلور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاق اٹھارہویں ترمیم سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی کرپشن سے دیوالیہ ہوا ہے۔ پاکستان چار اکائیوں پر مشتمل فیڈریشن ہے۔

فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے لئے چاروں اکائیوں کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور چاروں صوبوں کے منتخب نمائندوں کی طرف سے صوبوں کے احساس محرومیوں کے خاتمے اور فیڈریشن کے استحکام کے لئے متفقہ طور پر آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری دی گئی اگر فرد واحد کی حکمرانی کے لئے اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑا گیا این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے فنڈز کم کئے گئے تو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے سختی سے مزاحمت کی جائے گی جس سے ملک بدترین سیاسی و آئینی بحران سے دو چار ہو جائے گا۔ دما دم مست قلندر ہو گا اور عوام دشمن حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ اے این پی اٹھارہویں ترمیم پر نظر ثانی کے لئے بات چیت کے لئے تیار نہیں تاہم اے این پی وفاقی حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات کی کمی کے سلسلے میں بات چیت کے لئے تیار ہے۔ وفاق اٹھارہویں ترمیم سے کمزور نہیں ہوا بلکہ حکمرانوں کی کرپشن لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں سے وفاق کمزور ہوا ہے۔

اگر اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑا گیا صوبوں کے فنڈز کم کئے گئے اور صوبوں کے حقوق چھینے گئے تو پھر چھوٹے صوبوں کی طرف سے 1940کو قرارداد پاکستان کے مطابق نئے عمران معاہدے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ عمران نیازی کو فرد واحد کی حکمرانی اور اختیارات کی ہوس کے لئے قومی سلامتی کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں اضافہ نہ کرنے، غربت و بے روزگاری و مہنگائی کے خاتمے کے لئے اقدامات نہ کرنے اور غریبوں کو ریلیف نہ دینے کے خلاف خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین اساتذہ بزرگ پنشنرز اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ملازمین کی طرف سے صوبے بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ کرک، کوہاٹ اور ہنگو کے تین اضلاع کے عوام کی طرف سے اپنے مطالبات کے سلسلے میں کئی روز سے احتجاج جاری ہے جبکہ تینوں اضلاع سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے تین ارکان کی طرف سے احتجاجاً صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ جاری ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ترقیاتی فنڈز کے سلسلے میں اپوزیشن کو نظر انداز کرنے اور اپوزیشن سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں احتجاج جاری ہے اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ڈھول بجائے جاتے ہیں اور سیٹیاں بجائی جاتی ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان اسمبلی سے ناانصافی نامنظور، یہ کیسی تبدیلی ہے ہر طرف تباہی ہے۔ آٹا چور حکمران ہائے ہائے چینی چوری حکمران ہائے ہائے پٹرول چور حکمران ہائے ہائے مہنگائی نامنظور اور مافیا کی سرپرستی نہ کرو کے زور دار نعرے لگائے جاتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ارکان اسمبلی کی طرف سے کہا گیا کہ آمر پرویز مشرف کے چہتےاور جنرل پرویز مشرف کو آئینی توڑنے کے جرم میں سزا سے بچانے کے لئے پرویز مشرف کی وکالت کرنے والے فروغ نسیم عمران خان کے بھی چہتے بن گئے ہیں۔

پرویز مشرف کی خوشنودی کے لئے فروغ نسیم کو وفاقی وزیر قانون بنا دیا گیا ہے جبکہ وزیر قانون نے کبھی وزیر کے طور پر کام کرنے اور کبھی مستعفی ہو کر حکومت کی وکالت کرنے کا تماشہ لگایا ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاقہ تہکال میں پولیس کی طرف سے عامر تہکالی کو گرفتار کر کے اسے پولیس سٹیشن میں ننگا کر کے اس پر وحشیانہ شتدد کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر سیاسی جماعتوں ارکان اسمبلی سول سوسائٹی، وکلا اور عوام کے احتجاج کا دائرہ صوبے بھر میں پھیل گیا ہے۔ پشاور میں احتجاجی مظاہرے کے موقع پر حکومت کی طرف سے مظاہرین پر تشدد، آنسو گیس کے بے تحاشا استعمال اور لاٹھی چارج سے کئی مظاہرین زخمی ہوگئے۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس گردی نامنظور ، غنڈہ گردی نامنظور، یہ کیسی تبدیلی ہے ہر طرف تباہی ہے اور قانون کے محافظ قانون کے قاتل بن گئے کے نعرے لگائے گئے ۔ پولیس کی طرف سے پچاس مظاہرین کو گرفتار کریلا گیا۔

عوام کے بڑھتے ہوئے دبائو کے بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر ثنا اللہ کی طرف سے واقعہ میں ملوث پولیس افسروں کو معطل کر دیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ محمود خان کی طرف سے واقعہ کی جوڈیشنل انکوائری کرنے کے سلسلے میں احکامات جاری کر دیئے گئے ۔ خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی وکلا، عوام، سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے سابق چیئرمین اور کامرس و انڈسٹری سارک کے مرکزی نائب صدر حاجی غلام علی ، جے یو آئی کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولانا امان اللہ حقانی، قومی جرگہ کے سربراہ خالد ایوب، صوبائی اسمبلی کے سابق ارکان عطیف الرحمان خلیل، یاسین خلیل، عالمگیر خلیل اور سابق صوبائی وزیر کاشف اعظم چشتی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگر عام تہکالی پر تشدد میں ملوث پولیس افسروں کو مثالی سزا دینے کی بجائے بچانے کی کوشش کی گئی اور ان کو عبرتناک سزا نہ دی گئی تو صوبے بھر میں دھرنوں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین و سابق صوبائی سینئر وزیر سکندر حیات خان شیرپائو، اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام، صوبائی جنرل سیکرٹری مرتضیٰ جاوید عباسی، صوبائی سینئر نائب صدر اشد محمود خان بابوزئی اور صوبائی نائب صدر خانم اللہ خان ایڈوکیٹ کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس گردی کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔ خیبر پختونخوا میں صوبے کے حقوق کے لئے دلیرانہ جدوجہد سے قومی وطن پارٹی کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے ۔