معصوم چور

July 04, 2020

امتیاز متین

’’آج لنچ کے لئے تم کس قسم کا سینڈوچ لائے ہو؟ ‘‘جواد نے پوچھا

’’پی نٹ بٹر اور کیلے کا۔‘‘ عاصم نے اپنا لنچ باکس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’ارے!! ‘‘لنچ باکس کھولتے ہی عاصم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’’میرا سینڈوچ کہاں گیا؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ ماماآج میرا سینڈوچ پیک کرنا بھول گئیں۔‘‘

’’میرا سینڈوچ، مونگ پھلی کے مکھن اور کیلے کا تو نہیں البتہ پنیر کا ہے، تم میرے چیز سینڈوچ میں سے آدھا کھا سکتے ہو۔‘‘ جوادنے اپنا سینڈوچ عاصم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ۔‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد عاصم کی امی گاڑی میں بیٹھی ہوئی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔

’’ماما !‘‘ عاصم نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آج آپ میرا سینڈوچ پیک کرنا بھول گئی تھیں۔‘‘

’’بھول گئی تھی؟ ـــــ میں نے تو بسکٹ اور گاجر کے ساتھ رکھا تھا ۔‘‘ عاصم کی امی نے کہا۔

’’لیکن لنچ باکس میں تو نہیں تھا۔‘‘ عاصم نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’آئی ایم سوری بیٹا، کل تمہیں تمہارا پسندیدہ سینڈوچ مل جائے گا۔ ‘‘ماما نے کہا۔

اگلے دن اسکول کی کینٹین میں جواد نے عاصم سے پوچھا۔’’ کیا آج تم اپنا پسندیدہ پی نٹ بٹر اور کیلے کا سینڈوچ لائے ہو؟‘‘

’’ہاں ـــــ ماما نے اسے میرے سامنے پیک کیا ہے۔ عاصم نے یہ کہتےہوئے اپنے لنچ باکس کھولا۔

’’مجھے یقین نہیں آرہا!!‘‘ عاصم نے کہا۔’’ میرا سینڈوچ آج پھرغائب ہوگیا ہے۔‘‘

’’ہاں بھئی یہاں تو صرف گاجر اور بسکٹ ہی رکھے ہوئے ہیں۔ تم میرا آدھا سینڈوچ کھالو۔‘‘ جواد نے کہا۔

’’لیکن مجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میرے سینڈوچ کہاں جارہے ہیں؟‘‘

’’کل میں اس بات کو زیادہ غور سے دیکھوں گا۔‘‘

اگلے دن جب عاصم اسکول آیا تو اس نے سب لوگوں کے سامنے اپنا لنچ باکس کلاس روم میں سامنے کی طرف ایک کونے میں رکھی ہوئی میز پر رکھ دیا، تاکہ پوری کلاس کو نظر آتا رہے۔ اور وہ خود بھی اپنے لنچ باکس کی نگرانی کرتا رہا۔

اسپورٹس کے پیریڈ کے لیے جب سارے بچے قطار بنا کر کلاس سے باہر جانے لگے تو عاصم قطار کے آخر میں کھڑا ہوگیا، تاکہ یہ اطمینان کر سکے کہ ہر بچہ کلا س رُوم سے باہر جا چکا ہے۔جواد دروازے کے باہر کھڑا ہوا عاصم کا انتظار کر رہا تھا، عاصم کے باہر آنے پر اس سے پوچھا۔’’ کلاس روم خالی ہوگیا؟‘‘

عاصم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں! چلو پیچھے کی کھڑکی سے چھپ کر جھانکتے ہیں۔‘‘

دونوں پچھلی کھڑکی سے چھپ چھپ کر کلاس میں جھانک رہے تھے اور عاصم کا نیلا لنچ باکس سامنے رکھا ہوا نظر آرہا تھا۔

’’کوئی آرہا ہے۔‘‘ عاصم نے سرگوشی کی۔انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ خاموشی سے کلاس روم میں آیا اور اس نے عاصم کے لنچ باکس میں سے سینڈوچ نکال لیا اور اپنی جیب سے ایک کاغذ کی تھیلی نکال کر اس میں رکھ لیا۔

’’یہ کون ہے؟ ‘‘جواد نے پوچھا

’’میرا خیال ہے یہ توحید ہے، لیکن یہ میرے سینڈوچ کیوں چرا رہا ہے؟ ‘‘عاصم نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

’’میرا خیال ہے کہ اس کی امی اسے پیسے نہیں دیتی ہوں گی۔‘‘ جواد نے کہا۔ ’’ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کینٹین میں کچھ خرید کر کھانے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے ہوں گے۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ اب تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟‘‘

’’معلوم نہیں ــــــــ لیکن تم اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا، میں خود ہی توحید سے نمٹ لوں گا۔‘‘ عاصم نے کہا۔

اگلے دن اسپورٹس کے پیریڈ میں جواداور عاصم پھر پچھلی کھڑکی کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ توحید نے لنچ باکس میں سے ایک سینڈوچ نکال کر اپنی تھیلی میں رکھا ۔

’’ وہ تمہارا سینڈوچ مزے سے چرا رہا ہے اور تم یہاں خاموش کھڑے تماشا دیکھ رہے ہو۔ چلو چل کر اسے سبق سکھاتے ہیں۔‘‘ جواد نے کہا۔

’’اس وقت تک انتظار کرو جب تک ہم کینٹین میں جاکر لنچ نہیں کرتے۔‘‘ عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عاصم اور جواد کینٹین میں بیٹھے ہوئے توحید کو سینڈوچ کھاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

’’دیکھو ــــــــــ وہ ادھر ہی آرہا ہے۔‘‘ جواد نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

توحید آہستہ آہستہ چلتا ہوا عاصم کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں مڑی ہوئی براؤن کاغذ کی تھیلی تھی۔ توحید نے قریب آکر تھیلی میں سے پھاڑا ہوا کاغذ کا ٹکڑا مسکراتے ہوئے عاصم کو دیا اور خاموشی کے ساتھ کینٹین سے باہر چلا گیا۔

’’اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘ جواد نے عاصم کے کندھے کے اوپر جھکتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ ‘‘ عاصم نے جواب دیا

’’کس بات کا شکریہ؟ ‘‘جواد نے پوچھا

عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’کیونکہ آج میں گھر سے دو سینڈوچ بنوا کر لایا تھا۔‘‘