پارکنسنز: جان لیوا مرض نہیں، پیچیدگیاں وجہ موت بن سکتی ہیں

July 12, 2020

ورلڈفیڈریشن آف نیورولوجی کے زیرِاہتمام ہر سال 22جولائی کو دُنیا بَھر میں ’’عالمی یومِ دماغ‘‘ ایک تھیم منتخب کرکے منایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد دماغ کی بیماریوں کے حوالے سے عوام میں شعور اُجاگر کرنا ہے۔ رواں برس کا تھیم ہے،"Parkinson's Disease" ، جسےعرفِ عام میں رعشہ کہا جاتا ہے۔ یہ مرضہمارے دماغ میں پائے جانے والے ڈوپامائن (Dopamine) کیمیکل کی کمی کی وجہ سے عُمر بَھر کے لیے لاحق ہوتا ہے،لیکن بروقت تشخیص اورادویہ کے باقاعدہ استعمال سے مرض پرخاصی حد تک قابو پاکر بہتر زندگی بھی گزاری جاسکتی ہے۔

یاد رہے، پارکنسنزجان لیوا مرض نہیں،مگر اس کے نتیجے میں جنم لینے والی پیچیدگیاں موت کی وجہ بن سکتی ہیں۔ اس لیے اس مرض سے متعلق عوامی آگہی بہت ضروری ہے، تاکہ جلد تشخیص کے بعد مریضوں کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں پارکنسنز اور اس کی تشخیص کے حوالے سے کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں،پھرمہارت کابھی فقدان پایا جاتا ہے کہ کئی معالجین بھی مرض کی علامات و تشخیص سے نابلد ہیں،تواس بناء پر اکثر مریضوں کی تشخیص درست یا بر وقت نہیں ہو پاتی ۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں رعشے کے مرض میں مبتلا افراد کے مصدّقہ اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ۔ تاہم، ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک بَھر میںپارکنسنز کےمریضوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہے، جن میں سے بیش تر اپنے مرض سے لاعلم ہے۔

پاکستان میں رعشے کے زیادہ ترمریض 60سال یا اس سے زائد عُمر کے ہیں، لیکن50سال سے کم عُمر افراد بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں ہیں۔چوں کہ ہمارے یہاں اوسط عُمر بڑھ کر60سے 65سال تک پہنچ گئی ہے،تو عُمر بڑھنے کے ساتھ رعشےکے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ایک تحقیق کے مطابق ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عُمر کے افراد میں سے دو فی صد میںپارکنسنز لاحق ہونے کےامکانات پائے جاتے ہیں۔ فی الوقت ایشیا، خصوصاً بھارت، پاکستان اور اس کے پڑوسی مُمالک میں پارکنسنزکے مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے،لیکن بڑھتی ہوئی منہگائی اور غربت کے باعث اس مرض کو بہت حد تک نظر انداز کردیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ پاکستان میں پارکنسنزکے تقریباً50فی صد مریض درست تشخیص و علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں۔

عمومی طور پر پارکنسنز کی علامات کوبڑھاپے کا ردِّ عمل تصّور کیا جاتا ہے، جو قطعاً درست نہیں۔ یاد رکھیے، یہ ایک مرض ہے، بڑھاپے کا ردِّعمل ہرگزنہیں۔ اور یہ بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے،جب کہ علامات بھی اِسی مناسبت سے ظاہر ہوتی ہیں۔جیسے ابتدا میں روزمرّہ زندگی کی حرکات وسکنات کی رفتار سُست پڑجاتی ہے اورجسم کے عضلات میں تھرتھراہٹ(بالخصوص جب جسم کے اعضاء حرکت میں نہ ہوں)محسوس ہوتی ہے۔دیگر علامات میںعضلات کی لچک ختم ہوجانے، توازن برقرار رکھنے میں دشواری، پٹّھوں میں تنائو، چلنے کی رفتار میں کمی، چھوٹے چھوٹے قدموں کے ذریعے چلنے اور چلتے ہوئے مڑنے میں دشواری و آہستگی شامل ہیں۔

مرض بڑھنے کے ساتھ چہرے کے عضلات سخت اور ساکت ہوجاتے ہیں،جیسے چہرے پر کوئی ماسک پہن لیا ہو۔رال ٹپکنے لگتی ہے۔گلے کے عضلات میں سختی کی وجہ سے غذا نگلنے میںمشکل پیش آتی ہے۔ آنکھوں کے پپوٹے ساکت ہوجاتے ہیں۔گفتگو سپاٹ اور جذبات سے عاری ہو جاتی ہے۔ گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔نیز،چلتے چلتےگرجانے، تھکاوٹ،قبض، ذہنی تنائو، ڈیپریشن، مثانے کی کم زوری، چکر آنے اور جِلد خشک ہوجانے جیسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں ۔مرض کی شدّت بڑھ جانے کی صُورت میں پورے جسم کے عضلات متاثر ہوجاتے ہیں اور مریض تقریباً چلنے پھرنے سے محتاج ہو جاتا ہے۔

عمومی طور پر پارکنسنز کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک ماہرِامراضِ دماغ واعصاب (نیورولوجسٹ) مریض کی علامات کا طبّی معائنہ کرکے اور اہلِ خانہ سے مریض کے معمولات اورفیملی ہسٹری لے کرباآسانی مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔اس ضمن میں اہلِ خانہ پر یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ معالج کو بیماری سے متعلق مکمل اور درست معلومات فراہم کریں۔جہاں تک علاج کا تعلق ہے، تو یہ ایک قابلِ علاج مرض ضرورہے،لیکن تاحال کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہوسکا، جو مرض کا مکمل طور پر خاتمہ کرسکے۔ تاہم، مخصوص ادویہ، مختلف تھراپیز کے ذریعے مرض کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔

یاد رکھیے، یہ مرض جوں جوں بڑھتا ہے، تجویز کردہ ادویہ میں تبدیلی بھی ناگزیر ہوجاتی ہے،اسی لیے معالج سے مستقل رابطے میں رہنابے حد ضروری ہے۔ نیز، چوں کہ اعصابی خلیات متاثر ہونے سے روزمرّہ امورانجام دینا ایک مشکل امر بن جاتا ہے، تو نتیجتاًمریض ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگتا ہے اور بعض اوقات تو اس قدر شدید ڈیپریشن میں چلا جاتا ہے کہ اس کی زندگی ہی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔اسی لیےاس کی تیمار داری عام مریضوں کی نسبت زیادہ توجّہ طلب ہے ۔

علاوہ ازیں، مریض کے لیے بھی ازحد ضروری ہے کہ اُسے اپنی بیماری کے متعلق مکمل اور درست معلومات حاصل ہوں، باقاعدگی سے معائنہ بھی کروایا جائے، تاکہ پیچیدگیوں کے امکانات کم سے کم ہوسکیں۔ نیز، علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھی جائے اور معمولی سی بھی تبدیلی پر فوری معالج سے رجوع کیا جائے۔ متوازن غذا اور باقاعدگی سے ادویہ کا استعمال کریں ، زیادہ سے زیادہ پانی پیئں،پھل کھائیں اور ورزش کو معمول کا حصّہ بنالیں۔یاد رکھیے، پارکنسنز ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا علاج ادویہ اور مثبت رویّوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

(مضمون نگار،لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹیسڑی، کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)