جو کام غیر نہ کر سکے…!

July 06, 2020

جعلی پائلٹوں کو گراؤنڈ کرتے کرتے پی آئی اے کو ہی گراؤنڈ کر دیا، جو کام غیر نہ کر سکے وہ اپنوں نے کر دیا۔ 24جون، قومی اسمبلی، کراچی طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے غلام سرور خان نے یہ کہہ کر دھماکا کر دیا کہ 860پائلٹوں میں سے 262جعلی، دیکھتے ہی دیکھتے جعلی، جعلی پائلٹ جعلی، دنیا بھر میں شور مچ گیا۔

یہ شور شرابہ جاری تھا، غلام سرور دوبارہ نمودار ہوئے، فرمایا، پی آئی اے کے تو 141پائلٹ جعلی، مشکوک، اس کے ساتھ ساتھ ایئر بلیو کے 9، سیرین ایئر لائن کے 10، شاہین ایئر لائن کے 17اور 85پائلٹ دیگر بھی جعلی، مشکوک، مطلب پاکستان کی پوری فضائی انڈسٹری مشکوک، اب دنیا کو اسے سیریس لینا تھا، سیریس لیا، یورپی یونین نے پی آئی اے پر پابندی لگا دی، اقوام متحدہ پابندی لگی۔

متحدہ عرب امارات نے اپنی ایئر لائن میں 50سے زائد پاکستانی پائلٹوں کے لائسنسوں کی تصدیق کیلئے پاکستان کو خط لکھ دیا، ملائیشیا نے اپنی ایئر لائن میں کام کرنے والے 20پاکستانی پائلٹوں پر پابندی لگا دی، ویتنام نے 20پاکستانی پائلٹوں کو گراؤنڈ کر دیا، کویت نے 7پاکستانی پائلٹوں، 56انجینئرز کو معطل کر دیا۔

یوں پاکستان آرمینیا، انگولا، کانگو، ایران، افغانستان کے بعد وہ ملک ٹھہرا جس کی ایئر لائن کو یورپ میں آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں۔

ایک طرف یہ پابندیاں، جگ ہنسائی، دوسری طرف بات آگے بڑھی، پتا چلا، پی آئی اے کے 141جعلی، مشکوک پائلٹوں میں 39پائلٹ ریٹائر، فوت ہو چکے، 29پائلٹوں کے نام، ایمپلائی نمبر، سی اے اے ریفرنس نمبر غلط، مطلب ڈیٹا ہی غلط، 4پائلٹ وہ جن کے لائسنس ہائیکورٹ درست قرار دے چکی، 10پائلٹوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا۔

7پائلٹوں کے اسٹیس کا کسی کو علم ہی نہیں، 18پائلٹ ایسے جنہیں سول ایوی ایشن نے ابھی ایئر لائن ٹرانسپورٹ لائسنس ہی جاری نہیں کیا، اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی پتا چلتا کہ پائلٹ جعلی، مشکوک، خاموشی سے تحقیق ہوتی، انکوائری بورڈ بنتا، متعلقہ پائلٹوں کو شوکاز نوٹس جاری ہوتے، انہیں بلا کر سوال و جواب ہوتے، جانچ پڑتال ہوتی، جتنے پائلٹ جعلی نکلتے، انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا۔

اس کے بعد دنیا کو بتایا جاتا کہ آئے روز کے حادثوں کے بعد ہم نے اپنی ایئر لائن پائلٹوں کی جانچ پڑتال کی، اتنے پائلٹ مقررہ معیار پر پورا نہیں اترے، انہیں فارغ کر دیا گیا، مگر یہاں صورتحال یہ، وفاقی وزیر غلام سرور خان جب تک جعلی پائلٹوں پر دو تقریریں، دو پریس کانفرنسیں اور 2ٹی وی ٹاک شو کر چکے تب تک انہوں نے پی آئی اے حکام کو یہ بھی نہ بتایا کہ تمہارے کون کون سے پائلٹ جعلی، مشکوک۔

اب بتایا جا رہا، 121پائلٹ وہ جن کا ایک پرچہ بوگس نکلا، 39پائلٹ وہ جن کے 2پرچے بوگس نکلے، 21پائلٹ وہ جن کے 3پرچے بوگس، 15پائلٹ وہ جن کے 4پرچے بوگس، 11پائلٹ وہ جن کے 5پرچے بوگس، 11پائلٹ وہ جن کے 6پرچے بوگس، 10پائلٹ وہ جن کے 7پرچے بوگس اور 39پائلٹ وہ جن کے آٹھوں کے آٹھوں پرچے بوگس۔

یہ بوگس پرچوں سے کیا مراد، یہ بھی سن لیں، پاکستان میں پائلٹ بننے کا طریقہ کار یہ، ایف اے کے بعد کوئی بھی بندہ اپلائی کر سکے، پہلے سول ایوی ایشن کا میڈیکل ٹیسٹ، یہ کلیئر ہو جائے تو فلائنگ اسکول میں داخلہ (اس وقت ملک میں 10سے زائد فلائنگ اسکول) 3ماہ زمین پر تربیت، 3گھنٹے کی فلائنگ، پہلا لائسنس مل جائے، اس کے بعد مزید پڑھائی، امتحانات، 40گھنٹے کی فلائنگ، یہ مرحلہ عبور ہو جائے تو پرائیویٹ پائلٹ لائسنس مل جائے۔

اس کے بعد 200گھنٹے کی فلائنگ، 8تحریری امتحانات، انسٹرومنٹ ریٹنگ کا عملی امتحان، اس کے بعد کمرشل پائلٹ، اب بندہ کیڈٹ پائلٹ، معاون پائلٹ بننے کا اہل، اس کے بعد 16سے 18سال بطور معاون پائلٹ اپنے فلائنگ گھنٹے پورے کرنے کے بعد کپتان بننے کیلئے تحریری امتحان، 100سوالات پر مشتمل 8پرچے (یہاں پائلٹوں نے مبینہ طور پر بوگس پرچے دیے)۔

یہ امتحان پاس کرنے کے بعد اے ٹی آر جہاز پر 50گھنٹے کمانڈ پائلٹ کی تربیت، اس کے بعد سول ایوی ایشن ایئر لائن ٹرانسپورٹ لائسنس جاری کرے، یہی وہ لائسنس جس کے جعلی ہونے کا شور مچا ہوا، یہ بوگس پرچے اپنی جگہ امتحان میں کسی اور کو بٹھانا کیوں، ہوا یہ کہ چونکہ پاکستان میں پائلٹوں کی تربیت کیلئے کوئی مقامی نصاب نہیں۔

لہٰذا قیام پاکستان سے امریکی فضائی نصاب رائج، 2010میں سول ایوی ایشن نے اچانک یورپی نصاب لاگو کر دیا، یہ نصاب آیا، کسی کو اس کی کچھ سمجھ نہ آئی، سب پائلٹوں کو جان کے لالے پڑ گئے، یہیں سے زیادہ تر جعلی پن، مشکوک پن شروع ہوا۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سوا، ڈیڑھ سال پہلے بھی سول ایوی ایشن جعلی پن پر انوسٹی گیشن کرچکی، 28پائلٹوں کو شوکاز نوٹس بھی جاری کئے، کچھ پائلٹ عدالت بھی گئے، موجودہ تحقیقات کی بنیاد سپریم کورٹ کا جعلی ڈگریوں پر ازخود نوٹس، فروری 2019میں پائلٹوں کی ڈگریاں چیک کرنے کیلئے بورڈ بنا۔

بیسیوں پائلٹوں سے تفتیش ہوئی، 9نے اعتراف بھی کیا، مگر بات وہی، 23 اندرون ملک، 30سے زائد بیرون ملک پروازوں والی، 6یونینوں، ایسوسی ایشنز کی بلیک میلنگ میں نکو نک پھنسی، 10 سالوں میں 11چیف ایگزیکٹیو بھگتا چکی، 462ارب خسارہ والی پی آئی اے جس نے 2006سے کوئی جہاز نہیں خریدا، جو کل تک فخر کی علامت، منافع بخش ادارہ، پاکستان کی پہچان، جو آج تباہی و بربادی کی داستان، جو دنیا کی سب سے غیر محفوظ ایئر لائن، جسے 18بین الاقوامی روٹس پر 454کروڑ خسارے کا سامنا،

جس کا 2009سے 2019کے دوران خسارہ 3کھرب 71ارب 14کروڑ کا، جس کے قرضے چھوڑیں، قرضوں پر سالانہ سود ہی 16ارب، جس کے پاس 30بتیس جہاز اور 15ہزار 52ملازمین، گنجائش، ضرورت سے ڈبل، اسی ایئر لائن کو پچھلے کھنڈر بنا گئے، موجودہ نے جعلی پائلٹوں کو گراؤنڈ کرتے کرتے اسے ہی گراؤنڈ کر دیا، جو کام غیر نہ کر سکے وہ اپنوں نے کر دیا۔