یوم آزادی پر بیش بہا تحفہ

August 14, 2020

صورتحال…الطاف حسن قریشی
چودہ اگست کو پاکستان کا 74 واں یوم آزادی ہے جس پر ہم اپنے آرزو مند اہل وطن کو مبارک باد بھی دیتے ہیں اور ایک منفرد تحفہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم جو قلم و قرطاس سے ایک رشتہ قائم رکھتے ہیں وہ گلشن گلشن تازہ افکار کے پھول کھلاتے ہیں، مگر بعض لوگوں کےدامن کا یہ عالم ہے کہ وہ ناشکری کے کانٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی اور پسماندگی کی پاتال سے آزادی کے فرش پر بٹھا دیا ہے، اسی میں سے ایک گروہ دانش وری کی مسند پر براجمان ہو کر بلند آواز میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہمیں پاکستان نے دیا ہی کیا ہے۔ وہی حرماں نصیبی ہے، وہی نا آسودگیاں اور وہی ناروا پابندیاں۔ ان کی یہ باتیں وطن کے عشّاق کے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہو جاتی ہیں اور وہ عالم کرب میں پوچھتے ہیں کہ تم نے کفران نعمت اور فکری خلجان سے اس عظیم وطن کا کیا حلیہ بگاڑ دیا ہے جسےحضرت قائداعظم نے عہدِ حاضر کی اولین (پریمیئر) اسلامی ریاست اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک قرار دیا تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجلاس میں جداگانہ وطن کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی۔ قائداعظم نے اپنےطویل صدارتی خطبے میں ناظرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلام کے خادموں کے طور پر آگے بڑھو اور اقتصادی، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر مسلمانوں کو منظم کرو۔ پھر یقیناً ایک ایسی طاقت بن جاؤ گےجسے ہر شخص تسلیم کرے گا۔ سات سالہ جدوجہد کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔ قائداعظم نے فروری 1948میں ریڈیو پر امریکی عوام سے اپنے خطاب میں نئی مملکت کے دستوری خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمہوری اور اسلام کے لازمی اصولوں پر مبنی ہو گا جو آج بھی تیرہ صدیوں کی طرح قابل عمل ہیں۔ اسلام اور اس کے فلسفے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور اس نے ہر شخص کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ برتاؤ کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے حامل ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔
قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد جتنی تقریریں کیں اور بیانات دیے، ان میں اعصاب شکن رجحانات اور مسائل کی نشاندہی کی تھی۔ اپنی گیارہ اگست کی شہرہ آفاق تقریر میں رشوت خوری، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی اور صوبائی تعصب پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے انہیں قومی وجود کے لیے زہر قرار دیا تھا۔ بعد کی تقریروں میں وہ سرکاری اور فوجی افسروں کو اپنے حلف کی اہمیت اور گراں قدر ذمہ داریوں کا احساس دلاتے اور سول بیوروکریسی پر زور دیتے رہے کہ وہ منتخب حکومت کے احکام پوری دیانت داری سے بجا لائے اور عوام کی فلاح و بہبود کو اہمیت دے۔ وہ تواتر سے یہ تاکید بھی کرتے رہے کہ سرکاری ملازمین کو غلط احکامات بجا لانے سے انکار کر دینا چاہیےخواہ اس کے لیے انہیں قربانی بھی دینا پڑے۔
بلاشبہ پاکستان کی تعمیر میں سول بیورو کریسی نے بے مثال کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا انتظامی اور اقتصادی ڈھانچہ کھڑا کر دیا، لیکن سیاسی افراتفری اور اخلاقی زوال کے نتیجے میں سول اور فوجی بیورو کریسی عدالت عظمیٰ کی تائید سے اقتدار پر قابض ہوگئے اور یوں ملک میں کرپشن، اقرباپروری اور فرائض منصبی سے غفلت معمول بنتے گئے۔ بیوروکریسی میں اصلاحات لانے کے لیے ان گنت کمیشن قائم کیے گئے، لیکن بد انتظامی پھیلتی گئی اور آج سرکاری مشینری کا بریک ڈاؤن دیکھنے میں آرہا ہے۔
خوش قسمتی سے حال ہی میں جناب ڈاکٹر امجد علی ثاقب نے اپنی زیرطبع کتاب ’دید و شنید‘ ارسال کی ہے جو ایک تربیتی ادارے نیپا میں تیس برسوں سے زائد اعلیٰ افسروں کی ٹریننگ پر مامور رہے۔ وہاں انہیں اعلیٰ افسروں کی نفسیات اور سیاسی قائدین کے خیالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے مواقع ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری کی سیاسی بصیرت سے بھی فیض پایا جن کو نوابزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل تھا۔ ڈاکٹر ثاقب نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر سیاسی حکمرانی میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں جن کے خدوخال یوم آزادی پر تحفے کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان کے تجزیے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں حکمرانی کے اونچے سیاسی عہدوں کے لیے اہلیت، تجربے اور اعلیٰ اوصاف کا معیار مقرر ہے۔ اس مقصد کے لیے میڈیا میں اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ درخواست گزار امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ اور انٹرویوز لیے جاتے ہیں تاکہ بہترین افراد منتخب ہو سکیں۔ کردار کی کوئی خامی بعد میں ظاہر ہو جائے، تو یہ حضرات رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے افراد کی اہلیت اور کردار کا جائزہ لینے کے لیے سرے سے کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ تقرر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کی تعلیمی اسناد جعلی ہیں اور بعض پر ناجائز دولت جمع کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں۔ وہ صدر اور وزیراعظم کی حمایت کے صلے میں اپنی پسند کی وزارتیں، سفارتیں اور منفعت بخش عہدے حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ اچھے حکمرانوں کی تلاش کے لئے بھی اشتہار دیا جانا چاہیے جو کچھ اس طرح کا ہو سکتا ہے کہ سیاسی عہدوں کے لیے صرف پاکستانی شہریت رکھنے والے گریجویٹس کی طرف سے درخواستیں مطلوب ہیں۔ وہ جو ڈگری رکھتے ہوں، اس کا ریکارڈ بھی ہو اور متعلقہ یونیورسٹی اپنا وجود بھی رکھتی ہو۔ ہر قسم کی اخلاقی، مالی اور ذہنی کرپشن سے ان کا دامن صاف ہو۔ مدت کار زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو بشرطیکہ عوام ان سے عاجز نہ آجائیں۔ ان درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک ایسا سلیکشن بورڈ تشکیل دیا جائے جو بہترین اخلاق رکھنے والے اعلیٰ عدلیہ کے نمائندوں، پیشہ ور ماہرین، سول سوسائٹی کی معتبر شخصیتوں، یونیورسٹی کےاساتذہ اور دینی اسکالرز پر مشتمل ہو۔ اسکروٹنی کا یہ عمل الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی کا درست فیصلہ کرنے میں بہت مددگار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہ قانونی پابندی بھی ضروری ہے کہ ایک شخص زیادہ سے زیادہ تین بار اسمبلی کا رکن بن سکتا ہے۔ اس پابندی سے سیاسی موروثیت کا شکنجہ ٹوٹ جائے گا جس کے سبب پورا سیاسی نظام کرپٹ ہو چکا ہے اور اخلاقی اور جمہوری قدروں کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔