پرنٹ میڈیم یا ڈیجیٹل... بہتر تعلیمی نتائج کون دیتا ہے؟

September 13, 2020

آج کے طلبا خود کو ’ڈیجیٹل دنیا‘ کے باشندے سمجھتے ہیں کیونکہ یہ نسل اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور ای-ریڈرز کے درمیان بڑی ہورہی ہے۔ اساتذہ، والدین اور پالیسی سازوں کو آج کے طلبا پر ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات کا یقیناً اندازہ ہے اور وہ اس عہد کی ضروریات کے مطابق عملی اقدامات لے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کلاس روم ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور کئی تعلیمی اداروں میں طلبا کو اسکول کی جانب سے آئی پیڈز اور ای بکس فراہم کی جاتی ہیں۔

تعلیم کے میدان میں ٹیکنالوجی کے وارد ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا نے ایک قانون کے تحت تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا ہوا ہے کہ 2020ء تک کالج کی تمام نصابی کتب کو الیکٹرانک شکل میں بھی دستیاب ہونا چاہیے۔ ایک اور امریکی ریاست فلوریڈا نے بھی اس رجحان کو بھانپتے ہوئے 2011ء میں ہی نصابی کتب کو ڈیجیٹل بنانے کا قانون نافذ کردیا تھا۔

اس رجحان کے پیشِ نظر طلبا، والدین اور پالیسی ساز غالباً یہ تصور کرسکتے ہیں کہ آج کے طلبا چونکہ ٹیکنالوجی سے رغبت رکھتے ہیں اور اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں، اس لیے ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کے تعلیمی نتائج میں بہتری آئے گی۔ تاہم، اب تحقیق سے ثابت ہورہا ہے کہ ’ایسا ضروری نہیں ہے‘۔

لارِ ن ایم سنگر، یونیورسٹی آف میری لینڈ میں ایجوکیشنل سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں جبکہ پیٹریشیا اے الیگزینڈر وہاںپروفیسر آف سائیکالوجی ہیں۔ ان دوخواتین نے ایک تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ تعلیم حاصل کرنے اور الفاظ کو سمجھنے کے لیے جب پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے تو ان دونوں میڈیم کا سیکھنے کے نتائج پر کیا اثر پڑتا ہے۔

بنیادی طور پر اس تحقیق کا مرکزی موضوع تھا’کیا ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے تعلیمی نتائج بہتر آتے ہیں‘؟ تحقیق کے نتیجے میں یہ دونوں محققین اس نتیجے پر پہنچیں کہ ’ایسا ضروری نہیں ہے‘۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہرچندکہ کلاس روم ٹیکنالوجی کے نئے تصورات جیسے ڈیجیٹل کتابوں کے ذریعے نصاب تک رسائی اور اسے ساتھ رکھنا زیادہ آسان ضرور ہے، تاہم یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ چونکہ آج کے طلبا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے اس کے ذریعے وہ بہتر تعلیمی نتائج بھی دیں گے۔

رفتار کی ایک قیمت ہے

محققین نے جو نتائج حاصل کیے ہیں، انہوں نے ایک قابلِ ذکر تضاد کو واضح کیا ہے۔ تحقیق میں شامل طلبا کا خیال تھا کہ وہ اسکرین پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس میں انھیں آسانی رہتی ہے، تاہم جہاں تک نتائج کا تعلق ہے تو تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکرین کے ذریعے پڑھنے والے طلبا کی حقیقی کارکردگی متاثر ہورہی تھی۔ مثال کے طور پرتحقیق کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مواد کی طوالت ایک صفحہ سے زائد تھی، وہاں طلبا اس مواد کو پرنٹ پر بہتر طور پر سمجھنے کے قابل تھے۔

محققین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل میں طلبا کو ’اسکرول‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو کہ ان کے اس مواد کو سمجھنے کے عمل میں تعطل کا باعث بنتا ہے۔ محققین کو اس بات پر بھی حیرانی ہوئی کہ جب طلبا کو ایک ہی مواد پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا میں دیا گیا تو اس کی تفہیم میں انھیں مختلف وقت لگا۔ اس تضاد کو سمجھنے کے لیے محققین نے کالج کے طلبا کے ساتھ تین مختلف مطالعے کیے، تاکہ وہ اس بات کی جڑ تک پہنچ سکیں کہ ایک ہی مواد کو پرنٹ اور اسکرین پر سمجھنے کے لیے انھیں مختلف وقت کیوں درکار ہوتا ہے۔

پہلے طلبا سے ان کے ترجیحی میڈیم کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس کے بعد ان طلبا کو پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیم میں دو پیراگراف پڑھنے کو دیے گئے۔ تیسرے مرحلے میں ان طلبا کو تین ٹاسک مکمل کرنے کا کہا گیا۔ پڑھے گئے مواد کا مرکزی خیال بیان کریں، مواد میں درج اہم نکات کی فہرست بنائیں اور وہ ایسا ہی کوئی مواد دوبارہ تحریر کریں جو انھیں ان دو پیراگراف سے یاد ہو۔ یہ عمل مکمل ہونے کے بعد ان طلبا سے ان کی تفہیم کی کارکردگی کی درجہ بندی کرنے کے لیے کہا گیا۔

محققین نے تمام مطالعات میں مختلف طوالت کا مواد رکھا اور سامنے آنے والے اعدادوشمار (پڑھنے کے لیے درکار وقت) ایک دوسرے سے مختلف پائے۔ اس تحقیق کے نتائج کے کچھ چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں:

٭ طلبا کی ایک بڑی اکثریت نے ڈیجیٹل میڈیا میں پڑھنے کو ترجیح دی۔

٭ پرنٹ کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا میں طلبا نے زیادہ تیز رفتاری سے مواد پڑھا۔

٭ طلبا کا خیال تھا کہ ان کی مواد کی تفہیم پرنٹ کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا میں بہتر تھی۔

٭ جب طلبا کو یہ بتایا گیا کہ ان کے خیال کے برعکس، حقیقت میں ان کی مواد کی تفہیم پرنٹ میں کہیں زیادہ بہتر تھی تو ان کے لیے یہ بات حیران کن تھی۔

٭ عمومی سوالات کے لیے میڈیم کے فرق کا اثر نہیں دیکھا گیا (مثلاً: مواد کے مرکزی خیال کو بیان کرنا)۔

٭ جب مواد سے متعلق مخصوص سوالات کیے گئے تو طلبا کی مواد کی تفہیم ڈیجیٹل کے مقابلے میں پرنٹ میں بہتر تھی۔

ان نتائج کی روشنی میں ہمارے پالیسی سازوں، اساتذہ، والدین اور طلبا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بتدریج تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی تعلیم میں پرنٹ کی اہمیت اور افادیت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔