اخلاقیات سے عاری بے حِس معاشرہ

September 27, 2020

بس تیز رفتاری سے منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ وہ روز کی طرح کالج جانے کے لیے سوار ہوئی تو بس کو کھچا کھچ بھرا پایا، یہ معمول کی بات تھی اور اسے دیر بھی ہو رہی تھی تو وہ اسی میں سوار ہوگئی اور کھڑے کھڑے ہی دن بھر کی پلاننگ کرنے لگی۔ آج سے ہر فِری پیریڈ میں نوٹس بنانے شروع کردوں گی ، تاکہ امتحان کے دِنوں میں ٹینشن نہ ہو۔کیمسٹری سے آغاز کروں گی کہ وہ سب سے مشکل سبجیکٹ ہے۔ ابھی انہی سوچوں میں گُم تھی کہ محسوس ہوا، جیسے کسی نے اُسے ٹچ کیا ہو، وہ بجلی کی سی پُھرتی سے پیچھے مُڑی تو نوجوان لڑکوں اور ادھیڑ عُمروں سمیت اتنے مرد تھے کہ وہ فیصلہ ہی نہ کر پائی کہ یہ حرکت کس نے کی ہے، پھر سوچا کہ شاید وہم تھا۔ اُس نے عبایا سمیٹا اور تھوڑا آگے ہو کر کھڑی ہوگئی ، چند لمحوں بعد پھر وہی حرکت ہوئی ، اس نے پھر پلٹ کر دیکھا تو شرٹ اور ڈریس پینٹ میں ملبوس ایک آدمی اس کی طرف دیکھ کر مُسکرا رہا تھا۔ اس واقعے سے وہ اتنی گھبرا گئی کہ ایک اسٹاپ پہلے اُتر کر پیدل ہی کالج کی جانب چل پڑی۔

’’ارے نہیں یار! مَیں اب اُس راستے سے گھر نہیں جاتی، وہاں کوچنگ سینٹر کے چند لڑکے ہر وقت کھڑے رہتے ہیں اور غلیظ فقرے کستے ہیں۔ ‘‘ ہما نے اپنی سہیلی ،سارہ کو آفس سے واپسی پر بتایا ۔’’کیا مطلب…؟؟ تم نے17، 18 برس کے چند لڑکوں سے گھبرا کر اپنا راستہ ہی بدل لیا، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ جس کوچنگ کے باہر کھڑے ہوتے ہیں، وہاں جا کر شکایت کرو۔‘‘ ’’تمہیں کیا لگتا ہے، مَیں نے ایسا نہیں کیا ہوگا؟ پر، انہوں نے تو صاف کہہ دیا کہ لڑکے کوچنگ کے بعد کیا کرتے ہیں یہ ہماری ذمّے داری نہیں۔ اور وہ لڑکے بھی تو اتنے بد تمیز ہیں کہ ایک دن میرے پیچھے ہی آگئے تھے، میری ڈانٹ کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو مَیں نےہی مجبوراً راستہ بدل لیا۔ ‘‘

’’ لیکن سر ! آپ کے کہنے کے عین مطابق ہی مَیں نے یہ ہیڈنگز اس موضوع میں شامل کی ہیں۔ لاسٹ وِیک ہی تو آپ نے کہا تھا کہ تھیسز میں یہ تین ہیڈنگز بھی شامل کرلوں، مَیں نے تو تب بھی بتایا تھا کہ یہ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔‘‘ ’’سُپروائزر آپ ہیں یا مَیں…؟؟ اب آپ اپنے سُپر وائزر سے بحث بھی کریں گی ۔‘‘ ’’سر! پچھلے چھے ماہ سے آپ ذرا ذرا سی باتوں کو جواز بنا کر میرا تھیسز ریجیکٹ کیے جا رہے ہیں۔ آپ ایک ہی بار اِن رائٹنگ بتا دیں کہ اس میں کیا کیا شامل کروں اور کون سے پوائنٹس نکالوں؟‘‘ اس بار مریم جیسے پھٹ ہی پڑی کہ اس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ ’’ مَیں نےتو سیمسٹر کے آغاز ہی میں کہا تھا کہ کسی دن لنچ پر چلتے ہیں، وہیں بیٹھ کر تھیسز ڈِسکس کر لیں گے، لیکن آپ مانی ہی نہیں۔ مان جاتیں تو چھے ماہ قبل ہی تھیسز اَپروو ہو چُکا ہوتا۔‘‘

اللہ جانے کیا ہوگا اس لڑکے کا،ایک نمبر کا نکمّا ہے۔ نہ ماں ،باپ کا لحاظ ، نہ بڑوں سےبات کرنے کی تمیز۔ اس کی عُمر کے سارے لڑکے کام کاج پہ لگ چُکے ہیں، ایک تمہارا ہی لاڈلا ہے، جو پڑھائی لکھائی میں آگے بڑھ سکا اور نہ ہی کام کاج میں اس کا کوئی دھیان ہے۔کتنی منّت سماجت کرکے نوکری لگوائی تھی کہ آج کے دَور میں انٹر پاس کو کون نوکری دیتا ہے، مگر محنت مشقّت کرناتو صاحب زادے نے سیکھا ہی نہیں، ذرا سی ڈانٹ پر نوکری چھوڑ آئے۔ مَیں بتا رہا ہوںیہی تیور رہے، تو میرے بعد یہ فاقوں مر جائے گا۔‘‘عادل صاحب نے بیٹے کی غیر ذمّے داری پر برہم ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ایک تو آپ بھی ناں ہر وقت میرے بچّے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔

لوگ تو اکلوتے بیٹوں کے کتنے نخرے بر داشت نہیں کرتےاورایک آپ ہیں،ہر وقت بس ڈانٹتے ہی رہتے ہیں۔میری تو ایک ہی خواہش ہے کہ جلد از جلد اس کا سہرا دیکھ لوں اور آپ دیکھیے گا کہ بیوی آجائے گی، تو خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ پڑوس والی رشیدہ کا بیٹا تو پاگل تھا، دیکھیں شادی کے بعد کیسا ٹھیک ہوگیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ شادی کے بعد یہ بھی ذمّے دار ہوجائے گا، بیوی اسے سنبھال لے گی۔ چاند سی بہو لاؤں گی، جو میرے راج دُلارے کا خُوب خیال رکھے۔‘‘

کہنے کو تو یہ چند فرضی کہانیاں ہیں، لیکن اگر انہیں ہمارے معاشرے کی بیش تر لڑکیوں کی ’’آپ بیتی‘‘ بھی کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا کہ کہیں نہ کہیں زندگی کے کسی موڑ پر ہم سب ہی نے ایسی کسی نہ کسی صورتِ حال کا سامنا ضرورکیا ہے۔جواباً کوئی لڑکی سختی سے نمٹتی ہے، تو کوئی بے چاری چُپ چاپ اپنی راہ بدل لیتی ہے۔ جو خو د اعتمادی سے منہ توڑ جواب دینےیا ’’نہ‘‘کہنے کی جرأت رکھتی ہے، اُسے خود سَر، بد تمیز، منہ پَھٹ یا بد دماغ کہہ دیا جاتا ہےاور جو ڈر ، سہم جائے، اُسے کم زور سمجھ کرمزید ڈرایا جاتا ہے۔ یہ حالات آج کے نہیں کہ عورت تو ہر دَور ہی میں کم زوراور مرد کی جاگیر سمجھی جاتی ہے۔ بلا شبہ، اللہ پاک نے مرد کو عورت پر فضیلت عطاکی ہے، اسے مضبوط بنایا ہے، لیکن اس لیے تاکہ وہ عورت کا محافظ بن کر اس کی عزّت وآبرو کا خیال رکھ سکے۔ اُسے اپنی جاگیر نہیں،ذمّےداری سمجھےاور اگر کسی عورت کو مرد کی وجہ سے اپنی راہ بدلنی پڑجائے تو جان لیجیے کہ اُس مرد اور گلی کے کتّے میں کچھ خاص فرق نہیں۔

دوسری جانب، بیٹی کے جنم ہی سے اُس کے اچھے نصیب کی دعائیں مانگنے والی مائیں، اپنی بچیوں کو ہر کام میں طاق کرنے کی کوشش کرتی ہیں، آج کے دَور میں تو تعلیم بھی دلوائی جاتی ہے اور اُمورِ خانہ داری کے گُر بھی سکھائے جاتے ہیں کہ اگلے گھر جاکر طعنے نہ سُننے پڑیں، لیکن ہمارا سوال تمام ماؤں سے ہے کہ جس بیٹی کے اچھے نصیب کی دُعا مانگتے نہیں تھکتیں، جسے پلکوں پر بٹھا ئے رکھتی ہیں، اُسی بیٹی کو نا انصافی، حق تلفی پر آواز اُٹھانا کیوں نہیں سکھاتیں؟، ہمارا سوال اُن باپوں سے بھی ہے، جو اپنی رانی بٹیا کو ہتھیلی کا چھالابنا کر ، زمانے کی دھوپ چھاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

انہیں زمانے کا سامنا کرنا، ضرورت پڑنے پر اپنی حفاظت خودکرنا کیوں نہیں سکھاتے؟،ہمارا سوال اُن بھائیوں سے بھی ہے، جو بہنوں کی ایک آواز پر اُن کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ راہ چلتی عورت یا لڑکی میں اپنی بہن کی جھلک کیوں نہیں دیکھ پاتے؟ اورہمارا سوال سی سی پی او، لاہور اور اُن جیسے دیگر افسران سے بھی ہے کہ کیوں ایک بے چاری، بے یارو مدد گارخاتون کے اس کے بچّوں کے سامنے بے آبرو ہونے پر اُن کا خون نہیں کھولا؟یہ کہتے ہوئے اُن کی زبان ایک بار بھی نہیں لرزی کہ ’’خاتون رات گئے موٹر وے پر اکیلی گئی ہی کیوں تھی ؟‘‘ اگر خدا نخواستہ اُس کی جگہ ان کی اپنی بہن، بیوی یا بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی ان کا یہی ردّ ِ عمل ہوتا؟

کیا وہ قبروں میں دفن خواتین سے بھی یہی کہیں گے کہ وہ اکیلی کیوں دفن ہوئیں کہ درندے توانہیں وہاں بھی نہیں چھوڑتے، کیا وہ سندھ کی نابینا ڈولفنز سے بھی یہی کہیں گے کہ وہ بِنا کپڑوں کے پانی میں کیوں رہتی ہیں کہ زیادتی کا نشانہ تو انہیں بھی بنایا جا رہا ہےاور اگر انہیں خواتین کے رات گئے موٹر وے پر جانے میں اعتراض ہے، تو ’’12 بجے کے بعد خواتین کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کا بورڈ کیوں نہیں آویزاں کروا دیتےتاکہ خواتین جان سکیں کہ اس مملکت میں انہیں ڈرائیونگ لائسنس تو مل گیا ہے، پر اکیلے جانے کی آزادی نہیں، یہاں نیوکلیئر بم تو محفوظ ہے، لیکن قوم کی ماؤں، بہنوں کی عزتیں، آبروئیں اور عِصمتیں نہیں۔شاعر نے بھی کیا خُوب کہا ہے؎ تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ…تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی ۔

نیز،ہمارا سوال اُن تمام ماؤں سے بھی ہے کہ کیوں بیٹوں کو معاشرے میں رہنے کے ادب آداب، تمیز، تہذیب نہیں سکھاتیں؟ بیٹوں کی تعلیم پر جتنی توجّہ دی جاتی ہے، اُتنی ہی محنت ان کی تربیت پر کیوں نہیں کی جاتی؟ ایک زمانہ تھا، جب بیٹوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی جاتی کہ وہ محلّے کی ہر لڑکی کو اپنی بہن اور عورت کو ماں سمجھتے۔ پھر ہم ترقّی پسند ہوگئے، سوائے اپنی بہنوں کے ہر لڑکی دوست یا گرل فرینڈ بن گئی، والدین نے بھی بیٹوں کی تربیت کو پسِ پشت ڈال دیا، بس اب سارا زور صرف تعلیم ہی پر ہے، ایسی تعلیم جس میں اخلاقی تربیت، ذہنوں کی آب یاری، شخصیت سازی کا سِرے سےکوئی تصوّر ہی نہیں۔ پر ذرا سوچیے، صرف بیٹیوں کی تربیت سے صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے؟معاشرے کی بے حِسی تواب بے غیرتی کی حدوں کو چُھورہی ہے ،جسے ہاتھ سے روکنا تودرکنار،ہم تو اُسےدل سے بُرا سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔

ایسا لگتا ہے،ہمارے معاشرے میں انسان نہیں گِدھ بستے ہیں، جو کسی بھی قیمت پر اپنی ہوس ،بھوک مٹانا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ قوم کا ہر فرد دوسرے کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے، پر ہم تو وہ بد نصیب قوم ہیں ،جو ایک دوسرے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈبن چُکے ہیں۔بس اسٹینڈ ، راہ چلتے، رکشوں، دکانوں، آفسز ، موٹر ویز، گلی محلّوں، قبرستانوں میںنہ جانےکتنے انسان نما بھیڑیے ہمارے ارد گِرد گھوم رہے ہیں۔ یاد رکھیں، جب تک بیٹوں کی بہترین تربیت نہیں ہوگی، تب تک اس معاشرے میں ہماری مائیں،بہنیں،بیٹیاں ، یہاں تک کہ دادیاں، نانیاں اور قبروں میں ابدی نیند سوئی خواتین تک محفوظ نہیں ہو سکتیں۔

ڈاکٹر سروش
حشمت لودھی

’’صحت مند معاشرے کی تشکیل ، شخصیت سازی میں والدین اور اساتذہ کاکیا کردار ہے اوربے حس، اخلاقیات سے عاری معاشرے کا ذمّے دار کون ہے؟‘‘ اس حوالے سے این ای ڈی یونی وَرسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کےوائس چانسلر، ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے اپنی بات کا آغاز کچھ ایسے کیا کہ ’’؎ جہلِ خرد نے دن یہ دِکھائے … گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے۔ اس معاشرے کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔ بلا شبہ معاشرہ ترقّی کر رہا ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان فارغ التّحصیل ہورہے ہیں، لیکن وہ تربیت یافتہ نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے معاشرہ پستیوں کو چُھو رہا ہےاور اس میں قصور وار والدین اور اساتذہ دونوں ہی ہیں۔ آج کے والدین بچّوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے تو خواہش مند ہیں، لیکن ان کی تربیت پر دھیان نہیں دیتے ۔بچّے رات رات بھر موبائل فون پر مصروف، انٹرنیٹ سرفنگ کرتے رہتے ہیں، پر والدین بالخصوص مائیں پلٹ کر نہیں پوچھتیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، رات گئے تک کیوں جاگ رہے ہیں۔

یہی کچھ حال اساتذہ کا بھی ہے، طالبِ علم کسی بھی عُمر کا کیوں نہ ہو استاد ہمیشہ ہی اس کا رول ماڈل رہتا ہے۔ جب وہی کلاس رُوم میں بس لیکچر کا ٹائم پورا کرنے آئے گا، رٹا رٹایا سبق پڑھا کر چلاجائے گا، تو نسلِ نو کی شخصیت سازی کیسے ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں بے ایمانی، بد عنوانی اورنا انصافی انتہاؤں کوچُھو رہی ہے۔یاد رکھیں، جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا، وہاں سزاو جزا کا تصوّربھی ختم ہوجاتا ہے اورپھر وہی مسائل سامنے آتے ہیں، جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔

سو، جب تک قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، معاشرے میں سُدھار پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ چند اساتذہ کی جانب سے طالبات کو ہراساں کیے جانے کےواقعات پر ڈاکٹر سروش نے کہا کہ ’’کالی بھیڑیں توہر جگہ موجود ہوتی ہیں، اس ضمن میں ہمارا کام یہ ہے کہ انہیں تلاش کریں اور الزام ثابت ہوجانے کی صُورت میں سخت سے سخت سزا دیں۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ ایک ہی جرم کی مختلف سزائیں ہونی چاہئیں کہ جس طرح عام آدمی اور اُستاد ، افسر، ذمّے داران کے رُتبے، تنخواہوں، مراعات میں فرق ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ان کی سزاؤں میں بھی فرق ہونا چاہیے۔ اگر کوئی استاد یا ذمّےدار غیر اخلاقی، غیر شائستہ حرکت کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے سزا بھی اس کے رُتبے کے حساب سے ملنی چاہیے۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر خالد
عراقی

نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کی کے ضمن میں وائس چانسلرجامعۂ کراچی، پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا ہے کہ ’’والدین کسی بھی بچّے کی پہلی درس گاہ ہوتے ہیں، تو چاہے کوئی بچّہ اسکول جائے یا نہیں اگر اس کی تربیت اچھی ہوئی ہے، تو وہ یقینی طور پر معاشرے کا ذمّے دار شہری ہی ثابت ہوگا۔ بہتر معاشرے کی تشکیل میں صرف تعلیم ہی نہیں، تربیت بھی انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس حوالے سے اساتذہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انہی کے ہاتھ قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔

ان کو چاہیے کہ طلبہ سے بات کریں، انہیں در پیش مسائل کی بابت دریافت کرکے حل تجویز کریں یا چیلنجز کا سامنا کرنا سکھائیں، پھر چاہے وہ مسائل ذہنی ہی کیوں نہ ہوں۔ علاوہ ازیں، اساتذہ کو نوجوانوں کی اخلاقی تربیت بھی کرنی چاہیے۔ نصاب سے ہٹ کر ان کی ذہن سازی، شخصیت سازی پر توجّہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جہاں تک بات خواتین ، بچّوں سے زیادتی کی ہے، تو ایسے واقعات میں زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ افرادملوّث ہوتے ہیں،موٹر وے والا واقعہ ہو ، زینب قتل کیس یا اس جیسے دیگر واقعات ملزمان تعلیم یافتہ نہیں۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسے واقعات میں صرف غیر تعلیم یافتہ ہی ملوّث ہوتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ افراد عموماًکم ہی ملوّث ہوتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر طاہر مسعود

ڈاکٹر طاہر مسعود کا شمار جامعۂ کراچی کے ہر دل عزیز اساتذہ میں ہوتا ہے، وہ شعبۂ ابلاغِ عامّہ کے سابق سربراہ ، کاؤنسل آف کمپلینس، پیمرا، سندھ ریجن کے سربراہ اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں، انہوں نے معاشرتی زوال پذیری، بے حِسی و بے ضمیری کے حوالے سے کچھ یوں اظہارِ خیال کیا کہ ’’صرف دو ادارے ایسے ہیں، جو ٹھیک ہوجائیں تو نہ صرف یہ معاشرہ، بلکہ مُلک و قوم درست راہ پر گام زن ہو جائے ۔ پہلا ادارہ یا انسٹی ٹیوشن والدین اور دوسرا اساتذہ ہیں۔

اگر والدین اولاد میں ایثار، قربانی، بھائی چارے، بھلائی، اخلاقیات کے جذبے بیدار کریں، تو ہو ہی نہیں سکتا کہ معاشرہ بے را ہ روی کا شکار ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نصیحت برائے نصیحت ہی کی جاتی ہے۔ اپنا کردار مثالی نہیں بنایا جاتا، جن باتوں کی نصیحت والدین یا بڑے بچّوں کوکرتے ہیں،اُن پر خود عمل نہیں کرتے۔ یاد رکھیں، بچّے ہمیشہ رویّوں سے سیکھتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارا اپنا اخلاق ہی بہتر نہیں، تو نوجوانوں سے کیا توقع رکھیں۔ اب اگر بات کی جائے اساتذہ کی، تو ان کی ذمّے داری ہے کہ صرف کلاس کا ٹائم پورا نہ کریں۔ نصاب ہی نہ پڑھائیں بلکہ شخصیت سازی بھی کریں، معاشرے میں رہنے ، اُٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی سکھائیں۔

لیکن وہ تو بس کلاس کا وقت پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور دونوں اداروں کی تباہی ہی کی وجہ سے آج سوسائٹی کایہ حال ہو گیا ہے، کیوں کہ فرد کا تعلق خواہ کسی بھی پروفیشن ، علاقے، طبقے سے کیوں نہ ہو ،وہ والدین کی گود اور اساتذہ کے زیرِ سایہ ہی پروان چڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ ڈگری یافتہ تو ہے،مگر تعلیم یافتہ نہیں۔ جاپان ہی کی مثال لے لیں، وہاں اسکولز میں ’’اخلاقیات ‘‘بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے، اسی لیے وہ قوم اتنی مہذّب اور با شعور ہے، اس کے بر عکس اپنے مُلک و قوم کا حال دیکھ لیں کہ کبھی بچّوںتو کبھی بچّوں کے سامنے ان کی ماؤںکی عِصمت تار تار کر دی جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں حالات اتنے ابتر نہیں تھے کہ والدین صرف تعلیم نہیں ،تربیت پر بھی خُوب توجّہ دیتے تھے۔

اب والدین بچّوں کے دوست بن بیٹھے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز ہیں، ان پر وہ جو چاہے دیکھیں تو جب تربیت موبائل فونز اور انٹرنیٹ کریں گے، تو معاشرے میں وہی کچھ ہوگا، جو آج ہورہا ہے۔ بچّوں کوفحش فلمز تک رسائی ، غیر اخلاقی ویب سائٹس تک دسترس دینے کے بعد ہم کیسے ایک ذہنی طور پر صحت مند معاشرے کی تشکیل کی بات کر سکتے ہیں؟‘‘ اساتذہ کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے واقعات پر ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا ہے کہ ’’ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، لیکن پھر وہی بات کہ جب تک نظام بہتر نہیں ہوگا، کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ جب ایک استاد کو ملازمت دی جارہی ہوتی ہے، تو ٹیسٹ میں اس کے مارکس، انٹرویو میں بات چیت، خود اعتمادی وغیرہ دیکھ کر ملازمت دے دی جاتی ہے، لیکن اس کا سابقہ ریکارڈ، اخلاق، کردار وغیرہ کے حوالے سے کوئی سوال پوچھا جاتا ہے،نہ چھان پھٹک کی جاتی ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ گھر میں ماسی، مالی، ڈرائیور وغیرہ رکھنے سے پہلے تو ہم دس بار سوچتے ہیں، اس کی بھر پور انکوائری کرواتے ہیںلیکن استاد، جس کے ہاتھ قوم کا مستقبل ہے، اسے بس ڈگریز، ٹیسٹ کے مارکس اور دس، بارہ منٹ کے انٹرویو کی بنا پر رکھ لیا جاتا ہے، کردار کو معیار ہی نہیں بنایا جاتا، تو پھر اس طرح کی شکایتیں تو آئیں گی ۔ یہ انتظامیہ کی ذمّے داری ہے کہ ٹیچرز کی ہائرنگ سے پہلے ان کی مکمل انکوائری کرے۔ دوسری جانب، اگر کسی استاد پر فردِ جرم(چارج شیٹ) ثابت ہو بھی جائے، تو ٹیچرز سوسائٹیز وغیرہ اس کی ڈھال بن جاتی ہیں۔‘‘

پروفیسر ڈاکٹر کیپٹن
(ر) جمیل حُسین

معاشرے میں پنپنے والی بے حِسی،سنگ دلی، بے راہ روی اور ذہنی پس ماندگی کی وجوہ کے بارے میں حیدر آباد مینٹل اسپتال کے سابق ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اور انڈس میڈیکل کالج، ٹنڈو محمّد خان کے شعبۂ طبّ ِ نفسیات کے سربراہ ، پروفیسر ڈاکٹر کیپٹن(ر)جمیل حُسین کا کہنا ہے کہ ’’معاشرہ در اصل ایک لیبارٹری کی طرح کام کرتا ہے،جہاں مختلف سوچ ، ذہنیت کے حامل افراد پائے جاتےہیں۔ رفتہ رفتہ معاشرے اور معاشرتی رویّوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب ہر ایک سو میں سے پانچ، سات فی صد افرادanti social personality disorder کا شکار ہیں۔ یعنی، ان کا رویّہ سماج کے مقرر کردہ اصولوں سے الگ ہے، وہ نارمل ویلیوز سے ہٹ کر کام کرتے ہیںاور اس میں کوئی قباحت، کوئی برائی بھی نہیں سمجھتے۔

ان کے نزدیک زیادتی، چوری یا ان جیسے دیگر واقعات جائز ہیں کہ وہ اپنی ہی ایک سوچ کے تحت کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواجہ سراؤں کو لے لیں، وہ عورت تو نہیں ہوتے، پھر بھی ان کی طرح رہتے ہیںاور معاشرہ بھی انہیں ویسے ہی قبول کرلیتا ہے۔ اب جہاں تک بات ہے کہ موٹر وے جیسے واقعات میں ملوّث درندوں کو کیسے قابو کیا جائے یا ان میں پنپنے والی سوچ کا ذمّے دار کون ہے، تو اس کی شروعات ہمیں اپنے گھروں اور تعلیمی اداروں سے کرنی پڑے گی۔ آج کل گھروں میں مناسب تربیت نہیں ہو رہی۔24 ،24 گھنٹے بچّوں کے ہاتھوں میں موبائل فونز رہتے ہیں،پرماؤں کو کوئی پروا ، فکرنہیں ہوتی اور فکر ہوگی بھی کیسے کہ وہ تو خود رات گئے تک انٹرنیٹ پر مصروف رہتی ہیں۔ پہلے جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا،بچّوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتاتو اس سے بچّوں کا ذہن کُھلتا تھا، انہیں اچھے بُرے کی تمیز ہوتی تھی، پر اب مغرب کی طرز پرانہیں، اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جب بچّوں کو گھر سے بھر پور توجّہ، اچھی تربیت نہیں ملتی ،تو ان میں اینٹی سوشل پرسنیلٹی ڈِس آرڈر جیسی بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔

دوسری جانب اپنے ٹی وی ڈرامے دیکھ لیں، ایسے موضوعات پر کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، جن کا معاشرتی اقدار، اخلاقیات سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو سماجی علوم ، اخلاقیات کے مضامین نصاب میں شامل ہی نہیں۔ چاہے، شعبۂ طب ہو، لاء یا انجینئرنگ ہر شعبے میں اخلاقیات سے متعلق مضمون لازمی پڑھانا چاہیے۔ mental health awareness کے حوالے سے کام ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں، ہمارے مُلک میں سزاو جزا کا نظام بہت کم زور ہےاور یہ انسانی فطرت ہےکہ جب تک سزا کا ڈر نہیں ہوگا، انصاف کی بر وقت فراہمی نہیں ہوگی، تب تک عمومی سُدھار ممکن نہیں۔ ‘‘