سیرت النبیﷺ (قسط نمبر 5)

September 27, 2020

دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا ،لودھراں

غزوۂ اُحد

قریش غزوۂ بدر کے بعد سے سخت غضب ناک تھے اور ہر صُورت مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے، چناں چہ اُنہوں نے ایک فیصلہ کُن جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ اطراف کے قبائل سے بھی افرادی قوّت فراہم کی جانے لگی۔ ایک سالہ تیاریوںکے بعد3ہزار جنگ جوؤں پر مشتمل لشکر پوری تیاری کے ساتھ مکّے سے نکلا۔ قافلے میں تین ہزار اونٹ تھے، جنھیں سواری اور سامان لادنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنگ کے لیے دو سو گھوڑے تھے، جن پر راستے میں سواری نہیں کی گئی۔لشکر کا سپہ سالار ابوسفیان کو مقرّر کیا گیا، جب کہ کمان خالد بن ولید کو سونپی گئی، عکرمہ بن ابوجہل کو اُن کا معاون بنایا گیا۔لشکر کی روانگی کی اطلاع ملتے ہی مدینے میں گویا ایمرجینسی نافذ کر دی گئی۔ تمام داخلی راستوں پر سخت پہرہ لگا دیا گیا اور اندرونِ مدینہ بھی مسلمان ہتھیاروں سے لیس رہنے لگے، حتیٰ کہ نماز میں بھی ہتھیار ساتھ رکھتے۔

قریش کے لشکر نے اُحد پہاڑ کے پاس چھے شوال، تین ہجری کو پڑاؤ ڈال دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں سے مشورہ طلب کیا۔ رسول اللہﷺ کی رائے یہ تھی کہ مدینے کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے، لیکن کئی ایک نے باہر نکل کر جنگ کا مشورہ دیا اور اس پر اصرار بھی کیا۔ آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کی جائے۔ رسول اللہﷺ نے نمازِ جمعہ پڑھائی اور جہاد کی ترغیب دی۔ نمازِ عصر کے بعد آپﷺ زرّہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ کبار صحابہؓ نے جذباتی نوجوانوں کو سمجھایا کہ’’ آپﷺ کی رائے کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھی‘‘ جس پر اُنھیں ندامت ہوئی اور آپﷺ سے فرمایا کہ’’ جیسے آپﷺ چاہیں، فیصلہ فرمائیں۔ چاہیں تو مدینے میں رہ کر دفاع کریں اور چاہیں تو باہر جا کر لڑیں۔‘‘ اِس پر آپﷺ نے فرمایا’’ کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے، تو اُس کے لیے مناسب نہیں کہ اُسے اُتارے، یہاں تک کہ اللہ اُس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ کر دے۔‘‘بعدازاں آپﷺ نے لشکر ترتیب دیا اور مدینے سے روانہ ہوگئے۔

رئیس المنافقین کی سرکشی

جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے، تو عبداللہ بن اُبی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا’’ میرا مشورہ کیوں نہیں مانا۔‘‘حالاں کہ اُس کے میدانِ جنگ سے لَوٹ جانے کی وجہ یہ ہر گز نہیں تھی، بلکہ مسلمانوں کے لشکر میں انتشار اور اضطراب پھیلانا اُس کا مقصد تھا، ورنہ وہ شروع ہی سے ساتھ نہ آتا۔ رسول اللہﷺ باقی لشکر کو، جس کی تعداد سات سو تھی، لے کر دشمن کی طرف بڑھے اور میدان میں پہنچ کر لشکر ترتیب دیا۔ماہرِ تیر اندازوں کا ایک دستہ پہاڑ کے ایک درّے پر تعیّنات کیا کہ دشمن اگر اُس طرف سے حملہ آور ہو، تو حفاظت کریں۔نیز، اُنھیں سختی سے تاکید فرمائی’’ فتح ہو یا شکست، جب تک مَیں بلاوا نہ بھیجوں، اپنی جگہ مت چھوڑنا۔‘‘جب لشکر تیار ہو گئے، تو قریش نے چال چلنے کی کوشش کی اور انصار کو پیغام بھیجا’’ تم ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ، تو ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے‘‘،

لیکن یہ سازش کام یاب نہ ہوئی اور انصار نے آپﷺ کا مکمل ساتھ دیا۔اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔گھمسان کا رَن پڑ چُکا تھا۔ مسلمانوں کے لشکر میں سے حضرت حمزہؓ اور حضرت ابو دجانہؓ کفّار کی صفوں کی صفیں اُلٹ رہے تھے۔تاہم حضرت حمزہؓ وحشی بن حرب کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور اُن کا بہت بے دردی سے مثلہ کیا گیا۔ مسلمانوں کی بہادری، جاں بازی اور اللہ کی نصرت کے باعث کفّار پسپا ہونے لگے، لیکن پھر ایک غلطی نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔جب تیر اندازوں کے دستے نے دیکھا کہ فتح ہو چُکی ہے اور مسلمان مالِ غنیمت جمع کر رہے ہیں، تو چالیس تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ کر میدان میں پہنچ گئے۔ اُن کے امیر نے اُنھیں نبی کریمﷺ کا حکم یاد دِلایا، لیکن وہ یہی سمجھے کہ اب تو مکمل فتح ہو چُکی ہے۔تاہم دستے کے امیر دس ساتھیوں کے ساتھ وہیں ڈٹے رہے۔

اُدھر خالد بن ولید نے دیکھا کہ تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ چُکے ہیں، تو اُنھوں نے وہاں موجود 10 صحابۂ کرامؓ کو شہید کرتے ہوئے میدان میں موجود مسلمانوں پر پیچھے سے دھاوا بول دیا۔ نیز، فرار ہوتے کفّار بھی پلٹ کر واپس آگئے۔یوں مسلمان دونوں طرف سے کافروں کے درمیان گِھر گئے۔ اس خوف ناک صُورتِ حال سے مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی اور پھر آپﷺ کی شہادت کی افواہ نے تو ہمّت ہی توڑ دی۔ لیکن بعض صحابۂ کرامؓ نے لشکر کو جوش دلایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں، تو تم کیوں زندہ ہو، چناں چہ صحابہؓ نے پلٹ کر دشمن پر حملہ کیا اور شہادت نوش کرتے رہے۔

اُدھر کفّار نے آپﷺ کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اوررسول اللہﷺ کے گرد شدید لڑائی جاری تھی۔ابتدا میں آپﷺ کے پاس صرف نو صحابۂ کرامؓ تھے، جب آپﷺ نے مسلمانوں کو اپنے پاس جمع ہونے کے لیے آواز دی، تو وہ مشرکین نے بھی سُن لی اور آپﷺ کا گھیراؤ کر لیا۔ نو میں سے سات صحابہؓ نبی کریمﷺ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے اور صرف دو باقی رہ گئے۔کفّار آپﷺ پر پے در پے حملے کر رہے تھے۔ عتبہ بن وقاص نے آپﷺ کو پتھر مارا، جس سے آپﷺ کا ایک دانت مبارک شہید ہوگیا۔ اُسی وقت عبداللہ بن قمئہ نے آپﷺپر تلوار سے حملہ کیا، جو آپﷺ کی زرّہ پر پڑی، جس کی دو کڑیاں آنکھ کے نیچے اُبھری ہڈی میں پیوست ہو گئیں۔

اُس وقت آپﷺ کے دفاع کے لیے دو قریشی صحابہؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ موجود تھے۔ حضرت طلحہؓ نے اکیلے گیارہ آدمیوں جتنا مقابلہ کیا اور بالآخر آپؓ کی انگلیاں تلوار کے ایک وار سے کٹ گئیں، جب کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سامنے آپﷺ نے اپنے ترکش کے تیر پھیلا دیے اور فرمایا’’ تیر چلاؤ! تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔‘‘اِن حالات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ پہلے صحابی تھے، جو کفّار کی صفیں چیر کر نبی کریمﷺ تک پہنچے۔ اُن کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ بھی آگئے اور یہی وہ خوش نصیب صحابی ہیں، جنہوں نے آپﷺ کے رخسارِ مبارک سے زرّہ کی کڑیاں اپنے دانتوں کے ذریعے نکالیں اور اسی کوشش میں اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے۔جب مسلمانوں کو پتا چلا کہ آپﷺ میدان میں موجود ہیں، تو اُن کے حوصلے پھر سے بلند ہو گئے۔

اُبی بن خلف موقع دیکھ کر آپﷺ کی طرف بڑھا، تو آپﷺ نے اُسے ایک چھوٹا نیزہ مارا، جس پر وہ لڑکھڑاتا ہوا اپنے لشکر میں واپس چلا گیا اور چِلانے لگا’’ مجھے محمّد(ﷺ) نے قتل کر دیا۔‘‘قریش نے دیکھا، تو اُسے ہلکی سی خراش آئی تھی، جس پر وہ اُس کا مذاق اُڑانے لگے، لیکن اُس نے کہا’’ (حضرت) محمّد(ﷺ)مجھے مکّے میں کہہ چُکے تھے کہ’’ مَیں تمہیں قتل کروں گا‘‘، اِس لیے اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو بھی میری جان چلی جاتی۔‘‘چناں چہ وہ مکّہ واپس لَوٹتے ہوئے راستے ہی میں مر گیا۔

اس کے بعد مشرکین نے آخری حملہ کیا، مسلمانوں کے شہداء کا مثلہ کیا اور واپس چل پڑے۔ ابو سفیان نے آواز لگائی’’ تم میں(حضرت) محمّد(ﷺ) ہیں؟‘‘ لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر اُس نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ کا پوچھا، لیکن کسی نے جواب نہ دیا، تو اُس نے خوشی کا اظہار کیا۔یہ سُن کر حضرت عُمرؓ سامنے آئے اور فرمایا’’ تم نے جن تینوں کے نام لیے، وہ سب زندہ ہیں۔‘‘اِس جنگ میں تقریباً ستّر صحابہؓ شہید ہوئے اور قریش کے مقتولین کی تعداد22 تھی۔ مسلمان واپس مدینے پہنچے، تو آپﷺ کو اندیشہ ہوا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ اِس جنگ سے اُنھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، تو وہ ضرور واپس آئیں گے،لہٰذا آپﷺ صبح قریش کے لشکر کے تعاقب میں روانہ ہوگئے۔

حمراء الاسد

رسول اللہﷺ مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد میں پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔ اُدھر کفّارِ مکّہ، آپﷺ کے خدشے کے عین مطابق مدینے پر چڑھائی کے لیے واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے، لیکن جب اُنھیں تعاقب میں آنے والے مسلمانوں کے لشکر کا علم ہوا، تو وہ مکّہ لوٹ گئے۔اِس معرکے سے متعلق سورۂ آلِ عمران کی 60 آیات نازل ہوئیں، جن سے معرکے کے نشیب و فراز کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔٭اِسی سال حضرت حفصہؓ بنتِ حضرت عُمر بن خطابؓ سے آپﷺ نے نکاح فرمایا، جو بیوہ تھیں۔٭اِسی سال آپﷺ نے اپنی دوسری بیٹی، حضرت اُمّ ِ کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کیا۔ یوں حضرت عثمانؓ کو’’ ذوالنّورین‘‘ یعنی’’ دو نور والا‘‘ کا لقب ملا۔٭وراثت کا تفصیلی حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔٭غزوۂ اُحد کے بعد کئی قبائل نے مسلمانوں پر حملوں کی تیاریاں کیں، لیکن اُن کے سَر کچل دیے گئے۔

رجیع کا حادثہ

چار ہجری، ماہِ صفر میں قارہ اور عضل کے لوگ آئے اور آپﷺ سے اپنے ساتھ کچھ معلّم روانہ فرمانے کی درخواست کی، جس پر آپﷺ نے حضرت عاصم بن ثابتؓ کی امارت میں دس صحابۂ کرامؓ اُن کے ساتھ روانہ فرما دیے۔جب وہ قبیلہ ہذیل کے چشمے، رجیع کے پاس پہنچے، تو ایک سو کے لگ بھگ تیر اندازوں نے اُنھیں گھیر لیا اور خود کو اُن کے حوالے کرنے کا کہا، لیکن حضرت عاصمؓ نے انکار کیا، تو اُنہوں نے آٹھ صحابۂ کرامؓ کو وہیں شہید کردیا اور دو یعنی حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ کو مکّے لے جا کر بیچ دیا۔ ان دونوں صحابہؓ نے بدر میں مشرکین کے سرکردہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔

کفّار نے حضرت خبیبؓ کو سولی پر چڑھا دیا۔ تختۂ دار پر جانے سے پہلے جب وہ دو رکعت پڑھ چُکے، تو ابو سفیان نے اُن سے کہا’’ کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ (حضرت) محمّد(ﷺ) کو سولی چڑھایا جائے‘‘، تو حضرت خبیبؓ نے تڑپ کر جواب دیا’’ مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ مَیں اپنے اہل و عیال میں آرام سے رہوں اور آپﷺ کو کانٹا چُبھے۔‘‘دوسرے صحابی حضرت زیدؓ کو صفوان بن امیّہ نے خرید کر اپنے باپ کے بدلے شہید کیا۔

بئرِ معونہ کا واقعہ

ابو عامر نامی شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہلِ نجد کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے صحابہؓ کو ساتھ بھیجنے کی درخواست کی۔ آپﷺ نے ستّر قراء اور عالم وفاضل صحابہؓ اس کے ساتھ روانہ کر دیے۔جب قافلہ بئرِ معونہ پہنچا، تو ابو عامر نے غدّاری کرتے ہوئے صحابہؓ کو شہید کروا دیا، صرف دو صحابہؓ زندہ رہے۔ ایک حضرت کعب بن زیدؓ جو زخمی حالت میں پائے گئے اور دوسرے حضرت عمرو بن امیّہ ضمریؓ تھے،جنھیں ابو عامر نے اپنی ماں کی نذر پوری کرنے کے لیے آزاد کر دیا تھا۔

غزوۂ بنی نضیر

آپﷺ دیت کی ادائی کے لیے یہودیوں کے قبیلے، بنو نضیر کے پاس گئے، تو اُنہوں نے آپﷺ کو نعوذ باللہ شہید کرنے کی سازش کی، لیکن آپﷺ کو وحی کے ذریعے بتلا دیا گیا، جس پر آپﷺ مدینہ منوّرہ واپس آ گئے اور فوراً حضرت محمّد بن مسلمہؓ کو بھیجا کہ وہ بنو نضیر کو عہد شکنی کے بدلے علاقے سے نکل جانے کا حکم پہنچا دیں۔

جب اُنھیں پیغام ملا، تو وہ جلاوطنی کی تیاری کرنے لگے، لیکن عبداللہ بن اُبی نے کہلا بھیجا کہ’’ میرے پاس دو ہزار سپاہی ہیں، جو تمھاری مدد کو آئیں گے، لہٰذا اپنا علاقہ مت چھوڑو۔‘‘اِس پر بنو نضیر نے آپﷺ کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔چناں چہ آپﷺربیع الاول، چار ہجری کو فوج لے کر بنو نضیر کے علاقے میں پہنچے، تو وہ قلعہ بند ہو گئے۔مسلمانوں نے کئی روز اُن کا محاصرہ کیا۔ جب منافقین کی مدد نہیں پہنچی اور اُن کے حلیف بنو قریظہ وغیرہ بھی نہیں آئے، تو اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور جلا وطنی پر راضی ہو گئے۔

غزوۂ بدرِ دوم

ابو سفیان نے مسلمانوں کو ایک سال بعد بدر کے مقام پر جنگ کا عندیہ دیا تھا، چناں چہ سال پورا ہوتے ہی آپﷺ پندرہ سو صحابہؓ کی جمعیت لے کر بدر کی طرف گئے اور آٹھ دن وہاں قیام کیا۔ ابو سفیان بھی دو ہزار افراد لے کر نکلا، لیکن راستے ہی سے واپس لوٹ گیا۔

غزوۂ خندق

چار اور پانچ ہجری کا کچھ حصّہ سکون سے گزرا، جس کے دَوران کوئی جنگی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن یہود نے، جنھیں جلا وطن کر دیا گیا تھا، اپنی سازشیں جاری رکھیں۔وہ خود مسلمانوں سے ٹکر لینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، لہٰذا یہودیوں کے 20 سردار حیی بن اخطب کی سربراہی میں مشرکین کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے مکہ گئے۔بعدازاں یہ وفد بنو غطفان کے پاس گیا اور اُنھیں بھی جنگ پر آمادہ کر لیا۔ اس کے بعد قبیلہ قبیلہ گھوم کر لوگوں کو جنگ کی ترغیب دی، یوں اُنھوں نے بہت سے جنگ جُو تیار کر لیے۔ان سب قبائل نے طے شدہ پروگرام کے مطابق مدینے کا رُخ کیا اور چند دن کے اندر اندر مدینے کے گرد دس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔

اس کے جواب میں مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر شہر کے اطراف خندقیں کھود کر لشکر کو دُور رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ صحابۂ کرامؓ نے بھوک کی شدّت کے باوجود سارا سارا دن محنت کر کے خندقیں کھودیں، خود آپﷺ بھی کُھدائی کے اِس عمل میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔جب مشرکین حملے کے لیے مدینے کی جانب بڑھے، تو آگے خندقیں دیکھ کر حیران رہ گئے، کیوں کہ عرب میں اِس کا رواج نہیں تھا۔ مشرکین نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح خندق پار کر لی جائے، لیکن مسلمان پوری طرح چوکس تھے۔اس معرکے میں آمنے سامنے ہو کر تلواروں سے جنگ کی نوبت نہیں آئی، البتہ تیر اندازی ہوتی رہی، جس سے چھے مسلمان شہید اور دس مشرک ہلاک ہوئے۔

ایک طرف مسلمان اِس صُورتِ حال سے دوچار تھے، دوسری طرف، مدینے کے یہودیوں نے، جو مسلمانوں کے اتحادی تھے، عین جنگ کے موقعے پر بغاوت کردی، جس سے صُورتِ حال مزید گمبھیر ہوگئی کہ آگے مشرکین تھے اور پیچھے یہودی۔تاہم نبی کریمﷺ کی حکمتِ عملی سے کفّارِ مکّہ اور یہودیوں میں پُھوٹ پڑ گئی۔اُدھر اللہ ربّ العزّت نے تیز ہواؤں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی، جس سے مشرکین کے خیمے اُکھڑ گئے اور وہ واپس لَوٹ گئے۔ مشرکین نے ایک مہینے تک مدینے کا محاصرہ کیا۔ (جاری ہے)